Site icon

لوچا گاؤں کا تبلیغی اجتماع،تاریخی منظر دلکش نظارہ

✍️ظفرامام قاسمی

_______________

. 3/مارچ 2024؁ء بروز اتوار دن کے دس بجے کی وہ ایک سہانی اور انفعالی گھڑی تھی جب اشکہائے ندامت میں ڈوبی آمین،آمین کی سسکیوں کے ساتھ لوچا نامی گاؤں (بہادرگنج، کشن گنج) کا تاریخ ساز تبلیغی اجتماع اختتام پذیر ہوا،خیر سے میرے قافلۂ حیات نے تو ابھی صرف تیس منزلوں کو ہی قطع کیا ہے مگر وہ لوگ جن کے موسمِ زیست نے ستر اسی بار بہاروں کے جھونکوں کا نظارہ کیا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ: ہماری آنکھوں نے اس علاقے میں کئی بار تبلیغی اجتماعات دیکھے،کچھ اجتماعات تو وہ بھی تھے جو عالمی پیمانے پر وجود پذیر ہوئے تھے تاہم عقیدت کیشوں کی ایسی بھیڑ  اور مشارکین کا ایسا ازدحام ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا“۔
      ان کی یہ بات تھی بھی مبنی برحق کہ اجتماع کے آخری دن ہم نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تاحدِ نگاہ انسانی ڈھانچوں کے جال بچھے ہوئے تھے،جدھر دیکھئے انسانوں کی بھیڑ،جس طرف بھی زحمتِ نظارہ کیجیے آدمیوں کا انبوہ اور جس جگہ بھی کھڑے ہونے کی ہمت جٹائیے پہلے ہی سے وہاں ٹڈی دلوں کی مانند انسانی قافلوں کا پڑاؤ موجود،پنڈال کا تو پوچھنا ہی کیا پنڈال سے باہربھی تاحد نگاہ خیمۂ فلک کے نیچے لاکھوں لوگ پیالوں کے فرش پر فروکش تھے،دعا کے بعد جب شمع کو الوداع کہتی ہوئی پروانوں کی یہ جماعت اپنے گھروں کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی تو ٹریفک والوں کے لئے نظام کو قابو میں لانا محال ہوگیا،کئی کیلو میٹر تک شمع اسلام کے یہ پروانے قطار بند ہوکر کھڑے ہوگئے،اور گھنٹوں کھڑے رہے،تعجب کی بات تو یہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کی اس بھیڑ میں نہ کوئی مکھی نظر آئی نہ مچھر نے کسی کو پریشان کیا نہ آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی اور نہ ہی شور و غوغا کا وہاں کوئی نام تھا،وقار و سکینت کا ایسا ماحول بہت کم نظر آتا ہے۔
    اس کا شاہد صرف میرا قلم ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کی زبانیں بھی ہیں جن کا تبلیغ سے یارانہ نہیں،جو دوسرے مسلک کے ماننے والے ہیں،1/ مارچ جمعہ کا دن تھا میں عصر کی نماز کے لئے وضو کرنے کے لئے وضو خانہ کی طرف جا رہا تھا کہ ایک سوشل میڈیائی دوست سے سامنا ہوا،اس سے پہلے ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی،نگاہیں چار ہوئیں،میں ان کو دیکھنے لگا وہ مجھ پر نظریں دوڑانے لگے، کچھ دیر کے بعد ان کی جانب سے استفسار ہوا ” آپ ظفر امام صاحب تو نہیں؟