✍️ محمد قمر الزماں ندوی
___________________
قرآن مجید اور حفاظ کی عظمت و رفعت اور ان کے مقام بلند کا کیا کہنا ، اللہ تعالیٰ نے کس قدر واضح اور دو ٹوک انداز اور الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ ،،انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون،، ۔
اس نصیحت نامہ اور کتاب ہدایت یعنی قرآن کو ہم نے ہاں ہم نے ہی نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ و نگہبان ہیں۔ اور بارگاہ ربانی کی اس عطا کی کوئی حد ہے کہ جو صفت اللہ نے اپنے لئے مخصوص رکھی تھی، اسے بندہ کو بھی نواز دیا، یعنی اللہ حافظ الذکر یعنی قرآن کے محافظ و نگہبان ہیں تو بندہ کو توفیق بخش دی کہ وہ تیس پاروں کو حفظ کرکے حافظ قرآن کا مبارک و مسعود لقب حاصل کرلے، سچ ہے کہ
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
حافظ قرآن کا درجہ اور مقام و رتبہ اسلام کی نظر میں بہت ہی بلند ہے ۔ قرآن مجید کی تعلیم و تعلم میں مصروف رہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اچھے اور پسندیدہ ہیں، چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے ۔ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ (بخاری فضائل القرآن )
حافظ قرآن کا اللہ تعالی کے نزدیک بڑا مقام ہے اور یہ مقام اور تقرب حفظ قرآن مجید کی برکت کی وجہ سے بے ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک مجلس میں ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالی کے کچھ خاص بندے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے اس ارشاد پر صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم متوجہ ہوئے اور اشتیاق و تجسس کے ساتھ سوال کیا ، یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حافظ قرآن، ان کا بڑا مقام ہے اور یہ لوگ اہل اللہ اور خاصان خدا ہیں ۔( ابن ماجہ )
نسبت بڑی اونچی چیز ہے اور نسبت ہی سے کسی چیز کی قیمت متعین ہوتی ہے ۔ چوں کہ قرآن مجید کلام ربانی ہے ۔ خدا کا کلام ہے، جو تمام کلاموں میں اعلی اور ارفع ہے ۔ اسے جب اپنے سینے میں محفوظ کرلیا جائے، تو اس نسبت سے حافظ قرآن کا مقام و رتبہ تو بلند ہو ہی جائے گا ۔ اس حقیقت کو ہم اس مثال بھی سمجھ سکتے ہیں، کہ جب کسی شخص کا کسی بادشاہ حاکم یا بڑے عہدے دار سے کسی طرح کا تعلق اور رابطہ ہو جاتا ہے تو اس کا شمار خاص لوگوں میں ہونے لگتا ہے اور وہ شخص اس تعلق کو اپنے لئے فخر و عزت کی چیز سمجھنے لگتا ہے گویا اسے بہت بڑی دولت ملی گئی، جب اس عارضی فانی اور ناپائیدار دنیا کے تعلق کا یہ عالم ہے تو اس شخص کی خوشی کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے جو اپنے رب حقیقی کا مقرب اور خاص ہوجائے ۔ واقعتا وہ انسان قابل رشک اور لائق صد فخر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حفاظ کرام کو خاصان خدا کہا گیا ہے ۔
امت کا یہ طبقہ یعنی حفاظ کرام کےطبقہ کو بڑی عزت اور وقار حاصل ہے ۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اللہ تعالٰی کی تعظیم میں بوڑھے مسلمان کا اکرام کرنا اور اس حافظ قرآن کا اکرام کرنا جو افراط و تفریط سے خالی ہو اور عادل بادشاہ کا اکرام کرنا ہے ۔ (ابو داؤد ) طبرانی کی ایک روایت ہے کہ حفاظ قرآن جنتیوں کے مانیٹر ہوں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس نے قرآن مجید کو پڑھا اور اس کو حفظ کیا اور اس کے حلال و حرام کو سمجھا ۔ اللہ تعالٰی اس کو جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کے گھرانے میں سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں سفارش قبول کرے گا جن کے لئے جہنم واجب ہوچکی ہو۔ (مشکوة)
ایک روایت میں ہے جس کا ذکر التبیان میں بھی ہے کہ تین قسم کے لوگوں کے حق میں سوائے منافق کے اور کوئی ہلکا نہیں جانتا امام عادل یعنی انصاف ور بادشاہ و حاکم بوڑھا مسلمان اور حافظ قرآن ۔
