ازقلم: محمد نصر الله ندوی
_______________
کسان ایک بار پھر سڑکوں پر ہے،اور حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے، وہ اپنی فصل کو بچانے کیلئے آندولن کر رہا ہے،وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کاشتکاری کو بچانے کیلئے قربانی کی ضرورت ہے،اس کے بغیر نہ تو ملک میں کوئی انقلاب آسکتا ہے،اور نہ ہی تانا شاہی سرکار کسانوں کے جائز مطالبات تسلیم کر سکتی ہے،اس لئے ایک بار پھر وہ سڑکوں پر حکومت سے زور آزمائی کر رہے ہیں اور اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے جد وجہد کر رہے ہیں،ان کو جان کی پرواہ ہے نہ مال کی ہے،سردی کی شدت میں وہ کھلے آسمان کے نیچے رات گزارنے کیلئے مجبور ہیں،آنسو کے گیس کے گو لے اور پولیس کی گولیاں کھا کر بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوئی،ان کے حوصلے بلند ہیں،وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے جس راستہ کو اختیار کیا ہے،اس میں سنگلاخ وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے،اس راستہ میں جان ومال کی قربانی دینی پڑتی ہے،تب جا کر منزل نصیب ہوتی ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کی سرحد پر اس وقت میدان جنگ کا سماں ہے،ایک طرف ٹریکٹر کے ساتھ کسان ڈٹے ہیں،تو دوسری طرف ہریانہ کی پولیس ان کا راستہ روکنے کیلئے تمام تر ہتھیاروں کے ساتھ تعنیات ہے،کسان نے اپنا قدم آگے بڑھایا نہیں کہ پولیس حرکت میں آجاتی ہے اور کسانوں پر ٹوٹ پڑتی ہے،میڈیا کی خبروں کے مطابق اب تک چار سو سے زیادہ کسان زخمی ہوچکے ہیں،جن میں سو کے قریب شدید زخمی ہیں،اب تک کئی کسانوں کی بینائی جا چکی ہے،اور خدشہ ہے کہ کچھ اور لوگ اس کی زد میں آسکتے ہیں۔
دوسری طرف مسلمان ہیں،جن کے وجود کو مٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں،چن چن کر اسلامی آثار کو نیست ونابود کیا جارہا ہے،مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے،اس کی آنے والی نسلوں کو مرتد بنانے کی ہر ممکن تدبیریں کی جارہی ہیں،اترا کھنڈ کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے،جہاں یونیفارم سول کو جبرا نافذ کردیا گیا ،یہ اسلامی شریعت پر سب سے بڑا حملہ ہے،لیکن مسلمان کے اندر کوئی حرکت نظر نہیں آرہی ہے،ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں،کچھ بھاشن باز مسلم لیڈران بابری مسجد کے مسئلہ کو گرم رکھنا چاہتے ہیں ،تا کہ مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر الیکشن میں ووٹ حاصل کیاجائے،جب کہ اس وقت گیان واپی مسجد کا ایشو سب سے بڑا ہے،ہونا یہ چاہئے تھا کہ مسلمان اس مسئلہ پر سخت احتجاج کریں اور حکومت کو دوٹوک پیغام دیں،لیکن اس کیلئے سڑکوں پر اترنا پڑے گا اور جان ومال کی قربانی دینی پڑے گی،یہ کرنے کا اصل کام ہے،لیکن بھاشن باز لیڈران مسلمانوں کو بابری مسجد کے مسئلہ میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں،تا کہ بغیر کسی مشقت اور قربانی کے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرکے ان کے درمیان مقبولیت میں اضافہ کیا جائے!
افسوس کہ مسلمان صرف لفاظی اور بھاشن بازی کو ہی سب کچھ سمجھ لیتا ہے،اور بڑی آسانی سے جوش خطابت کی رو میں بہ جاتا ہے،اور جوش میں آکر ہوش کا دامن چھوڑ دیتا ہے،حالانکہ قدرت نے اسے عقل وشعور کی دولت سے نوازا ہے،اس پر لازم ہے کہ وہ اس نعمت کا صحیح استعمال کرے اور نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی کوشش کرے،ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان موجودہ حالات میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے کا عزم مصمم کرے،اس کے بغیر نہ تو اس کی آنے والی نسلیں ایمان پر قائم رہ سکتی ہیں ،اور نہ اس کی مساجد اور دیگر شعائر حکومت کے دست ستم سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