“ میں نے ہاں کہتے ہوئے جواب دیا : اچھا آپ تو فلاں صاحب ہیں،انہوں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا،پھر علیک سلیک کے بعد انہوں نے اعتراف کیا: گوکہ میں اس مسلک کا نہیں ہوں،مگر اس ماحول کو دیکھ کر میری عقل حیران ہے،بلکہ ہر ذی شعور انسان کی عقل حیران ہوسکتی ہے، لگتا ہی نہیں کہ ہم انسانوں کی اتنی بڑی بھیڑ میں کھڑے ہیں،نہ شور ہے نہ ہنگامہ،ایسا لگتا ہے جیسے  نور و تجلی نے ہر سمت سے اس خطے کو گھیر رکھا ہے“ جماعت کا وقت قریب ہو رہا تھا،مجھے وضو کے لئے جانا تھا،سو میں نے دل سے اپنے پیارے رب کا شکر ادا کیا اور ان سے رخصتی کی اجازت لے کر آگے بڑھ گیا۔
   اجتماع گاہ کے لئے جس جگہ کا انتخاب ہوا تھا وہ جگہ بھی کیا خوب تھی،پختہ سڑک کا دامن،ترنم ریز ندی کا کنارہ، چمچماتی ریت کا بچھونا، سرکنڈوں کی حسین چادر اور دودھیا ٹیوب لائٹس کا نظارہ ہی حسن و زیبائی کے لئے کیا کم تھا کہ براقی لباس میں ملبوس لاکھوں انسانوں کی جبینوں نے اس بقعۂ ارضی سے کئی دنوں تک اس ناز سے بوسے لئے کہ پورا بقعہ نور و نکہت میں نہا گیا،ایسا لگ رہا تھا جیسے تواتر کے ساتھ اس خطے پر نور کی بارش ہو رہی ہو،رحمتوں کا نزول ہو رہا ہو اور ہر نکڑ پر سکینت جامِ طہور لئے کھڑی ہو۔
      ویسے اس اجتماع کی سرگوشیاں تو ہمارے پردۂ سماعت سے تقریبا پچھلے ایک سال سے ٹکرا رہی تھیں،مگر اس کو شہرہ تب حاصل ہوا جب اس کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا،پھر جب جھارکھنڈ کے اجتماع کے بعد اس اجتماع گاہ کے پہلے ستون کو نصب کیا گیا تو خدا مجھے جھوٹ نہ بولوائے کہ اس کی شروعاتی رونق اور چہل پہل کو دیکھ کر مجھ جیسا سیہ رو انسان اور سخت دل آدمی بھی پسیج گیا،حالانکہ اپنے کچھ ذاتی عوراض کی بناء پر میرے قدم کو اب تک راہِ تبلیغ میں زیادہ غبار آلود ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے، تاہم جب میں دسمبر کے اواخر میں پہلی بار اپنے گھر کی طرف سے آتے ہوئے اجتماع گاہ میں داخل ہوا تو یقین جانئے وہاں ڈیرا ڈالے ہوئے بےنفس انسانوں کی قربانیوں کو دیکھ کر میرے دل کی دنیا بدل گئی،ارتعاش کی ایک رو نے میرے وجود پر جھرجھری طاری کردی،میرے احساسات کا انگ انگ ان کی بےلوثی کو دیکھ کر تڑپ اٹھا،اللہ اللہ دسمبر کی دانت بجاتی سردی میں کھلے آسمان کے نیچے ان بےنفس اور فنافی اللہ بندوں کے سرہانے رکھے چِکٹ آمیز کپڑوں کےگٹھر،پیال کے غبار آلودبچھونے اور کمبل کے اوڑھنے دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے، اور دل یہ گواہی دے اٹھا تھا کہ خدا کی قسم جب تک اسلام کے ان بےغرض بندوں کا وجود اس دھرتی پر رہے گا تب تک اسلام کی شمع پر پُرزور آندھیوں کا جھونکا بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا،اور یہ صرف میرا تاثر نہیں بلکہ میرے ملنے والوں میں سے ہر ایک کا یہی تاثر رہا کہ وہاں پہونچنے کے بعد قدم خود بخود اس سرزمین سے چمٹ جاتے اور دل کی گہرائیوں سے ایک خواہش سر ابھارنے لگتی کہ اے کاش ہم یہاں کے ذروں میں سدا کے لئے سما جاتے۔
    تبلیغ کیا ہے؟ تبلیغ ہماری روح ہے، تبلیغ ہماری جان،تبلیغ ہمارے دین کی پاسبان ہے تبلیغ ہمارے مذہب کی نگہبان،تبلیغ ہماری ملت کی محافظ ہےتبلیغ مشکوٰۃِ نبی کی فیضان،تبلیغ مردہ دلوں کی اکسیر ہےتبلیغ بیتاب سینوں کے چین کی سامان،تبلیغ اسلام کی فصیلوں کا ایک ایسا روشن چراغ ہے جس کی ضیاء پاش کرنیں بزمِ کائنات کے ہر افق پر جلوہ ریز ہیں،تبلیغ ایک ایسا شجرِ طوبی ہے جس کی گھنیری اور دراز شاخیں پورے عالمِ اسلام میں پھیلی ہوئی ہیں،جن کے ظل ظلیل اور راحت بخش چھاؤں سے بیک وقت لاکھوں کروڑوں خلقِ خدا مستفید ہورہی ہیں،تبلیغ ایک ایسا خوشنما پھول ہے جس کی عطر فشاں مہک سے پورا چمنِ عالم معطر ہے،تبلیغ ایک ایسی چھاؤنی ہے جس کے سایہ تلے آکر جادۂ حق سے منحرف اور دینِ محمدی ﷺ کے گمشدہ مسافرین کے ہزاروں قافلوں کو اپنی سمتِ منزل کا پتہ چلتا ہے،تبلیغ ایک ایسی مقناطیس  ہے کہ آدمی اگر ایک بار بھی اس کے دامن سے وابستہ ہوجائے تو پھر تا زندگی اس کے لمس کو بھول نہیں سکتا،اسی تبلیغ کی بدولت نہ جانے کتنے جہالت کے ماروں کو تہذیب و تمدن سے شناسائی ہوئی،اور اسی تبلیغ کی برکت سے نہ جانے کتنے آرکسٹراؤں،کنجڑیوں،بادہ خوروں،طوائفوں اور بدنامِ زمانہ لوگوں کو خدا کے دربار کے دربان بننے کا اعزاز نصیب ہوا۔
    آج سے سو سال پہلے کا دور تھا جب سرزمینِ ہند پر دینِ محمدی چراغِ سحر کی طرح تھرتھرا رہا تھا،مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئے تھے،ان کا دینی شعور مکمل طور پر مرجھا گیا تھا،ان کا ایمانی مزاج اور اسلامی ضمیر جاں بلبی کے عالم میں پہونچ چکا تھا،اخلاقی انارکی سر چڑھ کر بول رہی تھی،اسلام کی اس زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے باطل اسے صفحۂ ہند سے نابود کرنے کے لئے پر تول رہے تھے،ایسے وقت میں اسی سرزمینِ ہند کے الیاسؔ نامی ایک دور اندیش اور جہاں دیدہ سپوت نے اسلام کے اس بجھتے چراغ کو اپنا خونِ جگر نچوڑ کر پھر سے اجالنے کا بار اٹھایا اور اس کے لئے نظام الدین نامی بستی میں تبلیغ کی نہاد رکھی،اور نگر نگر قریہ قریہ گھوم کر مسلمانوں کی مردہ حسوں کو بیدار کرکے ان کو اسلام سے قریب کرنا شروع کردیا،اول اول تو لوگ آپ سے کنی کتراتے رہے،مگر اخلاص کے اس پیکر اور عزم کے اس خوگر نے اپنے مشن سے پیچھے ہٹنا گوارہ نہ کیا،اور پھرچشم فلک نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پیمانے پر شروع کیا گیا آپ کا وہ مشن کس طرح افقِ عالم پر ستاروں کی طرح چھا گیا، آج پوری دنیا میں پوری شان کے ساتھ تبلیغ کا جو نظام چل رہا ہے وہ اسی نظام الدین نامی بستی کے اسی چھوٹے سے”مشن“ کا پرتو اور عکس ہے،اور ہم ہندوستانیوں کو اس پر بےپناہ فخر ہے۔
