Site icon

سوریہ نمسکار ناقابلِ قبول

از: خالد سیف اللہ صدیقی

_______________

    اسلام میں صرف ایک خدا کا تصور ہے۔ وہی سب کا خالق ، وہی سب کا مالک اور وہی سب کا سب کچھ ہے۔ دیگر ادیان و مذاہب میں وحدت الہ کا تصور مفقود ، مبہم یا بہت پیچیدہ ہے۔ وہاں مخلوقات کو بھی رب ، الہ اور معبود تصور کر لیا گیا ہے۔ کوئی آگ کو خدا مانتا ہے۔ کوئی سورج کو خدا مانتا ہے۔ کوئی کسی بشر کو ہی خدا جانتا ہے۔ اور کوئی کسی اور چیز کو خدا کا درجہ دیے بیٹھا ہے۔
     پچھلے دنوں راجستھان حکومت نے اسکول کے ہر ہر طالب علم کے لیے "سوریہ نمسکار” کو لازم قرار دیا۔ اس فیصلے کے بعد ہی ریاست کے مسلمانوں میں خصوصا اور ملک کے مسلمانوں میں عموما تشویش کا ماحول پیدا ہوا ، اور یہ جائز رد عمل تھا۔ اس فیصلے کا مسلمانوں نے بائیکاٹ کیا اور اس کی مخالفت کی۔ خصوصا جمعیت علماء راجستھان نے اس کی سخت مخالفت کی اور بروقت اس سلسلے میں مسلمانوں کی راہ نمائی کی ، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کے اس فیصلے کو کورٹ میں لے گئی اور اس کے خلاف درخواست داخل کی۔ لیکن ذرائع کے مطابق جمعیت کی اس درخواست کو کورٹ نے مسترد کر دیا ، اور شنوائی نہیں کی گئی۔ ادھر دوسری طرف یہ خبر بھی ہے کہ ایم آئی ایم نے بھی بعد کو اس فیصلے کے خلاف کورٹ میں عرضی داخل کی ؛ لیکن کورٹ نے اس پر سماعت کی تاریخ آگے ٹال دی۔
     راجستھان حکومت نے 15/فروری (2024) کو اسکولوں کے لیے "سوریہ نمسکار” کو لازم قرار دیا۔ چناں چہ آج فروری کی 20 تاریخ ہے ، اور بعض ویڈیو سامنے آئی ہیں ، جن میں صاف طور پر دکھایا گیا ہے کہ کوئی اسکول ہے ، اور اس میں باضابطہ طور پر "سوریہ نمسکار” کا عمل کرایا جا رہا ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر بہ خدا دل میں بڑی غیرت آئی۔ بڑا کرب محسوس ہوا۔ مردوں اور ہندو عورتوں کے ساتھ صف بہ صف بہت سی باپردہ مسلم لڑکیاں اہتمام کے ساتھ اس عمل میں شریک تھیں ، اور اس عمل کے مختلف ارکان مختلف طرز و انداز میں ادا کر رہی تھیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مسلم نما بچیاں اس میں زیادہ نظر آئیں۔ غیر مسلم تو بہت کم نظر آئے۔ ہر غیرت مند جو اس طرح کی تصاویر دیکھے گا ، اپنی بے بسی ، قوم کی پستی اور غیروں کی بالاتری کے احساس سے دل میں بڑا کرب محسوس کرے گا۔
     سوریہ نمسکار کوئی محض ورزشی عمل نہیں ہے کہ جس پر مسلمانوں کو خاموش رہنا چاہیے ، اور چپ چاپ اس کو قبول کر لینا چاہیے ؛ بلکہ یہ ایک ہندوانہ تصور کا مظہر ہے۔ ہندو قوم سورج کو خدا کا درجہ دیتی ہے۔ اس عمل کے ذریعے سورج کی پرستش کی جاتی ہے۔ اس عمل کے دوران بعض اشلوک یا منتر بھی پڑھے جاتے ہیں ، جو بالکل غیر اسلامی اور کفریہ و شرکیہ ہیں۔ چناں چہ اس سلسلے میں مفتی فیاض عالم قاسمی کے ایک مضمون کا مختصر اقتباس نقل کیا جاتا ہے ، جو جمادی الثانی–رجب المرجب 1443 مطابق جنوری–فروری 2022 کو ماہ نامہ دارلعلوم (دیوبند) کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ لکھا ہے : "سوریہ نمسکار کے معنی سورج کی سلامی ہے ؛ لیکن اب یہ ایک اصطلاح بن گئی ہے ، اور سورج کی عبادت اور پوجا کرنے کا نام "سوریہ نمسکار” ہوگیا ہے ، جس میں بارہ منتر ہیں۔ اس کو یوگا کے ساتھ جوڑ کر بارہ ایسی ہیئتیں اور شکلیں متعین کی گئی ہیں کہ ہر شکل اور ہیئت میں سورج کو مخاطب کرتے ہوئے ایک منتر پڑھا جاتا ہے۔ یہ منتر اور کلمات واضح طور پر کفر اور شرک پر مشتمل ہیں۔ جیسے اس کے منتر نمبر 6 میں ہے : "اے طاقت و قوت دینے والے!” —— منتر نمبر 8 میں ہے : "اے صبح کے مالک!” —— منتر نمبر 10 میں ہے : "اے کائنات کے مالک!” —— منتر نمبر 11 میں ہے : اے وہ ذات ، جو ہر قسم کی تعریف کی مستحق ہے”۔  
  بہ شکریہ :darululoom-deoband.com
     اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے "سوریہ نمسکار” کا عمل کتنا غیر اسلامی اور کفریہ و شرکیہ ہے۔
     مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے اسکول ، کالج اور تعلیمی ادارے جہاں جبرا مسلم بچوں سے اس طرح کے اسلام مخالف عمل کرائے جاتے ہوں ، وہاں اپنے بچوں کو نہ بھیجیں۔ یا تو خاص اس دن نہ بھیجیں ، جس دن یہ عمل کرائے جاتے ہوں ، یا کبھی بھی ایسے اداروں میں نہ بھیجیں ، اور ان کے متبادل دیگر تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم و تربیت کو یقینی بنائیں۔ ہمارے بچے اور بچیاں جاہل اور ان پڑھ رہ جائیں ، یہ گوارا ہے ؛ لیکن یہ گوارا نہیں کہ تعلیم کے نام پر ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو ایمان کے سودے کی راہ پر ڈال دیں! ایمان کے مقابلے میں ہماری ان عصری تعلیم اور غیر یقینی قلیل دنیوی منافع کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایمان ہی ہم مسلمانوں کا سب سے اہم ، سب سے مقدم اور سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایمان کے باب میں کسی طرح کا کوئی سمجھوتا ، نرمی یا روا داری نہیں۔

Exit mobile version