✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
_____________
رمضان تربیت، مجاہدہ نفس، رحمتوں کے نزول، برکتوں کی بارش اور نیکیاں کمانے کا موسم بہار ہے، دن بھر پیٹ کے روزے کے ساتھ، دل ، دماغ، ہاتھ پاؤں، آنکھ ، کان اور سب سے بڑھ کر زبان کے روزے کا جو حکم دیا گیا اس کے نتیجہ میں اگر ایک طرف بقیہ گیارہ مہینوں کے لیے اس میں تربیت کا نظم ہے تو دوسری طرف یہ مہینہ نیکیوں سے اپنا خزانہ بھر لینے کا ہے، جب مالک کون و مکاں نے اپنی رحمتوں کا خزانہ کھول دیا تو آپ بھی بھر بھر کے لینے سے نہ چوکیے، فرائض وواجبات کی پابندی کیجئے، نوافل کا اہتمام کیجئے، تلاوت کیجئے، ہر وقت اللہ اللہ، سبحان اللہ، الحمدللہ کی مالا جپنے، زکوۃ کو بوجھ نہ سمجھیے بلکہ خدا کی رحمت سمجھیے، کل مال کا حساب کیجئے، مستحقین تک اسے پہنچائیے اور اس طرح پہنچائیے دل رب کے شکر کے جذبات سے امڈ آئے، خدایاتیرا شکر ہے کہ تو نے اس لائق بنایا کہ آج ہمارے مال میں تیرے دوسرے بندوں کا حق بھی نکل رہا ہے، وفی أموالھم حق معلوم للسائل والمحروم(معارج:۲۴-۲۵) (ترجمہ: اور جن کے مال میں ایک طے شدہ حق سائل ونادار کا ہے)۔ صدقات کا اہتمام کیجئے، اللہ کے بندوں کو خوش کیجئے، ضرورت کے ماروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی ضرورتیں پوری کیجئے اور اپنے رحیم آقا سے مغفرت کا پروانہ حاصل کیجئے، یہ سب اگر آپ اخلاص کے ساتھ کر لے گئے تو یقین مانیے کہ دل کی دنیا بدل جائیگی، اوراصل سودا تو یہی ہے کہ دل بدل جائے، رمضان کے روزوں، تراویح و اعتکاف یا دیگر عبادات کے کتنے اثرات آپ پر مرتب ہو رہے ہیں، آپ کی وجہ سے معاشرہ پر کیا اثر پڑ رہا ہے اسی سے اپنی عبادتوں میں اپنے اخلاص اور قبولیت کا اندازہ کر لینا چاہیے۔
یہاں ایک بات خاص طور پر عرض کرنا ہے، حضور ﷺ معصوم تھے، گناہوں سے مبرا تھے، لیکن عبادات کا بہت اہتمام کرتے تھے، نمازیں ایسی طویل پڑھتے کہ پاؤں پر ورم آجاتا، اماں عائشہ صدیقہؓ عرض کرتیں آپ کیوں اس قدر مشقتیں برداشت کرتے ہیں آپ تو بخشے بخشائے ہیں، فرماتے کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ رمضان کا آپ بہت اہتمام فرماتے، شعبان میں ہی رمضان کے استقبال کی تیاری شروع کر دیتے۔ ذرا نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری اور اہتمام اور جذبۂ عبودیت پر غور کیجئے اور یہ طے کر لیجئے کہ اس بار رمضان کو تربیت ومجاہدہ نفس کے لیے گزارنا ہے، عبادتوں کا خوب اہتمام کرنا ہے اور رمضان کو ’’ماہ قرآن‘‘ کے طور پر اس طرح گزارنا ہے کہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ قرآن سب کے لیے ہے اور رمضان سے اس کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس وبینات من الھدی والفرقان(بقرہ:۱۸۵) (ترجمہ: رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن پاک اتارا گیا، جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت نامہ ہے، اور ہدایت اور حق وباطل اور صحیح وغلط میں تفریق کے واضح دلائل پر مشتمل ہے)۔ یاد رکھیے اگر اس حقیقت کو سمجھ کر آپ نے قرآن کو پڑھا اور لوگوں کے سامنے پیش کر دیا تو آپ کو بھی عزت وعظمت کی سند ملے گی اور فی الحقیقت عالمی حیثیت عطا کر دی جائے گی، اسی قرآن کو دے کر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمی حیثیت دی گئی، تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا(فرقان:۱) (ترجمہ: بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ پر ’’ فرقان‘‘ -حق وباطل میں تمیز کرنے والی کتاب- اتاری)۔
