Site icon

مشفق خواجہ کی یاد میں

از: معصوم مرادآبادی

______________

"فرمائیے……“
اگر آپ کراچی میں فون ملانے کے بعد ’ہیلو‘ کے بجائے یہ لفظ سنیں تو یقین کرلیجئے کہ آپ نے مشفق خواجہ کا نمبر ڈائل کیا ہے۔ وہ ریسیور اٹھانے کے بعد ہمیشہ اسی لفظ سے اپنے مخاطب کا استقبال کرتے تھے اور دوسرے ہی لمحے یہ اندازہ ہو جاتا تھا کہ آپ ایک مہذب، شائستہ اور باوقار شخصیت سے ہم کلام ہیں۔ افسوس کہ اردو کا یہ بلندپایہ انشاء پرداز، محقق، نقاد، شاعر اور طنزومزاح کا جادوگر ہمارے درمیان نہیں رہا۔ جب جب زبان کی چاشنی، لفظوں کی دلکشی اور جملوں کی بے ساختگی کا ذکر ہوگا تو خامہ بگوش کی تحریریں ان کے عالی جاہ ہونے کی گواہی دیں گی۔
ستمبر1985ء میں جب پہلی بار راقم الحروف اپنے عزیزوں سے ملنے کراچی گیا تو اپنی نوٹ بک میں جو نام سب سے جلی حرفوں میں لکھ کر لے گیا تھا وہ ”خامہ بگوش“ کا ہی نام تھا کہ اس نام کے ایک البیلے کالم نگار کا نہایت مرصع اور مقبول کالم ”سخن در سخن“ ہفت روزہ ”تکبیر“ میں پابندی کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔ ہر ہفتہ ’تکبیر‘ کے شمارے کا بے چینی سے انتظار رہتااور جونہی وہ ہاتھ لگتا تو اسے ہمیشہ انگریزی رسالے کی طرح کھولتا تھا کہ ”خامہ بگوش“ کا کالم ’تکبیر‘ کے آخری صفحات پر شائع ہوا تھا۔ اس کالم نے ہندوپاک کے ادبی حلقوں میں دھوم مچا رکھی  تھی اور ہر شخص یہ پوچھتا تھا کہ آخر یہ "خامہ بگوش ” کون ہیں؟ سچ پوچھئے تو میرے سفر پاکستان کے پیچھے مملکت خدا داد کو دیکھنے اور اپنے عزیزوں سے ملنے سے زیادہ جستجو ”خامہ بگوش“ کی تھی۔ اس لئے کراچی میں ایک دو روز سستانے کے بعد میں نے پہلا فون "تکبیر” کے دفتر میں کیا۔ ’تکبیر‘ کے مدیر اعلیٰ محمد صلاح الدین برصغیر کے جید اردو صحافیوں میں سے تھے جنہو ں نے روز نامہ ”جسارت“ کراچی سے علیحدگی کے بعد اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا نیوز میگزین ’تکبیر‘ شروع کیا تھا۔ اس میگزین کو پاکستان میں وہی مقبولیت حاصل ہوئی جو ایک زمانے میں ہندوستان کے انگریزی رسالے ”السٹریٹڈویکلی“ کو حاصل ہوئی تھی۔ ’تکبیر‘ کی مقبولیت کا راز صلاح الدین صاحب کی بے مثال ادارت تھی۔ انھوں نے اس نیوز میگزین سے ایسے اہم ناموں کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کی تھی جو اس عہد کے مایہ ناز قلم کار اور سیاسی تجزیہ نگار کہے جاسکتے ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ خود مشفق خواجہ نے”تکبیر“کے لئے دو ہزارسے زیادہ کالم لکھے۔افسوس کہ محمد صلاح الدین ایک ایسے دورمیں پاکستان کی داخلی سیاست کا شکار ہوئے جب وہ اوران کا میگزین ’تکبیر‘  مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔ 
اردو صحافت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر جب میں نے صلاح الدین صاحب سے ملنے کا وقت مانگا تو انھوں نے اسی روز شام چار بجے اپنے دفتر میں بلا لیا۔ وہ تازہ تازہ افغانستان کے سفر سے واپس آئے تھے جہاں روسی دراندازی نے صورت حال کو خاصا بگاڑ رکھا تھا۔ اردو صحافت کے اس طالب علم کو انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں جو باتیں بتائیں تھیں، وہ آج بھی اس خاکسار کانظریاتی اور علمی سرمایہ ہیں۔ میں نے رخصت ہوتے وقت بہت ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھ ہی لیا۔”محترم۔یہ جو آپ کے میگزین میں ”سخن در سخن“ کے عنوان سے ایک کالم شائع ہوتا ہے، اس کے لکھنے والے ”خامہ بگوش“ کون ہیں؟ کیا آپ مجھے ان سے ملواسکتے ہیں۔ میں ان کی تحریروں کا بڑا مداح ہوں۔“ صلاح الدین صاحب مسکرائے اور انھوں نے اپنے نائب کو ہدایت دی کہ آپ انھیں مشفق خواجہ صاحب کا فون نمبر دے دیں۔ اس طرح یہ راز مجھ پر پہلی بار منکشف ہوا کہ ”خامہ بگوش“ دراصل کون ہیں۔
