Slide
Slide
Slide

نماز


از: ڈاكٹر محمد اکرم ندوى، آکسفورڈ

________________

صبح سے شام تک  اور شام سے صبح تک  ہم بہت سے ضرورى وغيرضرورى دنيوى واخروى كاموں ميں مشغول ہوتے ہيں، اگر ہم ان ميں تقابل كريں تو يه حقيقت اظہر من الشمس ہوگى كه نماز ان ميں سب سے زياده مہتم بالشان ہے، نماز حاصل زيست ہے اور خلاصۂ بندگى، نماز ميں گزرنے والا ہر لمحه دنيا وما فيہا سے بدرجہا بہتر ہے، نمازى زمين پر حجت خدا ہوتا ہے، اور اسى كے حكم سے ناطق وگويا۔
بعض نيكيوں كے متعلق كتاب الہى ميں تاكيدا كہا گيا ہے كه ان كے كرنے والوں كو الله كى معيت حاصل ہوتى ہے، مثلا: "إن الله مع الصابرين”، "إن الله مع المحسنين”، "إن الله مع المتقين”، مگر نماز كے لئے اس طرح كى تاكيد نہيں آئى، كہيں نہيں كہا گيا كه "إن الله مع المصلين”، كيونكه نماز كے معنى ہى ہيں الله كى معيت كے، ايكـ آيت ميں "استعينوا بالله واصبروا” كہا گيا ہے، يہان "بالله” سے مراد "بالصلاة” ہے جس كى تفصيل دوسرى آيتوں ميں وارد ہے، جو نماز كو خدا سے جدا سمجهتا ہے وه بے بصيرت ہے، ہوش وخرد سے بے بہره ہے، وه حقيقت كفر سے قريب تر ہے، اور حقيقت ايمان سے دور تر۔
نماز كى پورى ہيئت معيت الہى كى شہادت ہے، نماز كا باطنى حصه قرب الہى ومناجات ربانى ہے، نماز كا ظاہرى حصه پاكى، انابت اور ملكوتيت سے عبارت ہے، اس دنيا ميں كوئى چيز نہيں جس كا ظاہر وباطن يكساں ہو، يه مقام صرف نماز كو حاصل ہے كه اس پر جس زاويه سے بهى نگاه ڈالى جائے يگانگى يزدانى ہويدا ہوگى، رحمت پروردگار ضو فشاں ہوگى، محبت خالق كون ومكاں سايه فگن ہوگى، نماز پڑهنے والا اپنے رب كے حضور ميں ہوتا ہے، اس كى روح پر وجد طارى ہوتا ہے، اس كے دل ميں صاف شفاف قنديل منور ہوتى ہے، اس كى عقل شيطان كے مكر وفريب سے محفوظ ہوتى ہے۔
نمازى كا مقام كيا ہے؟ ہر قيمتى سے قيمتى شے كا مقام اس سے فروتر ہے، وه ہمسايۂ متمكن عرش بريں ہے، باقى جو كچهـ ہے وه مستقر زميں ہے، نماز سے اخلاق بلند ہوتے ہيں، برائياں دور ہوتى ہيں، مسجدوں كى شہادت ہمارے لئے نا قابل برداشت ہے، ہم نمازوں كو ضائع كر رہے ہيں، پر اس كا احساس نہيں، مسجدوں كى بازيابى كے لئے ہم جس طرح فكر مند ہوتے ہيں كاش اس كا كوئى حصه نماز كى حفاظت كے لئے ہوتا، اگر ہم نماز ميں لگ جائيں تو دوسرى قوميں ہميں اپنى عبادت گاہيں پيش كريں گى كه لو انہيں لو اور انہيں آباد كرو، تمہارے دين كى صداقت كى سب سے بڑى گواہى تمہارى نماز ہے، نماز كا ظاہر اور نماز كا باطن ببانگ دہل اعلان كرتا ہے كه يه سچے لوگوں كا طريقۂ عبادت ہے۔
