Site icon

شب برأت اور خرافاتِ مسلم

تحریر: محمدخضرارشادبجنوری

________________

ایک طبقہ تو شب برات کی کوئی فضیلت سمجھتا ہی نہیں اور ایک طبقہ وہ ہے جو شب برأت کی فضیلت میں حد سے تجاوز کرتا ہے، یاد رکھیں! شریعت نے جس چیز کا جو درجہ رکھا ہے اس کو وہی درجہ دینا چاہئے اس میں کسی طرح کی کمی بیشی شریعت پسند نہیں کرتی شب برأت کی فضیلت احادیث نبویہ سے ثابت ہے اس لئے یہ سمجھنا کہ شب برأت کی کوئی فضیلت نہیں یہ صحیح نہی ہے۔
اس رات کےبارےمیں بھی اور شب قدر کےبارےمیں بھی آتاہےکہ اللہ تعالیٰ بے شمار لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ ﷝نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتی ہیں: کہ بے شک اللہ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق)نزول فرماتے ہیں اورقبیلہ ”کلب“کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں (ترمذی:739)

” بنو کلب “ عرب میں ایک قبیلہ تھاجو بکریاں کثرت سے رکھنے میں مشہور تھا، بکریوں کےبالوں کی تعداد سےزیادہ مغفرت کرنےکے دو مطلب ہیں :
پہلا مطلب یہ ہے کہ اِس سے گناہ گار مراد ہیں ، یعنی اِس قدر کثیر گناہ گاروں کی مغفرت کی جاتی ہے کہ جن کی تعداد ان بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس سے گناہ مراد ہیں، یعنی اگر کسی کے گناہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوں تو اللہ تعالٰ اپنے فضل سے معاف فرمادیتے ہیں۔(تحفۃ الأحوذی:3/365)

شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے، جب  اس نے دیکھا کہ فضیلت والی رات آنیوالی ہے،اس رات میں مسلمان اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے دعائیں مانگیں گے تومیرا تونقصان ہوجائیگا لہذا اس نے ایسے ایسے طریقے ایجاد کروادئے کہ لوگ عبادت سے ہٹ کر ان طریقوں میں لگ گئے، اورانکی وجہ سے اس رات سےجو فائدہ اٹھایاجاسکتا تھا اس سےمحروم ہوگئے، نئےنئے طریقے گھڑلئے مثلاً نماز پڑھو یا نہ پڑھو عبادت کرو یا نہ کرو حلوہ کاانتظام کرنا ضروری اور فرض ہے، اگرکوئ نہ بنائےتو قابل ملامت ہے کہ فلاں کے گھرتوشب برأت کا حلوہ بھی نہی بنتا یہ کنجوس ہے، بخیل ہے، اب کوئ پوچھے کہ حلوہ کاذکر قرآن میں یاحدیث میں کہیں ہے? یا صحابہ کرامؓ کے تعامل میں کہ شب برأت کےدن حلوہ بنناچاہئے نہ قرآن میں ذکر نہ حدیث میں اور نہ صحابہ کےتعامل میں کہیں دور دور نشان نظرآتاہے، مگراس کو فرض اور واجب قرار دے دیا اگرکوئ کہے کہ بھائ حلوہ نہ بناؤ یہ بدعت ہے توکہتے ہیں کہ حلوہ بنانےمیں کیاحرج ہے؟ حلوہ کوئ حرام چیزہے ؟

