Site icon

مولانا امام الدین قاسمی رح

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

______________

مولانا محمد امام الدین قاسمی ولد مولانا صغیر احمد ساکن مؤمن ٹولہ، ڈاکخانہ پنڈول ضلع مدھوبنی کا انتقال یکم فروری 2024ء کو ہو گیا ، اللّٰہ کے یہاں وقت مقرر تھا، لیکن بندوں کو اس وقت کا پتہ نہیں ہوتا ہے ، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اچانک ہی سب کچھ ہو گیا ، وہ معمول کے مطابق الحمد ٹرسٹ میں اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے آئے تھے ، چار بجے کے قریب دفتر میں ہی ان کو برین ہمریج ہوا، اٹھا بیٹھا کر قریب کے ایس ایس ہوسپیٹل لے جایا گیا، ڈاکٹر نے مایوسی کا اظہار کیا، دل کی تسلی کے لیے لوگ پارس ہوسپیٹل سمن پورہ لے گیے ، وہاں ایڈمٹ نہیں ہوئے اور ڈاکٹر نے ان کے دنیا چھوڑنے کا اعلان کر دیا، جنازہ امارت شرعیہ کے ایمبولینس سے ان کے آبائی گاؤں مؤمن پور لے جایا گیا، حضرت امیر شریعت کی ہدایت پر ایک مؤقر وفد ان کے گاؤں گیا، جس میں قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی ، مولانا احمد حسین قاسمی معاون ناظم، مولانا عبد اللہ جاوید، مدھوبنی ضلع کے قضاۃ ومعاونین قضاۃ اور ضلع کمیٹی کے ذمہ داران شریک تھے بعد نماز جمعہ 2؍ فروری2024ء کو مومن پور پنڈول کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ذمہ داروں نے تعزیت اور تسلی کے کلمات کہے، حضرت امیر شریعت کی طرف سے وارثین تک تعزیتی پیغامات پہونچائے گیے ، جنازہ کی نماز ان کے حقیقی ماموں مولانا بدیع الزماں قاسمی نے پڑھائی، جنازہ میں علمائ، صلحاء اور عوام الناس کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے ۔
تعلیمی اسناد کے مطابق ان کی ولادت یکم مئی 1987ء کو ان کے آبائی گاؤں مومن پور پنڈول مدھوبنی میں ہوئی ، صرف چار سال کی عمرمیں والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، خالہ دوسری ماں کی حیثیت سے ان کے والد کے نکاح میں آئیں اور انہوں نے شفقت ومحبت سے اس بچے کی پرورش وپرداخت کی۔ مولانا چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، پس ماندگان میں اہلیہ ، والد اور دو چھوٹے بھائیوں کو چھوڑا، ایک بھائی کا انتقال گذشتہ سال ہی جواں عمری میں ہو چکا تھا، یہ دوسرا حادثہ مولانا کے والد کے لیے سوہان روح ہے اور کہنا چاہیے کہ ان کو اندر تک توڑ کر رکھ دیا ہے ، لیکن اللہ نے بڑا صبر وحوصلہ دیا ہے ، اور اس وقت درد والم، غم واندوہ کی شدت کے باوجود وہ راضی برضائے الٰہی کا پیکر اور صبر واستقامت کی تصویر نظر آتے ہیں۔ والد صاحب کرناٹک کے ایک مدرسہ میں استاذ تھے، اس لیے ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی ، حفظ قرآن کے لیے مدرسہ محمود العلوم دملہ مدھوبنی میں داخل ہوئے اور تکمیل حفظ کے بعد عربی سوم تک کی تعلیم وہیں حاصل کی، عربی چہارم میں دار العلوم وقف دیو بند میں داخلہ لیا اور  فراغت پائی، ایک سال تکمیل عربی ادب میں بھی لگایا، وہاں سے پھر المعہد العالی امارت شرعیہ آگیے اور تدریب افتاء وقضاء میں دو سال لگایا، فراغت کے بعد امارت شرعیہ کے مرکزی دار القضاء میں 20؍ شوال المکرم 1433ھ میں امیر شریعت سادس کے حکم سے بحالی عمل میں آئی اورمسلسل دس سال انہوں نے یہاں اپنے مفوضہ امور کو انجام دیا ، قاضی شریعت مولانامحمد انظار عالم قاسمی کی تجویز اور مشورہ کے مطابق 17؍ شعبان 1443ھ مطابق 21؍ مارچ 2022ء کو امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ نے ان کا تبادلہ دار القضاء جگت سنگھ پور اڈیشہ کردیا، یہ دار القضاء وہاں نیا کھلا تھا اور تجربہ کارقاضی کی ضرورت تھی، ان بڑوں کی نظر انتخاب مولانا مرحوم پر جا کر ٹک گئی مرحوم نے سمع وطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں جوائن بھی کر لیا اور رمضان کی تعطیلات تک وہیں، خدمت انجام دیتے رہے، لیکن عید بعد وہاں جانے سے انہوں نے معذرت کر لی ، کیوں کہ وہاں کی آب وہوا ان کے مطابق نہیں تھی، اڑیا زبان ان کو نہیں آتی تھی، لا ولد ہونے کی وجہ سے آدم کہیں، حوا کہیں کے مصداق ان کے لیے میاں بیوی کا الگ الگ رہنا بھی ممکن نہیں تھا، ان کی خواہش مرکزی دفتر میں حسب سابق خدمت انجام دینے کی تھی، لیکن یہ خواہش بعض وجوہ سے ان کی پوری نہیں ہو سکی،اس لیے انہوں نے تین ماہ کے بعد ہی دار القضاء امارت شرعیہ سے علاحدگی اختیار کرلی،نہ یہ تبادلے کا عمل پہلی بار ہوا تھا اورنہ ہی تبادلے کے بعد علاحدگی کا فیصلہ پہلی بار تھا، اس لیے اس عمل کو معمول کا حصہ ہی سمجھا گیا، لیکن مولانا مرحوم کو امارت شرعیہ سے جو محبت تھی ، اس کی وجہ سے وہ مایوسی کے شکار ہو گیے، مسئلہ معاش کا بھی تھا، اس کے لے انہوں نے جمال الدین چک میں مکتب میں تعلیم دینی شروع کی اور جمعہ کی امامت بھی کرنے لگے، 15؍ مارچ 2023ء سے الحمد ٹرسٹ ہارون نگر میں خدمت انجام دینے لگے اور دم واپسیں تک وہیں رہے ۔
مولانا امام الدین قاسمی خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش مزاج اور کم گفتار لوگوں میں تھے، ان کے ہونٹوں پر تبسم کی لکیر ہر وقت ہوا کرتی تھی، جسے لوگ واضح طور پر محسوس کرتے تھے، ان کا تعلیمی رکارڈ بھی بہت اچھا تھا، ان کی خوش خطی کی وقف کے اساتذہ نہ صرف تعریف کرتے تھے، بلکہ طلبہ کو دکھا کر ترغیب بھی دیتے تھے کہ اس طرح لکھا کرو، دورہ کے سال انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ صحاح ستہ کا تکرار کرایا اور بڑی تعداد میں طلبہ ان کے تکرار میں شریک ہوا کرتے تھے۔
میری ان سے ملاقات امارت شرعیہ آنے کے بعد ہوئی تھی ، وفود کے بعض دوروں میں وہ میرے شریک سفرتھے، میں نے انہیں اپنے کام سے کام رکھنے والا پایا، سفر میں قائد سفر کی رعایت اور سمع وطاعت کا مزاج تھا، خوش سلیقگی کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا کرتے تھے، بعض موقعوں پر وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ میرے گھر بھی تشریف لائے تھے،  ان کے مزاج میں شور وغوغا نہیں تھا، وہ سارے دُکھ ، مصائب اور مسائل کا سامنا خود کرنے کے عادی تھے، دوسروں سے اپنی پریشانیاں شِیَر بھی نہیں کرتے تھے، ایسے لوگ سارا بار والم اپنے دل پر اٹھا لیتے ہیں، اور جب دل اس بوجھ کو اٹھا نہیں پاتا تو دل کا دورہ پڑتا ہے اور کبھی برین ہیمریج ہوجاتا ہے۔ مولانا کا برین ہیمریج ہوا ناک اور کان سے خون نکلنے لگا اور مولانا چل بسے، وجوہات جو بھی ہوں ہم نے ایک با صلاحیت قاضی کو کھو دیا ہے۔یہ اتفاق ہے اور خود میری گوشہ نشینی کہ جو امارت سے الگ ہوجاتا ہے، اس سے میری ملاقات نہ جسمانی طور پرہوتی ہے اور نہ فون سے ، چنانچہ امارت سے علاحدگی کے بعد ان سے نہ میری کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی ٹیلی فونک گفتگو ، تا آں کہ ان کے انتقال پُر ملال کی خبر آگئی، میں سفر میں تھا اس لیے آخری دیدار اور جنازہ میں شرکت سے بھی معذور رہا، اللہ رب العزت ان کے گناہوں کو معاف فرمائے، درجات بلند کرے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین یا رب العالمین

Exit mobile version