اگلے روز مشفق خواجہ صاحب کا نمبر ملایا تو اُدھر سے وہی آواز آئی۔ ”فرمائیے“
میں نے عرض کیا ”حضور میں اپنے محبوب کالم نگار ’خامہ بگوش‘ سے ملنے دہلی سے کراچی آیا ہوں۔“
وہ چونکے اور مجھ سے میرا تعارف پوچھا۔ پھراگلے روز دوپہر کے کھانے پر مدعو کرلیا۔ میں نے اجازت چاہی کہ میرے ایک ماموں زاد بھائی جو اصلاً مدینہ منورہ میں رہتے ہیں اور ان دنوں اردو سیکھنے کراچی آئے ہوئے ہیں، کیا میں انہیں بھی ساتھ لاسکتا ہوں۔ انھوں نے آمادگی ظاہر کی اور اس طرح ہم دونوں کراچی کے ناظم آباد علاقے کی ایک نہایت پرسکون گلی میں مشفق خواجہ صاحب کا پتہ پوچھتے ہوئے اس زینے تک جا پہنچے جہاں گھنٹی بجانے کے بعد اوپر سے آواز آئی۔ ”تشریف لے آئیے۔“ ایک مایہ ناز ادیب نے ایک نوآموز صحافی کا استقبال بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ کیا۔ جس کمرے میں ہمیں لے جاکر بٹھایا گیا اس کی دیواریں کتابوں کی معلوم ہوتی تھیں۔ کچھ دیر میں چائے آئی مگرچائے رکھنے کی میز بھی کتابوں سے بھری تھی۔ چند کتابیں اس طرح ادھر اُدھر رکھی گئیں کہ تین کپ چائے کی جگہ نکل آئے۔ کہا جاتا تھا کہ مشفق خواجہ کے طویل وعریض مکان میں 12کمرے ہیں جس میں پونے بارہ میں کتابیں اور ایک چوتھائی کمرے میں وہ خود رہتے ہیں۔ کتابوں اور رسائل کا معاملہ یہ تھا کہ اردو میں شائع ہونے والی شاید ہی کوئی اہم کتاب یا رسالہ ایسا ہو جو ان کی نظر سے نہ گزرتا ہو۔ وہ کتابوں کی خریداری پر خاصی رقم خرچ کرتے تھے۔
میں نے سب سے پہلے انہیں اپنے ماموں زاد بھائی احمد ابراہیم سے متعارف کرایا۔ انھوں نے ابراہیم سے گفتگو کی تو بہت محظوظ ہوئے۔ عربی لب ولہجہ میں شین قاف اور عین غین کی درستگی کے ساتھ اردو الفاظ سن کر فرمایا۔ ”یہ تو اردو بھی عربی میں بول رہے ہیں۔“بعد کو مشفق خواجہ صاحب نے اپنا کیمرہ نکالا اور ہم دونوں کی تصویریں لیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ تو بہت عمدہ فوٹوگرافی بھی کرلیتے ہیں تو انھوں نے ایسی متعدد البم دکھائیں جس میں ان کی  لی ہوئی اہم ادیبوں اور شاعروں کی تصویریں تھیں۔ اس طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں کتابوں کی ہی طرح تصویریں محفوظ کرنے کا بھی شوق ہے ۔ ہم نے اپنے کیمرے سے مشفق خواجہ صاحب کے ساتھ چند تصویریں لیں جو آج بھی محفوظ ہیں۔ بعد کو وہ ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھاکر ایک ریسٹورنٹ میں لے گئے، جہاں انھوں نے عمدہ کھانا کھلایا۔ کراچی میں دوران قیام ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ”خامہ بگوش“ کی تحریریں پڑھ کر ذہن میں ان کی جو تصویر نقش ہوئی تھی ان سے ملنے کے بعد اس میں نئے رنگ پیدا ہوئے۔ میں نے انہیں ایک نہایت ذی علم، وسیع المطالعہ اور ہر اعتبار سے باخبر شخص پایا۔ ان کے کالم پڑھ کر ان کی علمیت، باخبری، بذلہ سنجی، شوخی تحریر کا جو نقش ذہن پر مرتسم تھا اس میں یہ بھی اضافہ ہوا کہ وہ اپنے عہد کے ان معدودے چند اہل علم میں سے ایک ہیں جن کی تاب یہ زمانہ مشکل سے ہی لاپائے گا۔ ورنہ آج کل چند کتابیں پڑھ کر یا چند جملوں کی مدد سے دوسروں کے اقتباسات کی پیوندکاری کے سہارے اہل علم بننے کی جوہوڑ لگی ہے اس میں اصل اور نقل کی پہچان ہی معدوم ہوگئی ہے۔ ہمارے بیشتر دانشوروں کا مرکز ومحور خود ان کی ذات ہوتی ہے لیکن مشفق خواجہ صاحب سے مل کر اندازہ ہوا کہ اردو کا بے پناہ ذخیرہ جذب کرنے کے باوجود ان کے اندر حصول علم کی تشنگی برقرار ہے۔
جن لوگوں نے خامہ بگوش کے کالم تسلسل کے ساتھ پڑھے ہیں، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ نہ صرف اپنے عہد کی تمام تحقیقی، علمی اور تخلیقی سرگرمیوں سے ہمہ وقت آگاہ تھے بلکہ اردو کے کلاسیکی ادب پر ان کی گہری نظر  تھی ۔ وہ ادبی تقریبات اورمشاعروں سے ہمیشہ دامن بچاتے تھے اورانہیں سب سے زیادہ سکون واطمینان کتابوں سے اٹے اس گھر میں محسوس ہوتا تھا جہاں وہ ہمہ وقت لکھنے یا پڑھنے کا کام کرتے تھے۔
1989میں ایک بار پھر کراچی کے سفر میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ بعد کو جب وہ دہلی آئے تو یہاں بھی نیاز حاصل رہا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی عاجزی اور انکساری تھی۔انہوں نے اپنی علمی اور ادبی حیثیت کی کوئی نمائش کہیں نہیں لگائی۔ کبھی کسی پر اپنی تعریف کے لئے ڈورے نہیں ڈالے اور نہ ہی کسی کا ادبی استحصال کیا بلکہ ایک سچے کھرے اور خداداد صلاحیتوں سے آراستہ عالم باعمل کی طرح زندگی بسر کی۔ ان میں پچھلے زمانے کے ایسے عالموں کی خوبیاں پائی جاتی تھیں جو اپنی صلاحیتوں اور علم وفضل کو دوسروں پر عیاں نہیں کرتے تھے۔ ان میں خودنمائی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے برسوں مختلف رسائل اور اخبارات میں اپنے عہد کا سب سے مقبول کالم مسلسل تحریر کیا جس کی داد چاروں طرف سے ملتی تھی۔ اس درجہ مقبولیت کے باوجود انہوں نے خود کو ہمیشہ ’خامہ بگوش‘ کے قلمی نام میں ہی پوشیدہ رکھا اور کبھی مشفق خواجہ کے طور پر سامنے آنے کی کوشش نہیں کی۔
مجھے اس بات کا قلق رہے گا کہ ان کے انتقال کی خبر تقریباً 10دن بعد مجھے سات سمندر پار ملی۔ میں امریکی وزارت خارجہ کے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں امریکہ کے سفر پر تھا۔ کئی روز مسلسل فاسٹ فوڈ کھاتے کھاتے طبیعت اوبنے لگی تو ایک روز شام کو ایک پاکستانی دوست کے ساتھ کسی مشرقی ہوٹل کی تلاش میں پیدل نکل پڑے۔ نیویارک میں برف پڑ رہی تھی لیکن ’اپنا‘ کھانا تلاش کرنے کی جستجو نے اسے بھی حائل نہیں ہونے دیا۔ تقریباً 5کلو میٹر پیدل مسافت کے بعدآخر کار ایک پاکستانی ہوٹل ’ہانڈی‘ تک رسائی ہوئی۔ جہاں دروازے پر ہی کچھ مقامی اردو اخبارات نظر آئے۔ کئی دن بعد اپنا کھانا اور اپنی زبان کے اخبار دیکھ کر دونوں پر ٹوٹنے کو جی چاہا۔ کھانے کے انتظار میں اخبار کی ورق گردانی کی تو اندر کے صفحہ پر ایک کالمی خبر نے بھوک اچانک نچوڑ لی۔ ”مشفق خواجہ کراچی میں انتقال کر گئے۔“
یقینا ان کا نام ہی مشفق نہیں تھا وہ سراپا مشفق تھے۔ ان کی شخصیت اور تحریروں سے راقم الحروف نے جو کچھ سیکھا، وہ ہمیشہ کام آئے گا اور ان کی یاددلائے گا۔