بعض لوگ کہتے ہیں اس مہینے میں حضور ﷺ کا دانت مبارک شہید ہوا تھا اور آپﷺ نے حلوہ کھایا تھا یہ سراسر غلط ہے، حضورﷺ کا دانت مبارک جنگ احد میں شہید ہوا تھا اور جنگ احد شعبان کے مہینے میں نہیں بلکہ شوال کے مہینے میں ہوئی تھی، یادرکھو! حلوہ حرام چیزنہی ہے پورے سال بناؤ مگر حلوے کو شب برأت کے لیے خاص کرکے فرض یا واجب قراردینا کوئ نہ بنائےتوملامت کرنا یہ اپنی طرف سےدین میں اضافہ ہے جو کہ اللہ تعالی کوگوارا نہی ہے،شیطان نےمسلمانوں میں ایک شگوفہ تویہ چھوڑدیا۔
دوسرا اس سےزیادہ خراب کہ شب برأت میں آتش بازی ہونی چاہئے، اس آتش بازی نے نہ جانے کتنے لوگوں کی جان لی ہے، آئے دن آتش بازی سےجلنےوالوں کی خبریں اور ویڈیوز ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں،  عجیب بات ہے کہ نہ قرآن میں نہ حدیث میں نہ صحابہ کرامؓ کےتعامل میں نہ بزرگان دین کی وصیتوں میں کہیں *بھی نہی، اپنی طرف سے شب برأت کےساتھ آتش بازی کا شگوفہ چھوڑدیا یہ بھی شیطان کاکام ہے، حلوہ بناناتو عام دنوں میں جائزکام تھا یہ آتش بازی پٹاخے  عام دنوں میں بھی ناجائز و حرام ہے جس میں پیسہ کاضیاع ہے جانوں کےضائع ہونےکااندیشہ ہے، جس رات کےاندر اللہ تعالی گناہوں کی مغفرت کا وعدہ فرمارہےہیں تو اس رات میں یہ کام کرنا کب جائزہوسکتاہے؟
اس رسم کو برادروطن کےایک تہوار دیوالی سے جاہل مسلمانوں نے لیاہے، یہی نھیں بلکہ قریب قریب تمام رسوم و بدعات مثلا سوم و چہلم وغیرہ بھی وہیں سے لئے گئے ہیں۔ اوربعض جگہوں پر اب جلسوں کاسلسلہ شروع ہوگیا پوری رات جلسہ کےانتظامات میں صرف ہورہی ہے، کھانےپک رہےہیں دیگیں چڑھ رہی ہیں دعوتیں ہورہی ہیں، افسوس! وہ اوقات جن کا لمحہ لمحہ قیمتی تھا جلسہ جلوس کی رنگینیوں میں صرف ہورہاہے، اللہ نےیہ رات دی ہے اس کا جتنابھی حصہ موقع مل جائے پوری رات نہ سہی جتنابھی موقع ملے اسی کو عبادت میں دعاؤں اور تلاوتوں میں لگائیں، اور اللہ سے رابطہ قائم کریں، اس میں نفلی نمازیں پڑھیں، لمبی لمبی سورتیں،مناجات، مقبول دعائیں نبی کریم ﷺ کی دعائیں پڑھیں،  اپنی ذات کےلئےدعائیں کریں، آج امت مسلمہ عظیم آزمائش میں مبتلاء ہے خصوصاً فلسطین و غزہ کےمسلمانوں کےلئے اور اپنے ملک بھارت کیلئے دعائیں کریں ان مظلوموں کیلئے جو جیلوں کےاندر ناجائزمقدمات میں پھنسےہوئےہیں ان سب کےلئےدعائیں کریں، وہ سب ہماری دعاؤں کےمحتاج ہیں۔
آجکل سوشل میڈیا پر ایک ڈیجیٹل معافی نامہ چل رہا ہے، لوگ بڑے پیمانےپراس کوشیئرکررہےہیں،  یاد رکھئے!  جس شخص کو ہماری ذات سےتکلیف پہنچی یا جس کا ہمارے اوپر حق ہے تو اس سے باقاعدہ ملاقات کر کے معافی مانگی جائے، نہ یہ کہ رسماً معافی طلب کی جائے،  ہمارے قریبی دوست  احباب اور  رشتہ داروں میں نہ جانے کتنے لوگ ہیں جن سے ہمارا آپس میں مدتوں سے قطع تعلق ہے ہم لوگ ان سے تو معافی مانگتےنھیں اور جن لوگوں سےناواقف ہیں ان کو سوشل میڈیا پر معافی نامہ بھیج رہے ہیں یہ بات عقل سےبالاتر بات معلوم ہوتی ہے معافی نامہ بھیجنے سے بہتر ہے کہ جن لوگوں کو ہمارے ذریعہ سے نقصان ہوا ہے ان سے بذات خود ملاقات کر کے معافی مانگیں۔ اسی طرح شب برأت کے تعلق سے ایک حدیث عوام میں مشہور ہے کہ:  "شب برأت سے اگلے دن کا روزہ رکھنے سے ایک حج کا ثواب ، دو سال کے گناہ معاف ، اور یہ بات جو دوسروں کو بتائے اس کے ۸۰ سال کے گناہ معاف ” یہ  حدیث ہےہی نہی بلکہ من گھڑت بات ہے۔
شب برأت پر ہمارے نوجوان بچے اپنی موٹر سائیکل لیکر سڑکوں پر نکل جاتے ہیں اور چائے کی دکانوں اور ہوٹلوں پر ہنسی مذاق میں پوری رات گزاردیتےہیں ۔ میرے عزیزوں!! یہ رات اللہ نے عبادت کرنے کے لئے بنائی ہے نہ کہ ان فضول کاموں کے لئے، آپ بائک کو مزےلیکر ل موسیقی کےساتھ چلارہےہیں، خدانخواستہ چوٹ بھی لگ سکتی ہے اور جانی مالی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا: اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو ( سوره بقره)

