Site icon

مسلمانوں کا تعلیمی مسئلہ

وصی رازی

✍️ وصی میاں خان رازی

______________

دہلی کے پرائیوٹ سکولوں میں داخلہ کے لئے اپلائی کرنے والے 3 فیصد مسلم بچوں کو ہی نرسری لیول پر ایڈمشن ملا ہے بقیہ کو علاقہ، سکول سے دوری، ماں باپ کے تعلیمی معیار، گھر کے کسی ممبر کی سکول میں سابقہ تعلیمی وابستگی نہ ہونے اور سکول سٹاف میں سے نہ ہونے کے اسباب کی بنا پر رد کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی سمجھ کے مطابق حاشیہ پر ڈالنے کا یہ تدریجی عمل اپنی انتہا کو پہونچ رہا ہے۔
آزادی سے پہلے کے دور میں بھی اس بات کی بھرپور کوشش شروع ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کو "سیکولر ماڈرن” تعلیم کی طرف لایا جایے، کیونکہ اس وقت مسلمانوں کا ذہن اچھا خاصا مذہبی تھا،اور وہ تعلیم کو اپنی فکر، تہذیب، دین کے تحفظ اور اچھا بااخلاق انسان بن کر دارین میں کامیابی کے لئے حاصل کرتے تھے، پیٹ کی خاطر تعلیم ان کے نزدیک معیوب بات تھی، ان کی غیرت اسلامی، فطری حمیت اور علماء دین کی ملی قیادت ان کو شکم پروری کے معبود کے سامنے اپنے اخلاقی علمی اور دینی جوہر کے روبرو سجدہ ریز ہونے سے روکتی تھی۔
لہذا اس دور میں سارا فوکس اس بات پر تھا کہ مسلمانوں کو کسی طرح "معاش” کے مسئلے میں الجھا کر ان کی تعلیم کو اس سے وابستہ کر دیا جائے، اور دو روٹی کا واحد راستہ اسی تعلیم کو قرار دیکر بقیہ راستوں کو مسدود کر دیا جائے۔
اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ہر دور میں تعلیم و تربیت کے تدریجی نفاذ کے ذریعے اسی طرح تبدیلی وتغیر ہوتا رہا ہے، انگریز نے بھی اپنے دور اقتدار میں شروع شروع میں تو عربی فارسی کو قائم رکھا تھا، شرعی عدالتوں، قاضی اور مفتی سے ہی ابتداء کام چلایا، لیکن 1857 تک رفتہ رفتہ نئی تعلیمی پالیسی نافذ کرکے دھیرے دھیرے شرعی قانون، عربی فارسی اور تمام ہی اسلامی نشانات کو ختم کرکے انگریزی تعلیم اور یورپین نظام کو ملکی معاملات کا ذریعہ قرار دیا، سرکاری ملازمتوں اور دیگر عزت دار مناصب کے لئے مغربی تعلیم وزبان ہی واحد راستہ بچ گئی۔
تعلیم کو اپنا مشغلہ بنانے کے خواہاں متوسط طبقہ کے لئے اسی میں روٹی اور معاش کا بندوبست رہ گیا، دوسرے نظام ہائے تعلیم کے چشموں کی سپلائی کٹ کر دی گئی، اب "مین سٹریم” کے سوا ہر تعلیمی سلسلہ کو اپنانا گویا خود کو مادی فوائد سے محروم کرکے معاشی مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ہو گیا۔ لہذا ہمارے بڑوں نے  مدارس کا سلسلہ عوامی چندے پر قائم کیا، جس میں طلبہ واساتذہ کے پیش نظر "قوت لا یموت” کے بقدر گزارے سے زیادہ اس تعلیم سے کوئی دیگر معاشی فوائد نہیں ہوتے تھے، جو ان مدارس میں جاتا وہ پہلے ہی سے یہ سوچ کر جاتا کہ اب اس کے لئے مادی ترقیات کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ لہذا کوئی شکوہ شکایت بھی زبان پر نہ ہوتا تھا، مقصد اپنی دینی تہذیب، تشخص، روایات، اور اقدار کا تحفظ اور اس کو اگلی نسلوں تک پہونچاکر خدا کے سامنے سرخ روئی حاصل کرنا ہوتا تھا۔ عوام کے اندر بھی صدیوں کی سلطنت وحکومت کی زوال کے سبب ایک احساس زیاں اور نئے حکام کے تئیں ایک غیض وغضب کا جذبہ تھا لہذا انہوں نے بھی اس تحفظ کو ضروری خیال کرکے بھرپور تعاون کیا، کیونکہ ان کو اپنی فکری قیادت علماء و صوفیاء کے علاوہ کسی اور کو سونپنے کی عادت نہیں تھی۔