لوگوں کے سامنے اس کی وضاحت کیجئے کہ قرآن کو رمضان میں ہی لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا، اور اسے جس رات میں اتارا گیا اسے لیلۃ القدر کہا گیا، اس رات کی فضیلت میں پوری سورہ نازل کی گئی انا انزلناہ فی لیلۃ القدر (قدر:۱) (ترجمہ: ہم نے (قرآن عظیم) کو شب قدر میں اتارا ہے)۔ ’’ہم نے اس کو سال بہ سال کے تقدیری فیصلوں کی رات میں اتارا ہے‘‘، اور یہ رات رمضان میں ہے، روایات کے مجموعہ پر غور کیجئے تو غالب گمان یہ ہے کہ آخری عشرہ میں ہے اور اس میں بھی ۲۷ ویں شب میں ہونے کا زیادہ امکان ہے، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان اور قرآن کا رشتہ بہت مضبوط و مستحکم ہے۔
لوگوں کو بتائیے کہ رمضان محنت، جدو جہد، مجاہدہ نفس اور جہاد کا مہینہ ہے، اسی مہینہ میں حضورؐ نے گوشۂ عافیت سے نکل کر تپتے صحرا میں بدر کے مقام پر کفار سے دو دو ہاتھ کیے تھے، آپ عہد مکی کے ماحول میں ہیں تو عہد مکی کے حکم وجاھدھم بہ جھادا کبیرا (فرقان:۵۲) (ترجمہ: اور اس قرآن کے ذریعہ ان سے زبردست جہاد کریں) کا منظر پیش کیجئے، قرآن کو لے کر جہاد کیجئے، اس کے ذریعہ جد وجہد کیجئے، اس کو پڑھیے پڑھائیے اور اس قدر پڑھیے کہ یتلو علیھم (بقرہ: ۱۲۹) (ترجمہ: جو ان کو تیری کتاب کی آیتیں پڑھائے) کا سماں بندھ جائے، اس کو سمجھیے اور سمجھائیے اور اتنی کوشش کیجئے کہ ویزکیھم (بقرہ: ۱۲۹) (ترجمہ: اور ان کا تزکیہ فرمادے) کے مطالبے پر عمل ہوجائے، اس کی تعلیم کیجئے، اس کے حلقے لگائیے، اس کی محفلیں سجائیے اور اس کے نور سے دلوں کو منور، دماغوں کو روشن کرنے کی تحریک چلائیے اور اس حد تک گزر جائیے کہ ویعلھم الکتاب والحکمۃ (بقرہ: ۱۲۹) (ترجمہ: اور جو ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے) کا منظر گھر گھر، گلی گلی، محلے محلے نظر آئے، اگر قرآن تذکیر کے لیے آیا ہے وذکر بالقرآن من یخاف وعید(ق: ۴۵) (ترجمہ: تو آپ قرآن سے ان لوگوں کو نصیحت کیجیے جو اللہ سے ڈرتے ہیں) تو اس رمضان میں تذکیر بالقرآن اور تبلیغ قرآن کا حق ادا کرنے میں لگ جایئے۔یا ایھا الرسول بلغ ما انزل إلیک من ربک وإن لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس إن اللہ لا یھدی القوم الکافرین (مائدہ: ۶۷) (ترجمہ: اے پیغمبر! آپ کی طرف پروردگار کے پاس سے جو نازل کیا گیا ہے، اسے (لوگوں تک) پہونچا دیجئے، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا، اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت فرمائے گا، اللہ کافروں اور منکروں کو توفیق ہدایت نہیں دیتا)۔
اگر رمضان کا قرآن سے رشتہ ہے، تو اس رشتہ کو نبھائیے ،اگر رمضان تربیت کا لاثانی و بے مثال نظام ہے تو اس میں نازل کی گئی کتاب کے بے نظیر انقلابی پیغام کو سمجھیے اور لوگوں تک پہنچائیے، قرآن سے روح کو تازہ کیجئے، وہ نسخۂ شفا ہے تو اس سے دل کا علاج کیجئے، اس کی تلاوت و تعلیم و تبلیغ کو مہم بنالیجئے اور قرآن کی تحریک چھیڑ دیجئے نام و نمود اور افطار کی سیاسی دعوتوں سے بچیے، قرآن کی مجلس اور قرآن کی دعوت کا اہتمام کیجئے، قرآن کا پیغام انسانیت، پیغام محبت ورحمت اور پیغام امن وسلامتی عام کیجئے، اس کے معاشرتی، عائلی اجتماعی انفرادی قوانین و اعمال ہر ہر شخص تک پہنچائیے، اس کے بیان نعمت ورحمت سے لوگوں کو شوق دلائیے، وعید وعذاب کے تذکروں کو چھیڑیے اور خوف دلائیے، خوف ورجا کے قرآنی نسخے استعمال کیجئے، یاد رکھیے!!!