لیکن یہ یہ بات بھی ذھن میں رہے کہ حفاظ کرام کو ملی یہ بشارتیں صرف ان حفاظ کرام کے لئے ہیں، جو قرآن کریم کے تقاضوں پر عمل بھی کرتے ہوں، جن کے اندر تقوی و خوف خدا ہو ۔ صالحیت ہو کتاب و سنت پر جس کا عمل ہو ۔ حفظ قرآن کی جو یہ عظیم دولت ملی ہے ، اس کی حفاظت کی فکر بھی کرتے ہوں ۔ اور ساتھ ہی اپنی نشست و برخاست عادات و اطوار اخلاق و کردار وضع قطع وہ ثابت کریں کہ وہ واقعتا حافظ قرآن اور خدا کے نمائندے ہیں ۔ نیز ان کا سینہ طمع لالچ اور تمام اخلاقی و روحانی بیماری پاک ہو ۔
حافظ قرآن امت کا انتا ہی کریم اور معزز طبقہ ہے ۔کنزل العمال میں یہ حدیث موجود ہے کہ حاملین قرآن کی فضیلت اس شخص پر جو حامل قرآن نہیں ہے ایسی ہے جیسے خالق کی فضیلت مخلوق پر ۔ ایک دوسری روایت میں ہے *اشرف امتی حملة القرآن و اصحاب اللیل* ( معجم طبرانی)
میری امت کے اشراف، حاملین قرآن اور رات کو عبادت کرنے والے ہیں ۔ اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ حافظ قرآن کی دعا قبول ہوتی ہے ۔ مسند فردوس میں ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن مجمع عام میں حافظ قرآن کی عظمت اور ان کے شرف کا اظہار و اعلان فرمائیں گے ۔ کنز العمال میں یہ روایت ہے کہ حافظ قرآن اور قرآن کو بار بار پڑھنے والے کی عقل آخر عمر تک ٹھیک اور درست رہتی ہے ۔ اور موت کے بعد قبر میں حافظ قرآن کی جسم کی حفاظت ہوتی ہے ۔ طبرانی کی اس روایت سے بھی حافظ قرآن کی عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ حفاظ قرآن جنتیوں کے مانیٹر ہوں گے ۔ ایک حدیث میں حافظ قرآن کے درجات کی بلندی اس طرح بیان فرمائی گئی ہے کہ حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتے جاو اور بلند ہوتے جاو اور ٹہر ٹہر کر اطمنان سے پڑھو جس طرح دنیا میں تم ٹھر ٹھر کر پڑھتے تھے ،کیونکہ تمہارا درجہ وہی ہوگا جس جگہ تم قرآن کی آخری آیت پڑھو گے ۔( ترمذی)
اولاد کو جو والدین قرآن مجید پڑھاتے اور حفظ کراتے ہیں ان کے لئے خوش خبری ہے کہ قیامت کے دن ان کو نور کا ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی روشنی کی طرح ہوگی ۔ اور اس کو دو جوڑے ایسے پہنائیں جائیں گے کہ پوری دنیا بھی ان کی قیمت نہیں بن سکتی وہ پوچھیں گے کہ یہ ہمیں کس چیز کے بدلے پہنائے جا رہے ہیں؟ (ہمارا تو کوئ عمل ایسا اونچا نہ تھا) تو انہیں بتایا جائے گا کہ یہ تمہارے بچے کے قرآن مجید پڑھنے اور حفظ کرنے کا انعام ہے ۔ (ترغیب و ترہیب)
ایک باعمل حافظ قرآن کو زندگی کے مختلف شعبوں میں دوسروں کے مقابلے میں جو ترجیح و فضیلت اور بلندی و برتری حاصل ہے اس کے لئے ان احادیث پر بھی نظر رہنی چاہیے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد میں سے دو دو کو ایک قبر میں دفن فرما رہے تھے اور دریافت فرماتے تھے کہ ان دونوں میں سے کس کو زیادہ قرآن کا حصہ یاد ہے ۔ پس جس کی جانب اشارہ کیا جاتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں آگے رکھتے تھے۔ (بخاری ) جس نے فضیلت قرآن کی وجہ سے حافظ قرآن کی کھانے پینے سے تواضع کی ۔ اللہ عز و جل اسے حافظ قرآن کے دل میں موجود ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں عطا فرماتے ہیں اور دس گناہ معاف فرماتے ہیں جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالی فرمائیں گے کہ تو نے میری وجہ سے اس کی عزت کی ہے تجھے اکرام اور بدلہ دینے کے لئے میں کافی ہوں ۔( مسند فردوس )
