✍️ افروز عالم ساحل
___________________
سماجی مساوات، ہم آہنگی اور قوم کی ترقی کے مقصد سے قائم کی گئی ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کی گاڑی اب پٹری سے اترتی نظر آ رہی ہے۔ ہفت روزہ دعوت کو آر ٹی آئی کے ذریعہ ملے اہم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کی ترقی کے لیے کام کرنے کے مقصد سے بنایا گیا یہ فاؤنڈیشن اب نہ حکومت کی ترجیح میں شامل ہے اور نہ ہی وہ اس معاملے میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔ اگرچہ حکومت اس فاؤنڈیشن کے نام پر نئی نئی اسکیموں کی شروعات کرنے کا اعلان کرتی رہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فاؤنڈیشن کی کئی اہم اسکیموں کو حکومت نے خود پوری طرح سے بند کردیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کو حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت ملے اہم دستاویزات کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے مرکزی حکومت نے ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے بجٹ میں نہ صرف کٹوتی کی ہے بلکہ اس فاؤنڈیشن کے لیے جتنا بجٹ مختص یا جاری کیا گیا تھا کو بھی پوری طرح خرچ بھی نہیں کیا گیا ہے۔
آر ٹی آئی کے دستاویز بتاتے ہیں کہ مالی سال 21-2020 میں ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے لیے بجٹ محض 82 کروڑ روپے مختص کیا گیا لیکن 80 کروڑ روپے ہی جاری ہوئے لیکن سال ختم تک مرکزی حکومت نے اس فاؤنڈیشن کی مختلف اسکیموں پر صرف 63 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی خرچ کیے ہیں۔سال 20-2019 میں اس فاؤنڈیشن کے لیے 90 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور وہ جاری بھی کیے گئے لیکن خرچ 37 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی کیے جا سکے۔ ایسی ہی کہانی سال 19-2018 کی بھی ہے۔ اس سال اس فاؤنڈیشن کے لیے 125.01 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 123.76 کروڑ روپے جاری بھی ہوئے لیکن خرچ محض 36 کروڑ روپے ہی کیے گئے۔
سال 2014 تا 2018 تک کی کہانی ذرا مختلف ہے۔ ان چار برسوں میں اس فاؤنڈیشن کے لیے 113 کروڑ روپے مختص کیے گئے، پوری رقم جاری ہوئی اور فاؤنڈیشن کے ذریعہ اس رقم کو پوری طرح سے خرچ بھی کیا گیا۔ اس بار یعنی سال 22-2021 کے لیے اس فاؤنڈیشن کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں تھوڑا بڑھا کر 90 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ اس فاؤنڈیشن کی بنیاد جولائی 1989 میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت اسے ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش سوسائٹی کی حیثیت سے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ لیکن اس کا کام مالی سال 94-1993 میں شروع ہوا، جب مرکزی حکومت نے 5 کروڑ کے کارپس فنڈ کی پہلی قسط جاری کی۔ دوسری قسط 96-1995 میں25.01 کروڑ روپے کی جاری کی گئی۔ یہ کارپس فنڈ 12-2011 میں بڑھ کر 750 کروڑ ہو گیا۔
سال 2006 میں وزارت اقلیتی امور کے قیام کے بعد فاؤنڈیشن کو خود مختار ادارے کی حیثیت سے برقرار رکھتے ہوئے اسے مذکورہ وزارت کے تحت لایا گیا۔ وہیں 12ویں منصوبے میں اس فاؤنڈیشن پر حکومت کی پھر سے نظر عنایت ہوئی۔ اقلیتوں کے بچوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور بہتر مستقبل کے لیے قائدانہ خوبیوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ ہی مولانا آزاد فاؤنڈیشن کے کارپس فنڈ کو 750 کروڑ سے بڑھا کر 1500 کروڑ کر دیا گیا۔
غور طلب ہے کہ ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کا مقصد سماجی مساوات اور ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ قوم کی ترقی کے لیے تعلیمی، معاشرتی ومعاشی ترقی لانا تھا۔ ساتھ میں اس فاؤنڈیشن کا اہم مقصد سماج میں انصاف، آزادی، سیکولرازم اور سوشلزم سے تئیں بیداری، اقلیتوں کی پسماندگی کا پتہ لگانے کی خاطر ریسرچ، انفارمیشن اینڈ کونسلنگ سنٹرز، لائبریری اور بک بینک وغیرہ کا اسٹیبلشمنٹ اور خاص طور پر اقلیتوں کو معاشی طور پر مضبوط اور خود کا روزگار بنانے کے لیے ٹریننگ دینا تھا۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں دیکھنے میں یہ آیا کہ اس فاؤنڈیشن کی کئی اسکیمیں پوری طرح سے بند ہو گئی ہیں۔