قرآن تازہ تھا، تازہ ہے، اور تازہ رہے گا، اسی کے ذریعہ اللہ قوموں کو عروج بخشتا ہے اور اسی کو چھوڑ دینے پر ذلیل وخوار اور نیست و نابود کر دیتا ہے، قرآن کا حرف حرف اور لفظ لفظ زندہ معجزہ ہے،اس کی نغمگی، اس کی تلاوت، اس کے معانی، اس کی شریعت، اس کے احکامات سب معجزہ ہیں، قرآن دنیائے انسانیت کا سب سے بڑا اور زندہ معجزہ ہے، انبیاء کو جو معجزات دیے گئے وہ ان ہی کے ساتھ رخصت ہو گئے، مگر ہمارے نبی کو بشکل قرآن جو معجزہ دیا گیا وہ ایک زندہ جاوید معجزہ ہے، بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی طاقت و قوت اور یقین کے ساتھ اسکو پیش کیا جائے جیسے نبیؐ اور آپ کے شاگرد پیش کیا کرتے تھے، جس کو سن کر لوگوں کے دل مسخر اور دماغ مسحور ہوجاتے تھے، وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پاتے تھے، جس قدر وہ سنتے جاتے تھے آہیں بھرتے جاتے تھے اور ایسی آہیں کہ دریا خشک کر جائیں، آج بھی دنیا قرآن کی اس معجزاتی کیفیت سے واقف ہے، آپ طے کر لیجئے کہ اس رمضان میں ہماری سحر، افطار، دن رات سب کی ابتدا تلاوت قرآن سے اور اختتام تلاوت قرآن پر، بغیر کسی لاؤڈ اسپیکر کے ہر دکان، ہر بازار، ہر مسجد اور ہر گھر میں تلاوت و تذکیر بالقرآن کا اس قدر اہتمام کیجیے کہ کوئی سماعت سننے سے محروم نہ رہ جائے، ختم قرآن کی تقریب میں کوئی خرافات نہ کیجیے، مگر تڑپ وخلوص اور دلسوزی کے ساتھ تلاوت کرنے والوں سے درخواست کیجئے اور انھیں بلائیے، حکمت ومصلحت کے ساتھ برادران وطن کو ضرور قرآن کی مجلسوں بالخصوص ختم قرآن کی تقریب میں شریک کیجیے، اور اگر وہ شریک ہوں تو پر سوز تلاوت کے بعد نپے تلے قرآنی و نبوی انداز میں توحید ورسالت و آخرت اور اسلام کے پیام اخوت ومساوات اور امن وسلامتی پر گفتگو کیجیے۔
آج دنیا بہت سے دن DaysہفتےWeeksاور مہینے Months مناتی Celebrat ہے، ذرا اس بار آپ رمضان وقرآن کے اس حقیقی تعلق کو نبھائیے اور اس رمضان کو ’’ماہ قرآن‘‘ کے طور پر منانے کا عزم کیجئے، بھر دیجئے فضاؤں کو اپنی تلاوت سے، پورے کردیجئے تذکیر بالقرآن کے تقاضے اور پہنچادیجئے سب تک قرآن کی دعوت، کم از کم اپنے آس پاس کے انسانوں پر قرآن کی حجت قائم کر دیجیے، امید ہے کہ ہماری قسمت بدل جائے اور دکھی دنیا کا مقدر سنور جائے، اور اس قرآنی مہم کے ذریعہ ملت کی کشتی پار لگ جائے، رہا اپنا بدلہ، اپنا صلہ تو وہ کہیں جائے گا ہی نہیں، کیوں کہ وہ رب کریم کے پاس محفوظ رہے گا۔