     تبلیغ کے اسی مشن کو عام لوگوں کے دلوں میں پیوست کرنے کے لئے بہت پہلے سے تبلیغی نظام میں اجتماعات کا انعقاد کرانا بھی شامل ہے،تبلیغی کاز کی نشر و اشاعت میں اجتماعات کو بڑا دخل ہے،  ان اجتماعات نے ہزاروں گم گشتہ انسانوں کو راہِ ہدایت پر لاکر کھڑا کیا ہے اورسینکڑوں سیہ رو انسانوں کو سرخرو بنایا ہے،اجتماعات کا انعقاد ہمارے اندر ایثار و قربانی، جانبازی و جاں سپاری کا جذبہ پیدا کرتا ہے، اجتماع ہمیں باہمی اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتا ہے اور وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ ایک انسان کو اپنی زندگی کس قالب میں ڈھال کر گزارنی چاہیے، ان کا شب و روز کیسا ہو،ان کی زندگی کا نظام الاوقات کس ڈھنگ کا ہو،راتوں کو ان کے کیا معمولات ہوں اور دن میں ان کی کیا خدمات ہوں یہ سب کچھ ایک عام آدمی کو انہی اجتماعات اور راہِ خدا میں سیکھنے کو ملتا ہے،اسی زریں سلسلے کی ایک کڑی ہمارے علاقے کے لوچا نامی گاؤں کا اجتماع بھی ہے،جو نہایت تزک و احتشام کے ساتھ 2 اور 3 مارچ کو اس کی ریتیلی پشت پر منعقد ہوا اور اس ریگزار کو ہمیشہ کے لئے تاریخی بنا گیا۔
    لوچا اجتماع کا انتظام نہایت ہی شاندار اور قابل تعریف تھا،امتیازی مہمانوں کے لئے خصوصی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا،مشائخ کے لئے علیحدہ انتظام تھا،جبکہ کھانے اور پکانے کے لئے ہر حلقہ کے لئے الگ الگ چھپڑیاں بنائی گئی تھیں،جماعت میں آئے لوگوں کے بیٹھنے کے لئے ایک وسیع پنڈال سجایا گیا تھا، خطاب کے لئے مدعو علماء کرام کے لئے سرکنڈوں کی ایک خوبصورت سی چھاؤنی تیار کی گئی تھی،بجلی اور پانی کا معقول نظم تھا،سینکڑوں عارضی استنجاء خانے بنائے گئے تھے، ٹریفک کے نظام کو قابو میں رکھنے کے لئے سینکڑوں نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں،مزید بر آں پورے علاقے میں ثواب کے جویا لوگوں نے جگہ جگہ رہروانِ عشق و محبت کے لئے پانی اور بسکٹ کا معقول بند و بست کر رکھا تھا،ظاہر ہے ان سارے انتظامات کے پیچھے ایک منظم رضاکار جماعت کی کارفرمائیاں تھیں،ان میں کچھ ذمہ دار تو وہ بھی تھے جنہوں نے پاس میں گھر ہوتے ہوئے بھی مہینوں تک اپنے گھر کا رخ نہیں کیا،ان بے لوث بندوں کی انہی قربانیوں کا ثمرہ رہا کہ یہ اجتماع تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوگیا،اور تقریبا سو جماعت وہاں سے تیار ہوئی،میں نام بنام ہر ایک ذمہ دار کی دلی کیفیت کو تو رقم نہیں کر سکتا،تاہم دعا کے بعد جب میں اسٹیج کے راستے اپنے گھر کو واپس ہو رہا تھا تو میری نظر انہی ذمہ داروں میں سے ایک پر پڑی،ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں،زبان کچھ بولنے کی سکت میں نہیں تھی،وہ ایک تخت پر اپنے ہاتھوں کو پشت کی جانب ٹیکے ڈھے جانے کے انداز میں اس طرح بیٹھے تھے جیسے کوئی مسافر مہینوں کے سفر کی صعوبتوں کو جھیل کر منزل تک پہونچا ہو۔
     دعا ہے کہ اللہ پاک اس اجتماع کو قبول کرے،اہل علاقہ کے لئے اسے خیر کا ذریعہ بنائے اور اس کے جملہ منتظمین کو اپنے خزانۂ عامرہ سے بےپناہ بدلہ عنایت کرے۔ آمین

Exit mobile version