راقم الحروف نے ایک موقع پر معروف شاعر بشیر بدر کا مفصل انٹرویو لیا تھا جو پہلے ماہنامہ ’حرف آخر‘ نئی دہلی اوربعدکو راقم الحروف کے لئے ہوئے ادبی انٹرویوز کے مجموعے”بالمشافہ“ میں شائع ہوا۔اس انٹرویوز کوروزنامہ ’جسارت‘کراچی نے ’حرف آخر‘ سے نقل کیا۔ بشیر بدر نے اس انٹرویو میں حسب عادت خوب لن ترانیاں کی تھیں۔ اس میں خامہ بگوش کے لئے اچھا خاصا مسالہ موجود تھا لہٰذا یہ انٹرویو ان کی نظرسے کیسے چوکتا لہٰذا ’خامہ بگوش‘ نے اس انٹرویو کے حوالے سے جو کالم’تکبیر‘(مورخہ ۲۴مارچ ۱۹۸۸) میں لکھا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”کوئی کچھ بھی کہے ہم سمجھتے ہیں کہ بشیر بدر اچھے شاعر ہی نہیں، صاف گو آدمی بھی ہیں۔ حال ہی میں کراچی کے ایک اخبار میں، ان کا انٹرویو ہندوستان کے کسی اخبار سے نقل ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے حق گوئی وبے باکی کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جس کی کسی دوسرے سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ فرمایا ”میرا معاملہ میر اور غالب سے ہے، وہی میرے حریف ہیں اور میں انہیں اپنا حریف سمجھتا ہوں۔“ ہمار اخیال ہے کہ بشیر بدر نے انکسار سے کام لیا ہے۔ ورنہ میروغالب کی کیاحیثیت ہے، جو ان کے منہ آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بشیر بدر جس مقام پر ہیں،وہاں کسی دوسرے شاعر کا پہنچنا تو کیا، وہاں سے واپس آنا بھی نا ممکن ہے۔
فرماتے ہیں۔ ”میں لمحہ موجود میں سوچتا ہوں تو فوراً میرا ذہن تین سو سال پیچھے اور تین سو سال آگے جاتا ہے۔“ ہم نے بشیر بدر کا یہ جملہ، استاد لاغرؔ مرادآبادی کو سنایا تو انہوں نے کہا۔ اس عزیز کو سوچنا نہیں چاہئے۔ سوچنے کے دوران ذہن کا دو حصوں میں تقسیم ہوکر ہجرت کرجانا اچھی بات نہیں۔ آدمی کا ذہن اس کے پاس ہی رہنا چاہئے۔“
جناب بشیرؔبدر نے میرؔوغالبؔ ہی کواپنا حریف نہیں سمجھا، ایک فلم ایکٹریس پر بھی عنایت کی نظر ڈالی ہے، فرماتے ہیں ”شاید سب سے بہترین فلم ایکڑیس میرے عہد میں مشاعروں میں آئیں اور ان کے نام کاڈنکا بجتا رہا۔ لوگ انہیں دیکھنے کے لئے ٹوٹتے رہے۔ میں کسی کونے میں اپنے آپ کو محسوس کرتا رہا۔ لیکن جب مشاعرہ ختم ہوا تو ساری دھول ہی دھول تھی۔ اداکاری کی دنیا میں تو کوئی مجھے چار چھ مہینے دبا کررکھ سکتا ہے، لیکن مشاعرے کی دنیا میں‘ میں ہی اسے دباکر رکھوں گا۔“ معلوم نہیں وہ کون عاقبت نا اندیش فلم ایکٹریس تھی، جس نے بشیر بدر کی موجودگی میں مشاعرے میں شعر سنانے کی جسارت کی، یہ اچھا ہوا کہ وہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچی، ورنہ بشیرؔ بدر کے لیے، اس کے سوا کئی چارہ کار نہ ہوتا کہ وہ فلمی دنیا میں داخل ہو کر اس ایکٹریس کا چراغ گل کردیتے۔ بشیرؔ بدر کا یہ کہنا کہ انہیں اداکاری کی دنیا میں چار چھ مہینے دباکر رکھا جاسکتا ہے، محض انکسار ہے، ورنہ اہل نظر کی رائے یہ ہے کہ بشیر ؔبدر مشاعرے کی بجائے فلمی دنیا میں چلے جاتے تو زیادہ کامیاب رہتے۔
ایک سوال کے جواب میں بشیر ؔبدر نے بتایا کہ انہوں نے شاعری پہلے شروع کی اور پڑھنا بعد میں سیکھا۔ ہمارے خیال میں بہتر یہی تھا کہ وہ شاعری شروع کرنے کے بعدکوئی اور شغل نہ فرماتے۔ کیونکہ اس شغل کا کوئی اچھانتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا۔“

Exit mobile version