مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
_________________
انسان ، انسان ہی ہے فرشتہ نہیں ، اس سے خطا کا صدور ہوتا ہے ، شیطان معصیت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا رہتا ہے، نفس امارہ اسے خواہشات دنیا کی لذتوں اور بازار کی چکا چوند کی طرف کھینچتا رہتا ہے ، اس کی فطرت میں خیر وشر کی قوت رکھی گئی ہے ، اسی لیے غلبہ کبھی فسق وفجور اور معصیت کا ہوجاتا ہے اور بندہ وہ کر گذرتا ہے ، جس سے اللہ رب العزت نے بچنے اور نہ کرنے کا حکم دیا ہے ، کبھی یہ معصیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آدمی اس پر ڈھیٹ ہوجاتا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اللہ کی نا فرمانی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے ، پھر اس کی آنکھ ، کان ،دل ودماغ پر گناہوں کثافت اس قدر چڑھ جاتی ہے کہ وہاں سے اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے ۔
معصیت کی اس فطرت اور گناہو ں کی لذت سے بچنے میں جو چیز سب سے زیاد مؤثر ہے وہ خوف خدا ہے، یہ ’’ماسٹر کی‘‘ اور شاہ کلید ہے ،یہ جب کسی کے دل میں پیدا ہوجائے تو اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے ، اس کے سوچنے کا انداز بدلتا ہے اور اس کی معاشرت ، رکھ رکھاؤ ، بول چال ، اعمال وافعال میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ کھلی آنکھوں دیکھ کر محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ اللہ سے ڈرنے والا انسان ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بار بار ڈر نے کا حکم دیا ہے اور فرمایا کہ جو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر ا وہ دوجنت کا مستحق ہوگا، سورۃ اعراف ۵۴؍میں ہے کہ جو لوگ اللہ رب العزت سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ سورۃ بینۃ :۸؍ میں ہے کہ اللہ رب العزت کی خوشنودی اس کو حاصل ہے اور وہ اللہ سے خوش ہے جو رب سے ڈرتا ہے، ڈر کی یہ صفت انسان کے اندر معرفت رب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے کہ علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ (سورۃ فاطر : ۲۸)
اس لیے بندوں کو جنت کی طلب میں خوف خدا کے ساتھ زندگی گذارنی چاہیے تاکہ اس کی آخرت سنور جائے، اللہ رب العزت نے بندوں کو یہ بھی ہدایت دی کہ سنوکم ہنسو، روؤو زیادہ ، اس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کا یہی تقاضہ ہے۔حضرت امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے کہ خوف خدا نے مجھے کھانے پینے سے روک دیا ہے ، اس لیے مجھے اب اس کی خواہش نہیں ہوتی، قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کے سایے میںجگہ ملے گی ، ان میں ایک وہ بھی ہوگا جو اللہ رب العزت کے عذاب اور بد اعمالی پر وعیدوں کو یاد کرکے دنیا میں رویا کرتا تھا، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ایک اللہ کے خوف سے دیر رات رونے والی آنکھیں اور دوسری وہ جو سرحد کی نگہبانی کے لیے بیدار رہی ہو، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص کا قول ہے کہ مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسندیدہ اللہ کے خوف سے ایک قطرہ آنسو کا بہنا ہے ، حضرت عوف بن عبد اللہ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ روایت پہونچی ہے کہ اللہ کے خوف سے نکلنے والا آنسو جسم کے جس حصے کو لگ جائے اس پر دوزخ کی آگ کو اللہ نے حرام کر دیا ہے ، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ فرماتے ہیں کہ میری عزت وجلال کی قسم میں اپنے بندے کو دو خوف میں مبتلا نہیں کر سکتا ، جو دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے گا میں اسے آخرت میں ڈراؤں گا اورجو دنیا میں مجھ سے ڈرے گا اس کو آخرت میں امن وامان اور اطمینان دوں گا، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: تم ان کافروں سے مت ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مؤمن ہو (آل عمران : ۱۷۵) ایمان والوں کی علامت میں سے ایک اللہ کے خوف کو قرار دیا گیا (المومنون: ۵۷) اور حکم ہو امجھ ہی سے ڈرو۔ (البقرۃ: ۴۰) اور اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے، (آل عمران: ۱۰۲) اور تم ڈرنے کی جس قدر استطاعت رکھتے ہو، اتنا ڈرو۔ ترمذی شریف میں ایک روایت ہے جس کو انہوں نے حسن قرار دیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ سے ڈر نا کسی خاص جگہ یا مکان سے متعلق نہیں ہے بلکہ جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ دل کو آباد رکھنے کے لیے اللہ کا خوف ضروری ہے ، جس دل میں اللہ کا خوف نہ ہو وہ ویران اور بنجر زمین کی طرح ہے، اسی لیے حضرات ابنیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ واولیاء عظام کثرت سے رویا کرتے تھے، حضرت آدم اورنوح علیہما السلام کے بارے میں حضرت حسن بصری کا قو ل ہے کہ وہ تین سو سال تک روتے رہے، حضرت داؤد ، حضرت یحیٰ کی گریہ زاری کا بھی یہی حال تھا، اس گریہ زاری کے اثرات ان کے رخسار اور زمین پر بھی پڑا کرتے تھے او رچہرے آنسوؤں کے مسلسل بہنے سے زخمی ہوجایا کرتے تھے، صحابہ کرام کے خوف خدا سے رونے کے واقعات کتابوں میں مرقوم ہیں خصوصا حضرات خلفاء راشدین اپنی تمام تر عظمت کے باوجود اللہ کے خوف سے اس قدر روتے تھے کہ اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، بعض طبیبوں نے اولیاء کرام کو مشورہ دیا کہ آپ کی آنکھیں اچھی ہو سکتی ہیں، اگر آپ رونا چھوڑ دیں، انہوں نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ اس آنکھ میں کوئی خیر نہیں جو نہ روئے، بعض بزرگوں کے بارے میں منقول ہے کہ خوف خدا سے روتے روتے ان کی بینائی چلی گئی ، اور بعضوں کی آنکھوں سے آنسو کے بجائے خون بہنے لگا ۔
حضرت عائشہ ؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال نقل کیا ہے کہ آپ راتوں کو بہت گریہ زاری کرتے تھے، ایک رات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کہا کہ جب آپ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں کو اللہ نے معاف کر دیا ہے، پھر آپ اس قدر کیوں روتے ہیں، ارشاد فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ۔
ہر رونا خوف خدا سے نہیں ہوتا کبھی خوشی میں بھی آنسو نکل آتے ہیں، اور کبھی حزن وملال ، درد وغم ، رنج والم کی وجہ سے بھی رونا آتا ہے ، یہ فطری چیز ہے، ان رونے میں سب سے بہترین رونا اللہ کے خوف سے رونا ہے ، البتہ یہ رونا دکھلاوے اورلوگوں کے سامنے رقیق القلب کے اظہار کے لیے نہ ہو، کیوں کہ دکھاوے کے لیے رونا اللہ سے قربت کے بجائے بُعد اور دوری پیدا کرتا ہے ۔
اللہ کے خوف سے رونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی یقین کے ساتھ اپنی مغفرت اور دخول جنت کے بارے میں مطمئن نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں اوربعض موقعوں سے وہ معصیت سے خود کو بچا نہیں پاتا، اس لیے بندوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی بے فکر نہیں ہوتا الا یہ کہ اس کی شامت ہی آگئی ہو ، گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود اگر کسی کو دنیاوی عیش وآرام حاصل ہے اور مرفہ حال ہے تو اس کو خدا کی قربت سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ رب العزت کا طریقہ ڈھیل دینے کا بھی ہے ، بالآخر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور یقینا اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے، اس لیے سوء خاتمہ سے ڈرنا چاہیے، گناہوں پر جری نہیں ہونا چاہیے، عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے اور عمل نفاق سے بالکلیہ بچنا چاہیے کہ یہ سوء خاتمہ کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔ خوف انسان پر مسلط ہوتا ہی رہتا ہے، وہ رات کی تاریکی میں اپنے سایے سے بھی ڈرجاتا ہے ، عورتیں تھوڑی تھوڑی بات پر رونا شروع کر دیتی ہیں، یہاں خوف سے مراد ایسا خوف ہے جو انسان کو گناہوں سے روک دے اور اللہ ورسول کی اطاعت کی طرف راغب کر دے ۔
اللہ کا خوف دل میں پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ہر کام اخلاص کے ساتھ کرے ، اللہ کی رضا کے استحضار کے ساتھ کرے، غور وفکر اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرے، اللہ کے نیک بندوں کی سیرت وسوانح کا مطالعہ کیا کرے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ (الانفال : ۲) گناہوں کے ارتکاب سے بچناچاہیے کیوں کہ گناہ گار کے دل سے اللہ کا خوف نکل جاتا ہے ، ان ظالموں اور فاسقوں کے احوال کو پڑھ کر عبرت پکڑنا جن کو اللہ نے ہلاک کر دیا اور وہ شہروں میں جائے پناہ تلاشتے ہی رہے، علماء کے با اثر بیان سننا کہ یہ بھی ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق بن کر دل کی دنیا بدلنے میں کیمیا اثر ہے، اور سب سے آخری ترکیب یہ ہے کہ رات کی تاریکی اور تنہائی میں گڑگڑا کر اللہ سے اس کی مغفرت اور معرفت طلب کی جائے ، اس لیے کہ ساری توفیق اللہ کی جانب سے ہوا کرتی ہے ۔ جگر مراد آبادی نے کہا ہے :
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس بات نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں