از: مولاناعبدالحمید نعمانی
_____________
ملک میں اس کا بڑا چرچا ہے کہ بھارت بدل رہا ہے لیکن اس پر توجہ بہت کم ہے کہ تیزی سے بدلتے حالات میں ترجیحات و انتخابات کا مسئلہ بہت اہم ہے مذہبی و سماجی تنظیموں، اداروں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے سامنے بھی کئی طرح کی ایسی باتیں ہیں جن میں ان کے لیے ترجیحات طے کر کے پہلے اور بعد کی باتوں میں انتخاب کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے، اس حوالے سے کئی سارے سوالات بھی ہمارے سامنے آ رہے ہیں ایک بڑا اور بنیادی سوال ان مسلمانوں کے سامنے ہے جنہوں نے تحریکات آزادی کے دوران میں فیصلہ کیا تھا کہ ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ اکھنڈ بھارت کی حیثیت کو باقی رکھیں گے اور مختلف مذاہب و فرقے والے ملک بھارت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یگانگت کے ساتھ رہ کر اس میں رنگا رنگی کا بہتر نمونہ پیش کر کے دکھائیں گے، اختلافات کے باوجود بھی متحد رہ سکتے ہیں، اس سلسلے میں جناح کو غلط ثابت کر دیں گے، اس فکر و عمل کے حامل معماران وطن نے تقسیم وطن کے بعد بھی ایک اچھی امید و حوصلہ کے ساتھ متحدہ قومیت کے تصور کو ترک نہیں کیا، پاکستان سے لسانی تنازعہ کی بنیادپر بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد ایک طرح سے یہ ثابت ہو گیا کہ مولانا آزاد رح مولانا مدنی رح گاندھی وغیرہم صحیح تھے، گرچہ پٹیل، نہرو، گاندھی برٹش سامراج کی تگڑم بازی اور جناح، ماونٹ بیٹن کی حکمت عملی کے دباؤ کو جھیل نہیں سکے اور آخری مرحلے میں تقسیم وطن کے لیے تیار ہو گئے تاہم تقسیم وطن کے مخالف مسلم قائدین و اکابر آخر آخر تک تقسیم ہند پر راضی نہیں ہوئے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ دو قومی نظریے اور مقدس و ملیچھ پر مبنی ہندستانی سماج کے حامی ہندوتو وادی عناصر اکھنڈ بھارت کو کھنڈ کھنڈ کرنے کے لیے اصلا ذمیدار ہیں، وہ بدلتے حالات میں بھی اپنی روایتی تنگ نظری اور دیگر سے نفرت کو تیاگ کر خود کو بہتر تبدیلی کے لیے تیار نہیں کر سکے اور آج بھی وہ روایتی تنگ نظری اور نفرت پسندی کے روگ کا علاج کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے ہیں، یہ سب کچھ جناح کو صحیح ثابت کرنے کی مسلسل کوششوں کا حصہ ہے، جیسا کہ وہ پہلے بھی ساورکر کی طرف سے دو قومی نظریہ پیش کرنے کی مہم کے تحت دیکھا جا سکتا ہے، جمعیۃ علماء ہند، امارت شرعیہ، مومن کانفرنس کے اکابر اور رہ نماؤں کا کہنا تھا کہ ہم غیر مسلموں کے ساتھ بھارت میں مل جل کر رہ سکتے ہیں، ایسی حالت میں مسلمانوں اور ان کی علیحدہ تہذیب و ثقافت اور نظریہ حیات کے نام پر الگ ملک بنانے کی قطعا ضرورت نہیں ہے، اس کے برخلاف جناح کا کہنا تھا کہ ہندو اپنی مخصوص فکر و روایت کے سبب مسلمانوں کو اپنی مذہبی، تہذیبی اور ملی شناخت کے ساتھ متحدہ بھارت میں آزادی سے زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں گے، اور ان کو ہر طرح سے کمزور اور برباد کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہیں گے، ان کی وفاداری پر بھروسہ کرنا دانش مندی نہیں ہے، شیخ عبداللہ کشمیری نے اپنی آپ بیتی آتش چنار میں لکھا ہے کہ میں 1944 میں میں محمد علی جناح سے ملاقات کرنے گیا تھا تو انہوں نے ان الفاظ میں نصیحت کی کہ میں آپ کے باپ کی مانند ہوں اور میں نے سیاست میں بال سفید کیے ہیں، میرا تجربہ ہے کہ ہندوؤں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، یہ کھبی آپ کے دوست نہیں بن سکتے، میں نے زندگی بھر ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے، (آتش چنار صفحہ 309)