اس بات کو بھی ذھن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن کریم سے اس کی تلاوت سے اس کو یاد کرنے کی فکر سے کبھی بے توجھی نہ برتی جائے کیونکہ قرآن مجید خدائے بے نیاز کا کلام ہے اس کے یاد رکھنے میں بے نیازی برتی گئی تو اس کی غیرت برداشت نہیں کرتی کہ ایسے سینہ میں محفوظ رہے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی مثال اونٹ کی سی ہے کہ اونٹ جانوروں میں سب سے زیادہ حساس جانور ہے اگر اونٹ یہ محسوس کر لیتا ہے کہ اس کا مالک اس کے ساتھ بے رخی اور بے اعتنائی برت رہا ہے اور اس کے چارے کے انتظام میں غفلت سے کام لے رہا ہے تو اس اونٹ کی غیرت اس کو برداشت نہیں کرتی اور پھر وہ جب مالک کے گھر سے نکل جاتا ہے تو دوبارہ اس جانب رخ نہیں کرتا ۔ اسی طرح قرآن مجید بھی بہت حساس اور غیرت والا کلام ہے اگر حافظ قرآن اس کو یاد کرنے میں تساہلی اور سستی سے کام لیتا ہے ۔ تو قرآن بھی حافظ قرآن کے دل سے نکل جاتا ہے اور اونٹ ہی کی طرح دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا ۔
اس لئے قرآن مجید اور قرآن کے حافظ کو الراحل المرتحل کہا گیا ہے کہ حافظ قرآن ایسا مسافر ہے جس کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی روشنی میں اپنے دور خلافت میں اس چیز کو حافظ کے لئے لازم کیا کہ رمضان میں ختم قرآن کے دن انیسویں رکعت میں قرآن مکمل کرلے اور بیسویں رکعت میں الحمد للہ اور سورہ بقرہ میں اولئک ھم المفلحون تک پڑھ کر بیسویں رکعت مکمل کرے ۔ تاکہ اس حدیث کے مقتضی پر عمل ہوسکے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حافظ قرآن کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور بہت سے امور میں ان کو فوقیت اور ترجیح دیتے تھے اور جن کو قرآن زیادہ یاد ہوتا سفر میں اور گاؤں اور قبیلہ کی مسجد میں ان کو امامت کے لئے متعین کرتے تھے ۔ بلکہ بہت سے موقع پر فوج کی قیادت کے لئے بھی زیادہ قرآن مجید یاد رکھنے والے کو آپ نے قائد اور امیر فوج بنایا ۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تم میں سب سے زیادہ قرآن مجید کس کو یاد ہے تو سب نے تفصیلات بتائیں ۔ ایک صحابی نے جب یہ کہا کہ مجھے سورہ بقرہ اور فلاں فلاں فلاں سورہ حفظ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہی اس فوج کا امیر مقرر فرمایا ۔ ایک صحابی نے اپنے والد سے روایت کردہ اس واقعہ کو بیان کیا کہ میرے والد نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرے قبیلے کے لوگ مسلمان ہوئے اور اسلامی احکام و مسائل سیکھنے کے لئے قبیلے کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ روانہ ہوا جس میں میں بھی شامل تھا کچھ دنوں کے بعد جب وفد کی واپسی ہوئی تو اس موقع پر میں نے سوال کیا کہ اللہ کے رسول! ہم میں سے امامت کا فریضہ کون انجام دے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو قرآن زیادہ حفظ ہوگا چنانچہ اس وفد میں سب سے زیادہ سورتیں مجھ ہی کو یاد تھیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہی امامت کے لئے مکلف بنایا اور مجھے ہی اس کا اہل قرار دیا ۔
ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان قریش کی امامت کیا کرتے تھے اور ان کے پیچھے عبد الرحمن بن ابی بکر بھی ہوتے تھے یہ محض اس لئے کہ وہ سب سے زیادہ قرآن مجید جانتے تھے ۔ (ابن سعد) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جس وقت اہل دیوان کا حصہ مقرر کیا تو جس طرح نیکیوں میں اور اسلام لانے میں سبقت کرنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کرنے والوں کو حصہ دئے جانے میں ترجیح دی جاتی تھی اس طرح انہوں نے قرآت قرآن کے اعتبار سے بھی فضیلت دی تھی یعنی جن لوگوں کو قرآن زیادہ یاد تھا ان کے حصے اوروں سے زیادہ مقرر کئے گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حفاظ کرام کے لئے باضابطہ وظائف بھی جاری فرمائے تھے ۔( ابن سعد) بحوالہ سہ ماہی زبان خلق )
نوٹ/. اس مضمون میں بعض ضعیف احادیث کا ذکر ہوا ہے ,جو فضائل کے باب میں چل سکتے ہیں۔