ہم كہتے ہيں كه سياسى طور پر ہم اس قدر كمزور ہيں كه اسلام كو قائم نہيں كرسكتے، ذرا سوچيں كه نمازوں كى كوتاہى پر ہم كسے مورد الزام ٹهہرائيں گے؟ كيا نماز خدا كا سب سے بڑا حكم نہيں؟ كيا نماز پڑهنے والے بهى ذليل وخوار ہو سكتے ہيں؟ كيا پيغمبروں كى جد وجہد كا آغاز نماز كے علاوه كسى اور چيز سے ہوتا ہے؟ نماز نے قوموں كو كمزوريوں سے نكالا ہے، انہيں اجتماعى وسياسى استحكام عطا كيا ہے، سچى بات يه ہے كه نماز اتنى عظيم ہے كه ان چيزوں سے اس كى عظمت ميں كوئى اضافه نہيں ہوتا، اگر نماز پڑهنے سے ملكـ ودولت جائے تو جائے، كيونكه جسے نماز مل گئى اسے كس چيز كى كمى ہے؟
جب كسى كو نماز پڑهتے ديكهتا ہوں تو اس كى محبت دل ميں بڑهـ جاتى ہے، دل چاہتا ہے كه اسے چوم لوں، اسے اپنے سر پر بيٹها لوں، نماز پڑهنے والوں كى قربت سے ايسى خوشبو محسوس ہوتى ہے جو بيان سے باہر ہے، خدا كى تسبيح وتقديس مجهے كتنى پيارى ہے، اور جب تسبيح وتقديس كا يه سماں نماز ميں نظر آتا ہے تو روح تڑپ اٹهتى ہے، اگر مسلمان كى كسى حالت كو فرشتوں پر ترجيح حاصل ہے تو وه يہى نماز كى حالت ہے۔
اے ميرے مسلمان بهائيو! غفلت وسرشارى كو ٹهكراؤ، نماز كى طرف آؤ كه بندگى كى بنياد نماز ہے، جس نے نماز پڑهى وه محروم نہيں، قرآن كريم ميں جہاں بهى مسلمانوں كا تعارف ہے وہاں سب سے پہلے نماز كا ذكر ہے، جہاں بهى جنتيوں كا تذكره ہے ان كى سب سے بڑى خوبى نماز پڑهنا ہے، اور جہاں جہنميوں كا بيان ہے وہاں نماز چهوڑنے اور نماز سے غفلت برتنے كا خصوصى ذكر ہے، ميں جب چهوٹا تها تو اپنے گاؤں ميں چلتے پهرتے اكثر شيخ سعدى كا يه شعر گنگناتا:
روز محشر که جانگداز بود
اولین پرسش از نماز بود
جو نماز نه پڑهے كيا اسے مسلمان كہا جا سكتا ہے؟ نماز سے خالى اسلام كا نه كتاب الہى ميں كوئى وجود ہے، نه پيغمبروں كى سنتوں ميں، اور نه صحابۂ كرام اور سلف صالحين كى زندگيوں ميں، ان كو نمازوں نے بلندى عطا كى تهى، ہميں بهى نماز سے بلندى ملے گى، كمال انسانى نماز ميں پنہاں ہے، سارے فضائل ومفاخر نماز پر منحصر ہيں، تجريد وتجرد، استغنا وزہد، عفت وقناعت، حلم وكرم، ايثار وانكسار، شجاعت وشہامت سب اسى شجر با بركت كے برگ وبار ہيں، اسى كے ثمرات طيبات ہيں، آخرت كے تمام منازل قربت اسى نماز كا فيض ہيں، وه جگه جہاں نماز پڑهى جاتى ہے رشكـ آسمان بلكه مثال باغہائے جناں ہوتى ہے:
از برائے سجدۂ عشق آستانے يافتم
سر زمينے بود منظور آسمانے يافتم
دفتر كا دفتر سياه ہو جائے، مگر نماز كا وصف نا تمام رہے، ہم كون ہيں؟ ہمارى كيا حقيقت ہے؟ اگر سارے پيغمبر، پيغمبروں كے اصحاب، تمام صديقين وصالحين، بلكه جمله ملائكۂ مقربيں نماز كے فضائل بيان كريں پهر بهى نماز اس سے كہيں زياده عظيم اور بلند وبالا ہوگى:
مجلس تمام گشت وبه پاياں رسيد عمر
ما ہمچناں در اول وصف تو مانده ايم

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: