Site icon

مدارس کے طلبا اپنا وقت ضائع نہ کریں

✍️ غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحیؔ نظامی

__________________

ملک بھر میں تمام مدارس اسلامیہ سال بھر کی تعلیم   وتدریس کے بعد ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان کی آمد سے قبل اپنے طلبا کی تعطیل کر چکے ہیں اور تقریبا ًسبھی  طلبا اپنے گھروں کو جا چکے ہیں، یہ ایک لمبی تعطیل ہے جو ہر سال انھیں میسر آتی ہے جس میں وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
مثلاً  اپنے سال بھر کے اسباق پر نظر ثانی کر کے اس میں مزید   نکھار لا سکتے ہیں یا   کسی نئے موضوع کا انتخاب کر کے اس کا مطالعہ کر کے اس پر  دسترس  حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں،درجہ عالمیت  و فضیلت اور تخصص کے طلبا اپنے علاقے کی کسی مسجد  میں  تبلیغی  مہم چھیڑ سکتے ہیں وہ اس طرح کہ رمضان المبارک کے پاکیزہ  مہینے میں کسی بھی معتبر عالم دین کی لکھی ہوئی تفسیر کا مطالعہ کر کے درس قرآن دینے کی کوشش کریں یا احادیث کی تشریحات پر مشتمل معتمدکتب کا مطالعہ کر کے درس حدیث کا اہتمام کریں یا مختلف موضوعات پر ثقہ علماء کی لکھی گئی کتابوں سےچیدہ چیدہ مسائل  اخذ کر کے عوام کو  سکھانے کی کوشش کریں۔ اس سے ایک  فائدہ تو یہ ہوگا کہ عوام کے دلوں   میں  ان کی عزت بڑھے گی اور انہیں یہ احساس ہوگا کہ یہ بچہ واقعی دین کا سچا ہمدرد ہے اور یہ اللہ رسول کا پیغام پہنچانے میں انتہائی  مخلص ہےاور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ان کے علم میں ہر روز ایک نئے باب کا اضافہ ہوگاجو آگے چل کر ان کے لیے انتہائی مفید اور کارآمد ثابت ہوگااور تیسرا سب سے بڑا اور اہم فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ ان کو اس عمل سے اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوگی۔
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ بیشتر طلبا اس قیمتی موقع کو ضائع کر دیتے ہیں اور اپنا پورا وقت کھیل کود،لہو لعب  اور غیر ضروری افعال واعمال میں گزار دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تعطیل کب  ختم ہو جاتی ہے؟ انھیں اس کا احساس بھی نہیں ہوپاتا اور اتنا لمبا وقت بے کاری میں گذر جاتا ہے۔
ایسا مشاہدہ کیا  گیا ہے کہ بیشتر طلبا اپنا وقت موبائل  کی غیر ضروری مصروفیات میں  گزارتے ہیں ،اکثر طلبا تو وہ ہیں جو مدرسے میں رہ کر بھی تعلیم سے کوسوں  دور رہتے ہیں، وہ اساتذہ کی ایک نہیں سنتے، بے چارے اساتذہ انھیں نصیحتیں  کرتے کرتے تھک جاتے ہیں، اپنا خون جگر پلاپِلا کر ان کی اصلاح کی کوششیں  کرتے ہیں،رمضان جیسے پاکیزہ مہینے میں گلی گلی، کوچے کوچے دوڑ دوڑ کران کے قیام وطعام اور تعلیمی  ضروریات کے  انتظامات کرنے کے لیے کوشاں رہتےہیں، ان کے دلوں میں بس ایک ہی  امیدبسی  رہتی ہے کہ ہماری یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی کیوں کہ جب ان کے شاگرد  دینی تعلیم حاصل کر کے قرآن و حدیث کا پیغام اور اللہ اور اس کے  رسول کا مشن عام کریں گے تو ہماری ساری کلفت و مصیبت ایک لمحے میں خاک ہو جائے گی لیکن طلبا کی بے توجہی  اور بے رغبتی دیکھ کر بعض اوقات ان کے چہروں پر مایوسی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں،انھیں ایسا لگنے لگتا ہے کہ ان کی ساری تگ و دو کہیں  عبث تو نہیں  ہو رہی ہے؟۔
اس لیے اے عزیز طلبا!