جناح کے بیان کردہ تجربہ کو غلط ثابت کرنے اور متحدہ بھارت کے حامی بزرگوں، مولانا آزاد رح، مولانا مدنی رح، مفتی کفایت اللہ رح، مولانا احمد سعید دہلوی رح، مجاہد ملت رح کو صحیح ثابت کرنے کی بڑی ذمہ داری ملک کی ہندو اکثریت کی زیادہ ہے، خاص طور سے جو بھارت کی تقسیم کو غلط کاری سمجھنے اور ماں کا قتل قرار دیتے رہے ہیں، انسانیت نوازی کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوقومی نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے وطنی حیثیت سے ملک کے تمام باشندوں کو بلا تفریق مذہب و فرقہ بھارت میں جن مسلمانوں نے رہنے کا فیصلہ کیا ہے ان کے ساتھ منصفانہ اور برابری کا سلوک کیا جائے، یہ صرف زبان اور نعرے کی حد تک نہیں رہنا چاہیے، بھارت اور خصوصا غیر ممالک میں صرف برابری اور انصاف کی بات کرنا کافی نہیں ہے بلکہ عملا بھی انصاف و مساوات کا سلوک ہونا چاہیے اور یہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، دو قومی نظریے کے حامی عناصر نے اپنے کیے عمل کا جواز نکالنا شروع کر دیا تھا، وہ گاندھی جی کے بارے میں بھی ناقابل یقین باتیں کرنے اور لکھنے لگے تھے، مسلم لیگ کے صدر رہ چکے آغا خان نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ گاندھی جی باپو کہلانے کے باوجود ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کو اپنی اولاد دل سے نہیں بلکہ سیاست کے تحت کہتے تھے،
ظاہر ہے کہ اس طرح کی باتیں صداقت و حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، لیکن ہم بدلتے بھارت میں دیکھ رہے ہیں کہ جناح کو صحیح اور گاندھی کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں مختلف سطحوں پر کی جا رہی ہیں، منفی و جارحانہ ہندوتو کے خلاف گاندھی جی ایک ایسی طاقت ور آواز ہیں جس کو دبانے اور ختم کرنے کی عجیب عجیب قسم کی کوششیں کی جا رہی ہیں، گاندھی جی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے جب کہ جناح کی طرح آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کے سخت خلاف تھے اور اسی معاملے کو لے کر کانگریس سے الگ ہو گئے تھے، اگر مختلف باتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو مسئلے کو سمجھنے میں کوئی زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ کس طرح جناح کو صحیح اور گاندھی، آزاد رح، مدنی رح کو غلط ثابت کرنے کی مہم زوروں پر ہے، جس کے اثرات و نتائج بڑے مضر و دوررس مرتب و بر آمد ہو رہے ہیں، اور آنے والے دنوں میں بھی ہوں گے، ان کی زد میں ملک کے تمام محنت کش طبقات کے لوگ، دلت، آدی واسی اور اقلیتوں میں مسلم اقلیت سب سے زیادہ ہے، یہ صورت حال بہت سی باتوں کو مسلسل نظر انداز کرنے اور اپنے ضروری فرائض سے غفلت وفرض ناشناسی کے سبب پیدا ہوئی ہے، اس سلسلے میں خاص طور سے سیاسی پارٹیوں کا رول بہت ہی خراب رہا ہے، وہ اقتدار کی ملائی کھانے اور ووٹوں کے چکر میں ایسے کام کیے گئے اور آج بھی کیے جا رہے ہیں جن کا وزن،واسطہ، بلا واسطہ طور پر فرقہ پرست عناصر اور پارٹیوں کے پلڑے میں پڑا ہے، کچھ باتوں کو ہیمنت شرما کی کتابوں، یدھ میں ایودھیا، ایودھیا کا چشم دید، اور رام پھر لوٹے(مطبوعہ پربھات پرکاشن دہلی) سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، اس تعلق سے کئی ساری باتوں کو ہندوتو کا درشن(ڈاکٹر امبیڈکر)دھمپد میں برہمنی گھس پیٹھ(ڈاکٹر کسم لتا) اور دلتوں میں ابھرتا برہمن واد(ایس ایس گوتم)مطبوعہ سدھارتھ بکس) میں بہت واضح الفاظ میں اشارے کیے گئے ہیں، جس طرح مسلمانوں کے مدارس، مساجد اور ماثر اور آدی واسیوں کے جنگل زمین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور محنت کشوں کی قیادت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ بھارت میں اپنے معاملات میں ترجیحات و انتخابات اور تقسیم کار کے حساب سے کام لیا جائے۔