ایک زیادتی اس میں یہ کی گئی ہے کہ بعض لوگ شب بیداری کے لئےفرائض سے زیادہ اس میں لوگوں کو جمع کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک ساتھ جمع ہوکر شب بیداری آسان تو ہوجاتی ہے مگرنفل عبادت کے لئے لوگوں کو ایسے اہتمام سے بلانا اور جمع کرنا یہ خود شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ گھر کے لوگ جمع ہو کر عبادت کریں۔
ایک اور اہم بات کی طرف آپ حضرات کو متوجہ کرتا ہوں وہ یہ کہ حدیث شریف سے اس رات کی فضیلت ثابت ہے اور جس وقت میں فضیلت ہوگی۔اس میں معصیت (گناہ کے کام) بھی بنسبت دوسرے اوقات کے بہت برے ہوں گے۔ جیسے مکان (جگہ) کاحکم ہے اسی طرح زمانہ کا بھی حکم ہے مثلا ایک گناہ تو معمولی جگہ پر کرنا ہے اور ایک مسجد میں گناہ کرنا تویہ زیادہ برا ہے۔ اسی طرح ایک تو گناہ کرنا دوسرے اوقات میں اور ایک متبرک اوقات مثلا رمضان شریف میں گناہ کرنا یہ بہت برا ہے ۔ اور یہ رات بھی متبرک ہے تو اس میں اوردوسرے اوقات کے مقابلہ میں گناہ بھی سخت ہوگا۔
شب برات جو کہ نہایت بابرکت رات ہے اس کےاندر آتش بازی وغیرہ کرنا  کس قدر گناہ کی بات ہے جب کہ یہ بات مقرر ہے کہ متبرک اوقات میں جس طرح اطاعت کرنے سے اجر بڑھتا ہے اسی طرح معصیت کرنے سے گناہ زیادہ ہوتاہے۔ (صلاح الرسوم)
قبرستان جاتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں ! ٹولیاں بنابنا کر نہ جائیں حضورﷺ اس رات میں جب قبرستان تشریف لے گئےتھے تو آپ اکیلے تھے یہاں تک کہ اس بات کی خبر آپکی چہیتی بیوی حضرت عائشہؓ کو بھی نہیں تھی، تو اگر کوئی اس رات میں قبرستان جا رہا ہے تو اس بات کا خیال رکھے کہ ٹولیاں بنابنا کر نہ جائے بلکہ اکیلا جائے آپﷺ شب برأت پر زندگی میں ایک مرتبہ قبرستان گئے، تو زندگی میں آپ بھی ایک مرتبہ چلےگئے توسنت ادا ہوگئ،  دوسری بات یہ کہ قبروں پر موم بتی، اگربتی جلانا حرام ہے، تیسری بات یہ ہے کہ قبرستان کے اندر یا باہر میلے کی شکل نہ بنائیں قبرستان کے باہر چائے اور حلیم بریانی و غیره بانٹنے سے میلے کی سی شکل بن جاتی ہے اور قبرستان جانے کا جو مقصد ہوتا ہے وہ مقصد بھی پورا نہیں ہو پاتا اس لئے شریعت کے دائرہ میں رہ کر اس رات قبرستان جائیں۔ جب آپﷺ شب برأت پہ زندگی میں صرف ایک بارگئے اور وہ بھی اکیلے تو اب میلے اور جلسےجلوس کہاں سے آگئے?  خدارا ان تمام خرافات سے بچتےہوئے یہ بابرکت رات گرازیں۔
ایک مختصر سی دعاء جس کو اللہ کےنبی ﷺ پڑھ کردعاء مانگاکرتے تھے اللہ کےنبیﷺ کی دعاء مبارک

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ»

اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا کے ذریعے سے تیری ناراضی سے اور تیری عافیت کے ذریعے سے تیری سزا سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعے سےتیرے قہر و غضب سے، میں تیری تعریف کا شمار نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے (سنن بیہقی)!


یہ دعا حضرت عائشہؓ کو حضورﷺ نے سکھائی اور فرمایا عائشہؓ اس کو یاد کرلو اور دوسروں کوبھی سکھادینا اور فرمایا مجھے یہ دعاء حضرت جبرائیلؑ نے سکھائی اور حضرت جبرائیلؑ کو اللہ تبارک و تعالی نے ، جب ان الفاظ میں ہم جیسےگنہگار مانگیں گے تواللہ تعالی ضرور اپنےسکھائےہوئےالفاظ کی لاج رکھ کر دعاء قبول کرےگا۔
اسکےبعد اگلےدن ۱۵ شعبان کے روزے کےبارےمیں کوئ صحیح حدیث قابل اعتبار نہی ہے، البتہ آپﷺ شعبان کے اکثرایام میں روزہ رکھتےتھے، لہذاجو فضیلت ۱۵ شعبان کو حاصل ہےاسی طرح دیگرایام (کل، پرسوں اور ترسوں )کوبھی حاصل ہے، خاص طورپرپندرہ شعبان کو فضیلت سمجھ کر روزہ رکھنا مناسب نہی ہے، لیکن پورے شعبان میں جب بھی موقع مل جائے روزہ رکھ لے۔ باری تعالی عمل کی توفیق عطافرمائے۔

Exit mobile version