ازقلم: ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
_______________
انسانی رشتوں کے تقدس کا تحفظ اور سماجی ناہمواری کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ سماج میں باہم حقوق و فرائض کا مکمل خیال رکھا جائے ۔ عقیدت و احترام میں توازن و اعتدال کا رویہ اپنایا جائے ۔ سب سے ضروری یہ ہے کہ ارباب سیاست اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے حصے کی ذمے داریوں کا صرف احساس ہی نہ ہو بلکہ متعلقہ تمام ذمے داریوں کو بحسن وخوبی انجام بھی دیں ۔ معاملات اس وقت دگر گوں ہوتے ہیں جب ذمے داریوں کا احساس و ادراک ختم ہو جاتا ہے ۔
عہد حاضر میں ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے مباحث و مسائل موجود ہیں جن کو صرف عقیدت و احترام کی بنیاد پر مذہب و شریعت کا حصہ سمجھ کرانجام دیا جارہاہے جب کہ ان کا اصل مذہب و دین سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ آج جو چیزیں کسی عقیدت و احترام کے نام پر معاشرے میں راسخ ہوچکی ہیں ان کے خلاف بات کرنا یا انہیں غیر ضروری قرار دینا، گویا سچ بتانا جرم سمجھا جاتا ہے ۔ ہوتا یہ ہے کہ جو طبقہ اس طرح کی غیر حتمی روایات کو فروغ دیتا ہے اس کا اثر سماج کے ان افراد پر بڑا گہرا ہوتا ہے جو نہایت غیر سنجیدہ اور فہم و فراست سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں رسمی باتوں اور غیر مستند چیزوں کو اصل مذہب سمجھ لیا جاتا ہے جس سے معاشرے میں نہ صرف بد امنی یا بے یقینی کی راہ ہموار ہوتی ہے بلکہ بہت سارے شکوک وشبہات بھی پیدا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتا ہے ۔
اس تناظر میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہاں دونوں طبقوں یعنی اس گروہ کو جو دین و دھرم کے نام پر اپنے حواریوں سے غیر مستند باتیں مشتہر کرارہا ہے اسے بھی، اور جو گروہ انہیں چیزوں کو مستند سمجھ کر دھرم سے تعبیر کررہا ہے ا سے بھی، اپنے افکار و خیالات پر نظر ثانی کرنی ہوگی، کیونکہ سچ یہ ہے کہ دونوں کردار اور دونوں اقدام اصل مذہب کو مجروح کررہے ہیں ۔ جن باتوں کی بنیاد اور جن تعلیمات کی بدولت سماج کو یکجا اور ہم آہنگ ہونا چاہیے تھا ،آج انہیں باتوں اور تعلیمات کی بنیاد پر معاشرے میں نفرت ، عداوت اور افتراق و انتشار بپا کیا جارہا ہے ۔ اس صورت حال میں تعلیمی، معاشی اور اقتصادی نقصان کس کا ہو رہا ہے اس پر عوام کو سوچنا ہوگا ۔
مذہب یقیناً ایک ایسا نظام ہے جو زندگی کو خوشگوار ہی نہیں بناتا ہے بلکہ بہت ساری الجھنوں ، مشکلوں اور مصائب سے نجات بھی دلاتا ہے ۔ سماجی فلاح اور فکری توازن برقرار رکھتا ہے ۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کہ جب لوگ مذہب کا استعمال سیاسی فوائد اور اقتدار کے حصول کے لیے کرنے لگیں اور عوام کو مذہب کا جھانسہ دے کر ان کے جملہ بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے ، تو پھر ہر مذہب کی عوام کو سوال کرنا چاہیے کہ مذہب کا جو رول ہے اس کا انظباق یہاں نہیں ہورہا ہے؟ اس لیے مذہب کے نام پر ہم کسی بھی طرح کے جھانسے میں نہیں آئیں گے، ہمیں ہمارے حقوق چاہیے۔ تب سیاسی اتھل پتھل یا سیاسی بالادستی کے لیے مذہب کا استعمال نہیں ہوگا ۔ عقیدت و احترام ہونا الگ مسئلہ ہے لیکن کسی شخصیت یا کسی سیاسی جماعت سے اس قدر عقیدت کا اظہار کیا جائے کہ اپنے حقوق ہی کو نظر انداز کر ڈالیں تو یاد رکھیے یہ رویہ خود آپ کے لیے نقصان کا باعث ہے ۔
ہندوستان کی عوام اور حالیہ سیاسی و سماجی منظر نامے کی بات کریں تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ اس وقت مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں نے مذہب و سیاست کا جو مرکب تیار کیا ہے اس نے عوام کو اس طرح جکڑ لیا ہے کہ انہیں صرف مذہب تو نظر آرہا ہے لیکن اپنے حقوق کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں جس سے سماج کا توازن بگڑ رہا ہے ۔ نتیجتاً نہ ہی لوگ مذہب کے تابع ہورہے ہیں اور نہ سیاست داں اپنا کام کررہے ہیں۔ اگر اس تعبیر کو بدل ڈالیں ، سیاست اور مذہب میں توازن پیدا ہو جائے تو بہت سارے معاشرتی مسائل کا حل آسانی سے نکل آئے گا ۔ صورت حال غیر مناسب اس لیے بھی ہے کہ مذہب کا غلط استعمال ہر قوم و ملت کے نام نہاد مذہبی رہنماؤں نے کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ایک بڑا طبقہ ہر مذہب میں ایسا مل جائے گا جو بہت ساری باتوں کو مذہب کے نام پر اور اجر و ثواب کے نام پر انجام دے رہا ہے لیکن سچ مچ میں اس کے اس عمل کا کوئی بھی رشتہ مذہب سے نہیں ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات کو دیکھ کر مذہب کے جان کار یا عوامی مذہبی رہنما منع بھی نہیں کرتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں اگر ہم نے اس کو روکا اور اصل مذہب سے متعارف کرایا تو پھر ہمارا معاشی پروجیکٹ متاثر ہو جائے گا ۔
جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاتا جس کے اندر شعور و آگہی پائی جائے ، جو اپنی فکر و نظر کے ذریعہ سے ان تمام غیر مناسب عوامل کی تردید کرتا ،جو مذہب و دین اور دھرم کے نام پر ان سے کرایا جارہاہے ۔
اگر مذاہب و ادیان کو اصل مصادر و مراجع سے سمجھیں اور پھر سماج میں پائی جانے والی خرافات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں کافی فرق ہے ۔لہذا عوام ، خصوصاً ہمارے نوجوانوں کو نہایت سنجیدگی سے اس جانب توجہ مبذول کرنی ہوگی اور سوچنا ہوگا کہ اصل مذہب کیا ہے؟ اور ہم سے مذہب کے نام جو کچھ کرایا جارہاہے وہ ان نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی ایجادات و اختراعات تو نہیں ہیں؟
یاد رکھیے! معاشرے میں آج جو بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، جوکہ ہماری قومی ترقی اور فلاحی امور میں رکاوٹ کا سبب ہیں یا تکثیری سماج میں یگانگت کے تصور کو جس طرح مخدوش کررہے ہیں ان کے پس پردہ اسباب و عوامل کو سمجھنے کی سعی کریں تو پتہ چلتا ہے مذہب کا منفی استعمال ہے ۔ مذاہب کے اندر جو توسع پایا جاتاہے اور جس طرح سے مذاہب کے اندر عوام کی فلاح ، سماجی بہبود ، حریت نفس کا جامع تصور ملتا ہے کہیں نہ کہیں اس خداداد وسعت کو ہم نے معدوم کیا ہے ۔ اس نکتہ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تبھی جاکر وہ تمام سماجی مسائل حل ہوں گے جو معاشرے کو دولخت کررہے ہیں ۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے معاشرہ کو انہی مذہبی رہنماؤں نے جذباتی اور اشتعال انگیز بنادیا ہے ۔ تحمل و برداشت یا مخالف نظریات و افکار کو برداشت کرنا تو کجا مخالف نظریات کو سننا تک پسند نہیں کرتے ہیں ۔ معاف کیجیے گا جذباتیت کا یہ پہلو مسلمانوں میں غالب ہے۔ یہ بھی ایک ایسا مرض ہے جو کسی قوم کو اندر سے متاثر کرتا ہے۔ اس کی فکر و نظر کمزور کرتا ہے ، حتی کہ ایسا معاشرہ اپنی تمام تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں سے بھی محروم ہو جاتا ہے جو اسے خدا نے عنایت کی ہیں۔ ہمیں عہد حاضر میں ان تمام چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو معاشرے کی ترقی یا اتحاد و اتفاق میں آڑے آرہی ہیں ۔ معاشروں کو کمزور کرنے یا ان کا شیرازہ منتشر کرنے کے لیے مخصوص افکار و نظریات سے مسلح افراد جو کاوشیں ملکی اور عالمی سطح پر انجام دے رہے ہیں ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمیں مکالمات و مذاکرات کی راہ اختیار کرنی ہوگی ، افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا ہوگا ۔ جذبات میں آکر ، یا مشتعل ہوکر بالفاظ دیگر مظاہرے کرکے ہم اس طرح کی چیزوں پر قابو نہیں پاسکتے ہیں ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں ہماری قیادت نے حقوق کی بازیابی کے لیے مظاہرے کرنا تو سکھائے ، ریلیاں نکالنی تو سکھائیں، لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ اس طرح کے رویوں سے منفی پیغام جاتاہے جو ہماری تہذیب و معاشرت کو متاثر کرتا ہے ۔ اس لیے حساس قوموں کا وطیرہ کسی بھی معاملے میں متوازن اور سنجیدہ ہوتا ہے، یہی طرز عمل ہمیں دین و دھرم کی تعلیمات بتاتی ہیں اور انہیں بنیادوں پر معاشرے اپنے پورے وجود کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ۔