Site icon

اصول پسند فرض شناس استاذ العلماء کی رحلت

از: مفتی خالد حسین نیموی قاسمی

_____________

حضرت مولانا محمد احمد صاحب فیض آبادی سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند اللہ کو پیارے ہو گئے. حضرت نوراللہ مرقدہ میرے مشفق استاذ تھے؛بزرگ تھے، متبع سنت تھے اور کئی لحاظ اکابر کی یادگار اور نمونہ اسلاف تھے.
پریتم پور ضلع فيض آباد (موجوده  امبیڈ کر نگر) کے رہنے والے تھے۔ 10 نومبر 1937ء كو آپ کی  ولادت ہوئی. اس طرح آپ نے اپنی زندگی کی 86 بہاریں دیکھیں،آپ نے 1374ھ ميں دارالعلوم ديوبند ميں داخلہ ليا اور 8 137ھ ميں دورۂ حديث سے فراغت ہوئى۔.
آپ کی پوری زندگی سادگی، اصول پسندی، فرض شناسی سے عبارت ہے.
اس عاجز نے مادر علمی دار العلوم دیوبند یوپی میں درجہ ششم عربی میں حضرت سے اصول فقہ کی کتاب "حسامی” اوردرجہ ہفتم عربی؛ موقوف علیہ میں مشکوٰۃ المصابیح جزء ثالث پڑھی ہے. چونکہ علم طب میں مہارت رکھتے تھے، اس لیے کتاب الطب والرقی میں آپ کے جواہر خوب نکھرتے تھے. اس کے علاوہ جب یہ عاجز دارالعلوم دیوبند میں معین المدرسین کی طور پر خدمات انجام دے رہا تھا، اس وقت نائب ناظم تعلیمات کی حیثیت سے ہماری نگرانی اور تربیت بھی فرمایا کرتے تھے. حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی کے دست راست تھے، حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے عاشق زار تھے. ایک مربی کے طور پر جب انھیں کچھ خاص نصیحت کرنی ہوتی تھی تو بعد عصر اپنے قیام گاہ پر چائے پر مدعو کرتے تھے. ثانویہ کے اعلیٰ ذمہ دار ہونے کے ناطے ان سے روزانہ کی ملاقات ہوتی تھی، وقت مقرر پر ثانویہ دفتر تعلیمات میں تشریف لاتے اور بسا اوقات مین گیٹ کو بھی بند کروا دیتے، جس کی وجہ سے تاخیر سے آنے والے طلبہ کو بڑی فضیحت کا سامنا کرنا پڑتا، بعض اوقات بعض اساتذہ بھی زد میں آتے؛ لیکن آپ کی اصول پسندی کے سامنے مشکل سے ہی کسی کو رعایت مل پاتی!
اگر کوئی گھنٹہ خالی ہوتا تو مشورہ کرکے معین المدرسین میں سے کسی کو ذمہ داری دیتے.
حضرت مولانا بلال اصغر نوراللہ مرقدہ ان ایام میں سفر حج پر تشریف لے گئے، تو حضرت نے ان کے چہارم عربی کی کتاب شرح وقایہ اس عاجز کے سپرد کر دی، اس کے علاوہ کئی اسباق کی جزوی تبدیلی کا مکتوب بھی کبھی مولانا محمد احمد اور کبھی حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی کے دستخط سے موصول ہوا کرتا تھا.
شرح حدیث میں ید طولیٰ رکھتے تھے، اصول کے معاملے میں بہت سخت تھے، بے اصولی قطعاً برداشت نہیں کرتے تھے، طلبہ و اساتذہ کے درمیان ان کا ایک خاص قسم کا رعب وداب تھا.
بہار اور اہل بہار سے خاص تعلق رکھتے تھے، ایک عرصہ جامعہ قاسمیہ گیا میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، بسا اوقات دوران درس یا نجی مجلس میں بہار سے وابستہ یادوں کا مزے لے لے کر تذکرہ کرتے، ایک مجلس میں بہار کے تاڑ اور” تاڑی” کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا کہ حاضرین لوٹ پوٹ ہوگئے. کہنے لگے :مولوی صاحب! تاڑ کے رس یا شیرہ میں زبردست قوت مردمی ہے، یہ باہ کے لیے بے حد مفید ہے، اگر اسے سورج کی کرنیں پڑنے سے پہلے نکال لیا جائے تو اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں کہ اس میں نشہ کا شائبہ بھی نہیں ہوتا… میں یہ باتیں تجربہ سے کہہ رہا ہوں، یہ تجربہ میں نے بہار میں کیا تھا، اس مرحلہ میں میری جو اولاد ہوئی وہ سب سے صحت مند تھی.
بعد ازاں مولانا جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں شیخ الحدیث اور استاذ حدیث رہے. اور اپنی اعلی علمی شناخت کی بنیاد پر دارالعلوم دیوبند کے لیے منتخب کیے گئے.1411ھ میں تدریسی خدمات کے لیے دار العلوم میں تقرر ہوا ۔آپ کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے پہلے نائب ناظم تعلیمات اور ثانویہ کا ذمہ دار اعلیٰ منتخب کیا گیا پھر حسن کارکردگی اور بڑوں کے اعتماد کی وجہ سے باضابطہ ناظم تعلیمات نامزد کیا گیا، ان ذمہ داریوں کو آپ بہ احسن وجوہ انجام دیتے رہے. بعد عصر حکمت وطب کی اعلیٰ صلاحیتوں سے بیماروں کی خدمت کرتے. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ دار العلوم کے میرے ایک رفیق کو کتے نے کاٹ لیا، میرے مشورے پر وہ مولانا محمد احمد کے پاس پہنچے، حضرت کی محنت اور دست شفا سے اللہ تعالیٰ نے مکمل شفاء عطا فرمایا..
اخیر عمر خدمت تدریس جگہ بیماروں کی خدمت کرتے رہے، جب تک سکت باقی تھی:

ابن مریم ہوا کرے کوئی

اس درد کی دوا کرے کوئی
کے مصداق بیماروں اور رنجوروں کی مسیحائی کرتے رہے، یہاں تک کہ خود بیمار ہوکر خالقِ حقیقی سے جا ملے.
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے.

Exit mobile version