کتنی اسکیمیں نافذ العمل ہیں؟
ابھی یہ فاؤنڈیشن چار اسکیموں کو چلا رہا ہے۔ (۱) اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والی ہونہار لڑکیوں کے لیے بیگم حضرت محل نیشنل اسکالر شپ : اس اسکالرشپ کے تحت نویں تا دسویں جماعت کی طالبات کو بطور وظیفہ 10 ہزار روپے، جبکہ گیارہویں تا بارہویں جماعت کی طالبات کو 12 ہزار روپے دیا جاتا ہے۔ (۲) اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو روزگار کے قابل بنانے کے لیے ’غریب نواز روزگار اسکیم‘: یہ اسکیم سال 18-2017 میں شروع ہوئی، اس کے تحت ہنر مندی کے فروغ کے لیے قلیل مدتی کورسیز چلائے جاتے ہیں۔ حالانکہ مرکزی حکومت پہلے سے اس طرح کی ایک اسکیم ’سیکھو اور کماؤ‘ چلا رہی ہے۔ (۳) ’نئی منزل‘ اسکیم کے تحت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مدرسے سے فارغ التحصیل طلبا اور دوران تعلیم اسکول چھوڑنے والے طلبا کے لیے برج کورس چلایا جا رہا ہے۔ (۴) سوَچھ ودیالیہ: یہ اس فاؤنڈیشن کی اہم اسکیم تھی ’مولانا ابوالکلام آزاد لٹریسی ایوارڈ‘ یہ ایوارڈ تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اشخاص اور تنظیموں کو دیا جاتا تھا، لیکن سال 2005 کے بعد سے یہ ایوارڈ کسی کو بھی نہیں ملا۔ Maulana Azad Memorial Lecture & Awareness Program بھی اب فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ اور اس کے کاموں کی فہرست سے غائب ہے۔ یہ اسکیم اس فاؤنڈیشن کے ذریعہ نویں کلاس میں جانے والی اقلیتی طبقے کی لڑکیوں کو تعلیم میں بڑھاوا دینے کے مقصد سے شروع کی گئی ’’سائیکل یوجنا‘‘ بھی سال 2014 میں بند کی جا چکی ہے۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یو پی اے حکومت نے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کارپس فنڈ کو 750 کروڑ سے بڑھا کر 1500 کروڑ کر دیا تھا۔ لیکن حکومت بدلنے کے بعد وزارت اقلیتی امور کے ذریعہ اب تک صرف 1362 کروڑ روپے ہی اس کے کارپس فنڈ میں دیے گیے ہیں۔
واضح رہے کہ ’مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ ہر سال 100 کروڑ روپے کی آمدنی اس کارپس فنڈ کے سود سے حاصل کرتی ہے اور اسے اپنے انفراسٹرکچر پر خرچ کرتی ہے۔
اب تک نہیں بن سکی ہے نئی عمارت
حد تو یہ ہے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سوال پر وزیر اقلیتی امور ہمیشہ کچھ نہ کچھ اعلانات کرتے رہتے ہیں، لیکن یہ اعلانات و وعدے زمین پر کہیں نظر نہیں آتے۔
سال 2015 میں ہی سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے فاؤنڈیشن کی نئی بلڈنگ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے پریس کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قریب 75 ہزار اسکوائر فٹ زمین پر بننے والی مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی عمارت کا خاکہ تیار کیا جا چکا ہے بلکہ سات منزلہ عمارت کی تعمیر کا کام ابتدائی تیاریوں کے آخری مراحل میں ہے۔ لیکن کڑوی سچائی یہ ہے کہ اب تک اس معاملے میں کچھ نہیں ہو سکا ہے۔
فاؤنڈیشن کے ایک آفیسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فاؤنڈیشن کی پرانی عمارت پر نئی عمارت بنانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن ابھی تک تو یہاں ایسا کچھ ہوا نہیں ہے۔ فاؤنڈیشن کے کام کاج اپنی اسی پرانی بلڈنگ میں ہو رہے ہیں۔
یہ پوچھنے پر کہ گزشتہ 5-6 سالوں میں کچھ تو ہوا ہو گا اس پر وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ابھی تک تو الاٹمنٹ لیٹر بھی نہیں ملا ہے۔ یہ وزارت اقلیتی امور اور وزارت برائے سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کا جوائنٹ الاٹمنٹ تھا۔ وزارت اربن ڈیولپمنٹ نے ان دونوں سے مساوی رقم بطورِ لینڈ پریمیئم چارج ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ وزارت اقلیتی امور نے تو اپنا شیئر جمع کروادیا لیکن وزارت برائے سماجی انصاف اور تفویض اختیارات نے ابھی تک جمع نہیں کروایا ہے اور جب تک وہ اپنا شیئر جمع نہیں کرے گی تب تک شاید ہی کام آگے بڑھے۔
مدارس کے اساتذہ کو اب تک نہیں ملی ’تربیت
اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے سال 2019 میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی 112ویں آپریٹنگ کونسل اور 65ویں جنرل اسمبلی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پورے ملک کے مدرسوں کو مین اسٹریم تعلیم سے جڑنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی خاطر ان کے کے اساتذہ کو مختلف تربیتی اداروں سے تربیت دلائی جائے گی اور اساتذہ کی تعلیم کا کام بھی شروع ہو گا لیکن اس اعلان پر عملدرآمد ابھی تک نہیں ہوا۔
نہیں ملی مسلم لڑکیوں کو ’شادی شگن‘ کے 51 ہزار روپے
سال 2017 میں اعلان کیا گیا تھا کہ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے ملک میں مسلم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی غرض سے مرکزی حکومت 51 ہزار روپے کی رقم بطور ’شادی شگن‘ دے گی تاکہ وہ یونیورسٹی یا کالج کی سطح پر تعلیم مکمل کر سکیں، لیکن مرکزی حکومت کی یہ اسکیم اب تک نافذ نہیں ہو سکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال 8 مارچ کو پنجاب حکومت نے اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو بطور ’شادی شگن‘ 51 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ رقم انہی لڑکیوں کو ملے گی جنہیں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی جانب سے بیگم حضرت محل نیشنل اسکالر شپ مل چکی ہو اور ان کے والدین کی سالانہ آمدنی دو لاکھ روپے سے زیادہ نہ ہو۔
راجستھان میں بنے گا عالمی نوعیت کا پہلا تعلیمی انسٹیٹیوٹ
اس سے قبل مولانا آزاد تعلیمی فاؤنڈیشن کی جنرل باڈی کی 57 ویں میٹنگ اور گورنرننگ باڈی کی 101ویں میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے مختار عباس نقوی نے اعلان کیا تھا کہ راجستھان کے ضلع الور میں غریبوں، پسماندہ طبقے اور اقلیتوں کے لیے عالمی نوعیت کے پہلے تعلیمی انسٹیٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا اور یہ تعلیمی ادارہ 2020 میں کام کرنا شروع کر دے گا۔ لیکن ہفت روزہ دعوت کے پاس موجود اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس انسٹیٹیوٹ کا کام آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ حالانکہ راجستھان حکومت اس تعلیمی ادارے کے لیے ضلع الور کےراپیپالی گاؤں میں 15ہیکٹر زمین دے چکی ہے۔
یو پی اے حکومت کے بڑے بڑے وعدے جو پورے نہیں ہو سکے
وعدوں اور اعلانات کے معاملے میں یو پی اے حکومت بھی موجودہ حکومت سے کم نہیں تھی۔ اس کے بھی کئی وعدے محض کاغذوں پر ہی رہ گئے۔ سال 2013 میں سابق وزیر اقلیتی امور کے رحمان خان نے اعلان کیا تھا کہ مولانا آزاد ایجوکیشن فاونڈیشن 5 یونیورسٹیز قائم کرے گا۔ اقلیتوں کے تعلیمی موقف سے متعلق اعداد وشمار جمع کرنے کے لیے فاونڈیشن ایک ڈاٹا بینک بھی قائم کرے گا۔ اقلیتوں پر ریسرچ کے لیے مختلف یونیورسٹیز میں مولانا آزاد چیئر قائم کی جائے گی۔ علاوہ ازیں پبلک اسکولس اور پالی ٹیکنکس بھی پی پی پی طرز پر قائم کیے جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان اداروں کے قیام کے لیے جملہ 500 کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی 3 تا 5 پبلک اسکولوں کے قیام کے لیے 10 کروڑ روپے اور پالی ٹیکنکس کے قیام کے لیے 5 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ رحمان خان نے لوک سبھا میں یہ بھی بتایا تھا کہ تین یونیورسٹیوں کے بارے میں فیصلہ لیا جا چکا ہے جن میں بنگلور میں ٹیپو سلطان یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اجمیر میں خواجہ غریب نواز پروفیشنل، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ایجوکیشن اور بہار کے کشن گنج میں رفیع احمد قدوائی یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز شامل تھے۔لیکن مذکورہ تمام اعلانات اور وعدے بھی ہوائی قلعے ثابت ہوئے، زمین پر کہیں ان کا وجود نہیں۔ اس سلسلے میں ہفت روزہ دعوت نے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ایک آفیسر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اب پرانی باتوں کو کون یاد رکھتا ہے۔ پرانی تمام باتوں اور وعدوں کو موجودہ حکومت میں بھلا دیا گیا ہے۔