محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
_____________
کیا دینی و عصری تعلیم کی تقسیم درست ہے؟
سورۂ علق میں اللہ تعالیٰ نے لفظ اقرء میں فاعل اور فعل کا ذکر کیا ہے ، لیکن مفعول کا ذکر نہیں کیا ہے ، یہ بلیغ اور لطیف اشارہ ہے کہ علم متعین نہیں ہے، کہ صرف دینی اور شرعی علوم ہی مطلوب و مقصود ہے ،دیگر علوم مطلوب نہیں ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ علم اسلام میں مطلوب و مقصود ہے، جو اللہ کے نام سے ہو اور اس میں انسانوں کے لئے فائدہ اور نفع ہو ، خواہ نفع کا تعلق دنیا کی زندگی سے ہو یا آخرت کی زندگی سے ۔ اس اعتبار سے علم کے بارے میں اسلام کا نظریہ دوئی کا نہیں، بلکہ وحدت کا ہے ۔ لیکن آج مسلمانوں میں علم کی نسبت سے دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کی اصطلاح قائم ہوگئی ہے ، شریعت یعنی قرآن وحدیث اور اس کے متعلقات کی تعلیم کو دینی تعلیم کہا جاتا ہے اور عصری اور زمانے کے مروج علوم کے سیکھنے سکھانے کو دنیوی تعلیم کا نام دیا جاتا ہے ، جبکہ اسلام میں علم کی کوئی ایسی تقسیم نہیں ہے ، علم کی اگر کوئی تقسیم ہے تو وہ علم نافع اور علم غیر نافع کی تقسیم ہے ، جو علم انسانیت کے لیے مفید اور کارآمد ہو وہ علم نافع ہے ، اس کی دعا انسان کرے ، اللھم انی اسئلک علما نافعا ۔ اے اللہ میں تجھ سے علم نافع کا سوال کرتا ہوں ۔اور جس علم سے نفع کے بجائے نقصان ہو اور تعمیر کے بجائے تخریب ہو، اس سے پناہ چاہے اور دعا کرنے اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع ، بار الہا میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے ،جو مفید اور فائدہ بخش نہ ہو ۔
اس لیے دنیاوی علم بھی خواہ اس کا تعلق سائنس سے ہو ،حرفت سے ہو یا تٹینکل علم ہو ،چونکہ یہ سب بھی انسانی خدمت کے ذرائع ہیں اور انسانیت کے نفع کے لئے ہیں ،اس لیے اس کا سیکھنا بھی مطلوب و مستحسن ہے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اصلا علم دو ہی ہیں ایک علم فقہ تاکہ زندگی بسر کرنے کا ہنر اور سلیقہ سیکھے، دوسرے فن طب تاکہ جسم انسانی کی بابت انسان کو معلومات حاصل ہوسکے ۔ (راہ عمل ,170)
البتہ علم کے درجات اور ترجیحات کی حد بندی کی جاسکتی ہے کہ سب سے زیادہ بابرکت علم قرآن کا علم ہے، جس کے ایک حرف پر دس نیکی ہے ، پھر حدیث شریف کا، اس کے بعد فقہ اسلامی یعنی شریعت کے مسائل کا، کہ ان علوم کا تعلق براہ راست رب کی معرفت سے ہے ۔۔ اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ ۔ کہ سب بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم کو پڑھے اور پڑھائے ۔
اس کے علاوہ علم کی کوئی تقسیم درست نہیں ہے ، مرد دانا اقبال مرحوم فرما گئے ہیں کہ
دلیل کم نظری ہے قصئہ قدیم و جدید
اسلام نہ کسی علم کا مخالف ہے اور نہ کسی زبان کا مخالف ، قرآن مجید کی متعدد آیات ہیں جن میں ایسے حقائق بیان کیے گئے ہیں، جس کا تعلق علم حیات ،علم طبعیات علم حیوانات علم فلکیات اور دیگر سائنسی علوم سے ہے ۔ آپ خود غور کیجئے کہ قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کا جو مرحلہ وار تذکرہ ہے، نطفہ مزغہ علقہ ،خود انسان کی اندرونی کیفیات اور اس کی نفسیات کا جو بار بار تذکرہ ہے ، گزشتہ اقوام کے جو واقعات ہیں ان کے مکاں اور مکیں کا جو تذکرہ ہے ان پر ہونے والے عذاب خداوندی کے محل وقوع کی طرف جو اشارے ہیں ، چاند 🌙 و سورج ☀️ کی گردش اس کے مراحل اور بارش کے برسنے کا جو ذکر ہے اور پہاڑوں آسمانوں اور زمینوں اور ان کے علاوہ چیزوں پر جو غور و فکر دعوت دی گئی ہے ،کیا بغیر ان علوم کو جانے ان میں تفکر کا حق ادا کیا جاسکتا ہے ۔
روایت میں آتا ہے کہ مدینہ منورہ میں انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کجھور کے درختوں میں تابیر نخل کیا کرتے تھے، یعنی نر اور مادہ درخت میں اختلاط کی ایک خاص صورت اختیار کرتے تھے ۔ جس سے کجھور کی پیداوار زیادہ ہوتی تھی یا کھجور کا حجم اور سائز میں اضافہ ہوتا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل معلوم ہونے پر اسے بے فائدہ اور فضول عمل تصور کرتے ہوئے اس سے منع فرمایا ،لیکن جب اس سال پیدا وار کم ہوئی اور کجھور کا حجم سائز کم ہوا اور صحابہ کرام نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا اور آئندہ اس کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے دنیا کے امور کے بارے میں زیادہ واقف ہو ۔انتم اعلم بامور دنیاکم ۔۔ مسند احمد ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غزوات میں منجنیق کا استعمال فرمایا گویا یہ اس زمانے کی توپ تھی ۔جس کے ذریعہ پتھر کی چٹانیں دشمنوں کے قلعوں اور فصیلوں پر پھیکی جاسکتی تھی ۔