ہم آپ سے بڑے ادب کے ساتھ عرض  کرنا چاہتے ہیں کہ     آپ  اپنے اساتذہ کی قدر کریں ،ان کا حکم مانیں ،ان کے سامنے سرتسلیم خم کریں ،ان کی نصیحتیں نہ یہ کہ صرف کان لگا کر سنیں بل کہ اس پر پوری طرح سے عمل بھی کریں  کیوں کہ آپ کے اساتذہ اس لیے محنتیں کرتے ہیں، تکلیفیں اٹھاتے ہیں ،کلفتیں برداشت کرتے ہیں تاکہ آپ ان کا نام روشن کریں  اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں۔اس مطلبی دنیا میں اساتذہ کی معزز جماعت  ہی ایک ایسی  جماعت ہے جو آپ سے سچی ہمدردی رکھتی ہے اور آپ کا بھلا چاہتی ہے،آپ کو بلندی اور ترقی پر دیکھنا چاہتی ہے ،اگر آپ نے ان کی قدر نہیں کی ،ان کی بات نہیں مانی تو پھر آپ عظیم خسارے کے لیے اپنے آپ کو تیار کیے رکھیں ، ان کی فرماں برداری اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کردینے  ہی میں  آپ کی دارین کی کامیابیوں کا انحصار ہے،اپنے اساتذہ کے سامنے کبھی بھی اونچی زبان میں بات  نہ کریں، یہ آپ کے روحانی مربِّی ہیں،آپ کا اساتذہ کے سامنے اکڑ کر چلنا یا رہنا آپ کے لیے دنیا و آخرت میں نقصان و خسران کا باعث ہے ،ان کے روبرو ہمہ  دم مودب ،مہذب اور جھک کر ر ہیں،کسی بھی حال میں ان سے بڑا بننے کی کوشش نہ کریں،ان سے  بڑابننے کی سوچ آپ کو اس قدر حقیراور ذلیل و خوار کر دے گی کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
آپ کے والدین نے آپ کو مدارس اسلامیہ میں اس لیے بھیجا ہے تاکہ آپ صالح اور نیک  عالم دین  بن کر  اُن کے لیے دنیا وآخرت میں نجات وکامیابی کا سبب  بن سکیں، اُن کو آپ سے یہ آس لگی  ہوئی ہے کہ جب میدان محشر میں انھیں عذاب کا حق دار ٹھہرا دیا جاچکا ہوگا تب آپ  اللہ جلّ شانہ  کی اجازت سے  ان کی شفاعت کرکے انھیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے۔ جنھوں نے اپنے بچوں کو حفظ قرآن کریم کے لیے  وقف کیا ہے ان کی یہ خواہش ہے کہ ان کے بچے  باعمل حافظِ قرآن بن کر دکھائیں گے  اور حدیث پاک کی وضاحت کے مطابق انھیں   قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا،جس کی روشنی کے آگے سیکڑوں سورج کی روشنی  ماند اور پھیکی ہوجائے گی۔
یقینا ًاس پرفتن دور میں اگر آپ کے والدین   نے آپ کو مدارس اسلامیہ میں بھیجا ہے تو بلا شبہ ان کی خواہش یہی ہوگی  کہ آپ ان کے لیے سرمایۂ آخرت بنیں ۔پس ان کی خواہش کی تکمیل کے لیے یہ امر ضروری اور لازم ہے کہ آپ اپنے تمام تر اوقات حصول تعلیم میں گزاریں اور ایک لمحہ بھی  بے کار ضائع  کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔
آپ ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ آپ جو علم حاصل کررہے ہیں یہ کوئی معمولی علم نہیں ہے  بلکہ یہ  نبوی ورثہ ہے،  یہ  روحانی علم ہے اور روحانیت کے حصول کے لیے آپ کا ظاہر وباطن ہرقسم کی گندگیوں اور غلاظتوں سے پاک صاف ہوناضروری ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور اللہ تعالیٰ کا نور گناہ گار کونہیں ملتا،جس علم کے حصول کے دوران گناہوں سے پرہیز کی کوشش نہیں کی جاتی،وہ علم کبھی پائیدار نہیں ہوتا،اگر حاصل ہوبھی جائے تو کارآمد نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات ایسا علم گمراہی کا بھی باعث بن جاتا ہے،اگر آپ یہ علم نبوی محنت اور اخلاص کے ساتھ حاصل کریں گے تو اس کی برکت سے آپ کے لیے دنیاوی اور عصری علوم کا حاصل کرنا بھی آسان سے آسان تر ہو جائے گا۔
میرے عزیز طلبا!  آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کس قدرفرقہ پرست طاقتیں اور اُن سے متاثر سیاسی  علمبرداران نیز کچھ  جدید تعلیم یافتہ شدت پسند افراد مدارس اسلامیہ اور اس کے منہج تعلیم و تربیت  کی کس درجہ  مخالفت پر تُلے ہوئے ہیں،انھیں مدارس کی تعلیم ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی، اُن کا بس چلے تو پل بھر میں اس نظام تعلیم کو خاکستر کر دیں اور وہ اس کی پوری توانائی کے ساتھ کوششیں بھی کر رہے ہیں، آنے والے وقت میں مدارس کی کیا حالت اور دُرگت ہوگی؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔
ایسے میں آپ طالبان علوم نبویہ کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ آپ اپنے کردار و عمل کے ذریعہ مخالفین مدارس اسلامیہ کو منہ توڑ جواب دیں اور اِس محنت و لگن اور اخلاص و ایثار کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دیں کہ معترضین کا ناطقہ بند ہو جائے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ہمارا خیال غلط تھا، ہماری فکر اور سوچ نامناسب تھی۔

Exit mobile version