بنو ثقیف پر جب محاصرہ ہوا تو چونکہ وہ لوگ ماہر تیر انداز تھے ،اس موقع پر اس کے حملوں سے بچنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی گاڑیاں تیار کرائیں جس پر اوپر چمڑے کا غلاف ڈالا گیا تاکہ دشمن کے تیر چمڑے میں پھنس کر رہ جائیں ۔ اور مجاہدین قلعہ کی فصیل تک پہنچ جائیں ۔ جنگی حکمت عملی اور تدبیر کے پیش نظر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر میدان جنگ کی پشت پر پہاڑیوں کو رکھتے ہوئے آگے کی سمت طویل و عریض خندق کھدوائی ، جو طریقہ فارس میں رائج تھا۔ یہ عربوں کے لئے بالکل نیا اور انوکھا تجربہ تھا اور اس حسن تدبیر کے نتیجہ میں دشمنان اسلام کی متحدہ قوت ناکام و نامراد واپس ہوئی اور مسلمانوں کا ایسا رعب ہوا کہ دوبارہ اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ مدینہ منورہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے ۔۔
اسلام نے نہ صرف علوم سائنس کو قبول کیا بلکہ اس کو رواج دینے کے لیے دولت عباسیہ میں بیت الحکمت کا قیام عمل میں آیا اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا ایسی کتابوں کے عربی میں ترجمے ہوئے جس کا تعلق ان علوم و فنون سے تھا۔ اور مسلمان سائنس دانوں نے وہ کارنامے انجام دئے کہ علم و فن کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ۔ پہلے جو علماء فارغ ہوکر نکلتے تھے وہ تمام علوم میں ماہر ہوتے تھے ۔ علم فلکیات علم الجبرا علم الرمل اور علم الطب سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے تھے ۔
اسی طرح اسلام کسی بھی زبان کا مخالف نہیں ہے، کیونکہ کوئی زبان بھی اچھی اور بری نہیں ہوتی، زبان تو محض اظہار کا ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو ان کی قوم کی زبان دے کر بھیجا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ذہین رفیق حضرت زید بن ثابت انصاری کو باضابطہ عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی اور انہوں نے کم مدت میں اس کو سیکھا اور اس میں مہارت پیدا کی ۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارسی زبان سے خوب واقف تھے ۔حضرٹ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بھی کسی قدر فارسی میں گفتگو کر لیتے تھے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے سورہ فاتحہ کا اور کچھ چھوٹی سورتوں کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، فارس کے مسلمانوں کے مطالبے پر ۔
دار العلوم دیوبند کے قیام کے ابتدائی دنوں میں سنسکرت کو بھی نصاب میں رکھا گیا تھا تاکہ وید کے اندر کیا تعلیمات ہیں اس کا بھی علم رہے اور مسلمان اس سے بھی واقف رہیں ۔ حالانکہ اس میں سب سے زیادہ شرکیہ عقائد اور اصطلاحات ہیں ۔
اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمان علم کے تمام شعبوں میں محنت کریں ،اعلی فنی تعلیم کی طرف بھی متوجہ ہوں ۔ مختلف زبانوں میں مہارت پیدا کریں تاکہ قرآن وحدیث یعنی دین کی تعلیم اور پیغام ان کی زبانوں میں ان تک پہنچایا جائے ۔
غرض اسلام کسی بھی ایسے علم کا مخالف نہیں جو انسانیت کے لیے نافع ہو نہ وہ کسی زبان کا مخالف ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام زبانیں اللہ کی پیدا کی ہوئی ہیں ،علم نافع کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین عبادت قرار دیا ۔ مجمع الزوائد ۔ 1/ 120/ اور علم کے حصول کو ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ قرار دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی موت کے بعد بھی تین چیزوں کا اجر اسے پہنچتا رہتا ہے ،من جملہ ان کے ایک علم ہے جس سے اس کے بعد بھی لوگوں کو نفع پہنچتا رہتا ہے ۔۔
افسوس کہ آج مسلمانوں کے پاس ایسے ادارے نہیں ہیں یا بہت کم ہیں جہاں علوم و فنون کے تمام شعبہ جات قائم ہوں اور مسلمان ہر میدان میں نمایاں مقام حاصل کرے ، جو ادارے ہیں بھی وہاں تعلیم خدمت کی نیت سے کم اور تعلیم کے ذریعہ معاش کا حصول ہو یہ مقصد زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کی مہنگی فیس کی وجہ سے بہت سے بچے آگے تعلیم کی ہمت ہی نہیں کرتے ۔۔ ضرورت ہے کہ تعلیمی ادارے کو تجارت کے لئے نہیں بلکہ انسانی خدمت کی نیت سے قائم کئے جائیں اور ملت کے جو ذہین بچے معاش کی وجہ سے تعلیم ترک کرکے ہوٹلوں میں برتن صاف کرتے ہیں ،جن کی پیشانیوں سے ذہانت جھلک رہی ہوتی ہے ان کی تعلیم کی فکر کی جائے تاکہ امت مسلمہ کا کوئی فرد ناخواندہ نہ رہے ۔۔۔امید کہ ان باتوں پر ہم سب توجہ دیں گے اور اپنی سکت اور بساط بھر ضرور اس میدان میں کام کریں گے ۔ وما توفیقی الا بااللہ