مسلمان خود اسی تدریجی تہذیبی غلبہ کو اس سے پہلے خود قائم کر چکے تھے، افغان، ترک، مغل اور سید جو اپنے ساتھ عربی، فارسی، ترکی وغیرہ زبانیں لیکر آئے تھے انہوں نے قلیل التعداد ہونے کے باوجود امور سلطنت اور ملک کا نظام اپنی ہی زبانوں میں چلایا، اور ہندوستانی عوام سے براہ راست ایک عرصے تک زیادہ مطلب نہیں رکھا، اس مدت میں عربی فارسی وغیرہ زبانیں علم وفضل اور "ایلیٹ سوسائٹی” کی زبانیں تھیں جن کی عظمت وشوکت کے سامنے اہل ہند اگرچہ سر نگوں تھے لیکن ان تک ان کی نشر واشاعت نہیں تھی۔
پھر سکندر تغلق نے اپنے زمانے میں کوشش کی کہ ملکی انتظام میں کچھ ہندوستانیوں کو شریک کیا جائے ،اس غرض سے ان کو فارسی سکھانی چاہی،لیکن برہمن اور راجپوت قوموں میں اپنی تہذیب، زبان اور پہچان کے تحفظ کا قوی جذبہ آڑے آگیا، جو کہ کسی بھی مذہب کی تعلیم یافتہ اور سربرآواردہ  قوم میں ہی ہوسکتا ہے کیونکہ وہی اجنبی تہذیب وکلچر کے اپنے اوپر پڑنے والے اثرات اور اس کے اچھے برے نتائج کو لیکر حساس ہوتے ہیں، بقیہ عام طبقہ صرف پیٹ اور روٹی کو دیکھتا ہے یا پھر انہیں کی آواز پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہے۔
اس لئے برہمن اور راجپوتوں نے فارسی سیکھنے سے انکار کر دیا، نتیجتا کم درجے کے "کائستھ ” طبقہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور فارسی سیکھ کر ملکی انتظام اور سرکاری مناصب میں دخیل ہو گیا۔ ایک عرصے تک یہی طبقہ غیر مسلم ہندوستانیوں اور حاکم  مسلمانوں کے بیچ واسطے کا کام کرتا رہا۔ یہاں تک کہ بادشاہ اکبر نے دوسرے طبقات کے لئے بھی دروازے کھولے اور حکومت وعوام میں  ربط بڑھانے کے لئے بہت سی ہندوانہ رسم ورواج پر عمل بھی کیا، راجپوت گھرانوں کی عورتوں کی محل میں رسائی ہوئی، اس طرح پوری ہندوستانی قوم حاکم قوم کی تہذیب، زبان اور کلچر سے قریب ہو گئی۔
یہ موضوع الگ سے بحث طلب ہے کہ اس میل جول سے اسلامی تہذیب وکلچر کو خالص دینی لحاظ سے کیا نقصانات پہونچے لیکن اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ برہمن اور دیگر بڑی ہندو برادریاں فارسی زبان اور حاکم طبقہ سے خوب آشنا ہوئے، جس کے تئیں ان میں ایک عرصے تک سرد مہری رہی تھی۔
اب جب انگریزوں کے دور میں مسلمان، حکومت چھن جانے سے انگریز کے کلچر اور زبان سے دور رہے، تو ہندؤں نے اپنے سابقہ تجربے سے فائدہ اٹھاکر انگریزی تہذیب وکلچر اورزبان وتعلیم کی طرف سبقت کی، اور تمام اہم مناصب ومعاملات میں دخیل ہوکر برٹش گورنمنٹ اور عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن گئے۔۔ لہذا جب 1885 میں "ہیوم” کی تحریک پر "لارڈ کرزن” نے "انڈین نیشنل کانگریس” کی بنیاد ایسی اپوزیشن پارٹی کے طور پر ڈالی جو برطانیہ کی اپوزیشن کی طرح ہندوستان کے بہترین سیاسی دماغوں کو جمع کرکے انگریز حکومت پر تعمیری تنقید کرے اور بہتر طریقے پر حکومت چلانے میں معین ہو، تو اس کانگریس کی قیادت اور لیڈر شپ کے لیے اس کو مسلمانوں میں سے ایسے مناسب، اہل افراد نہیں ملے، (اور نہ مل سکتے تھے) جو کانگریس کی قیادت کرتے ہوئے انگریزوں اور عوام کے درمیان رابطے کا کام بھی انجام دیں، کیونکہ جیسا کہ اوپر آیا سربرآواردہ عزت دار مسلمانوں نے انگریزی تعلیم وتہذیب سے خود کو دور ہی رکھا تھا، کچھ دو چار لوگ اگر انگریزی تعلیم کی طرف گئے بھی تو ان کا اول تو اپنی قوم میں خاص وزن نہیں تھا، دوسرے ان کے طرز عمل نے بقیہ مسلمانوں کا اس تعلیم وتہذیب سے دوری پر یقین پختہ کر دیا، علی گڑھ میں نیچیریت وغیرہ کا شیوع اس کی بہترین مثال ہے۔
جبکہ دوسری طرف غیر مسلم جن کو انگریزی تعلیم ونظام کے اپنانے کے نتیجہ میں کانگریس کی قیادت ملی ان کی یورپیئن طرز پر سیاسی وتہذیبی تربیت انگریزوں نے شروع کر دی، گاندھی،نہرو کے زمانے میں کانگریس کی اگلی لیڈر شپ تک یہ تربیت اتنی پختہ ہو چکی تھی کہ مسلمانوں کے لیے ملکی آزادی کی تحریک میں اس کی اتباع کے سوا چارہ نہیں تھا، ایک تو انگریز اور اس کی زبان وتعلیم سے دوری کے سبب ان کا سیاسی شعور،دور جدید سے ہم آہنگ نہیں ہوا تھا، دوسرے ان کی بچی کچی روایتی تحریکیں،( ریشمی رومال، خلافت تحریک) اور حکومتیں فنا ہو چکی تھیں یا ایک ایک کرکے ہو رہی تھیں، اس لئے ولایت سے پڑھ کر آئے گاندھی، نہرو کی سیاسی قیادت میں ہی ان کو چلنا تھا، ان کو اگر بعد میں کانگریسی ومہاسبھائی گٹھ بندھن ،اور اپنے تئیں تعصب کے نتیجے میں اپنی احتجاجی لیڈر شپ اگر ملی بھی تو وہ بھی ولایتی بابو جناح کی صورت میں جو خود اسی مبغوض تعلیم وزبان کی تربیت یافتہ تھے۔
غیر مسلموں کی یہ لیڈرشپ تاریخ سے اچھی طرح واقف تھی، اس نے مسلمانوں کی زبان، تعلیم وتہذیب کے نشوونما اور اسباب بنظر غائر مطالعہ کیا تھا، اس کے بعد انگریزی اقتدار کے اپنی تہذیب وکلچر کو پھیلانے کے طریقے دیکھے تھے، چنانچہ دونوں کی شاگردی نے انہیں خوب "پکا” دیا تھا، اب کمان ان کے ہاتھ میں تھی، چنانچہ انہوں نے بھی وہی طریقے استعمال کئے، تعلیم و تربیت میں اپنی فکر، تہذیب کو دھیرے دھیرے گھسایا، اور اس تعلیم کو معاش سے وابستہ کرکے اس کے مقاصد کو بازار اور روٹی سے جوڑ دیا، انہیں معلوم تھا کہ مسلمان شروع میں اس طرح نہیں آئے گا،  اس لئے اسے "سیکولر تعلیم” کہا گیا، جس میں کسی مذہب کی آمیزش نہیں ہوگی، جو صرف ملک کے انتظام کو چلانے والی مشین کے کل پرزوں کو تیار کرے گی، اور ہر شخص کے ہاتھ کو کام میں لگاکر اسے روزگار کےلائق بنائے گی، جو تعلیم اس مقصد ( مادی فوائد بشکل روزگار) کو پورا نہ کرے اس کی نہ ضرورت ہے نہ اس کے تحفظ کی کوشش کی جائے گی۔
لیکن اس تعلیم کے اندر "غیر مذہبی” کا لیبل لگانے کے باوجود کیا کچھ گھسایا گیس تھا یہ "وردھا سکیم” اور "ودیا مندر سکیم” کو دیکھ کر بآسانی معلوم ہو سکتا ہے۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع تو نہیں لیکن سر دست اتنا اشارہ کافی ہے کہ اس میں سکولوں کے اندر  "وندے ماترم” کہنا، اہنسا ( عدم تشدد) کی تعلیم کو بنیادی قرار دینا اور دیگر ایسی چیزیں داخل تھیں جو اکثریت کے مذہب کا جز تھیں۔
علماء کا بچا کچا طبقہ (ہر قوم کا وہی حساس  قائد طبقہ جو غیروں کے اصل عزائم میں خطرے کی بو سونگھ لیتا ہے اور اپنی تہذیب کے تئیں بڑا ہی غیور ہوتا ہے) ان چالوں سے واقف تھا اس لئے اس نے سکول کی سیکولر تعلیم کی طرف قطعا التفات نہ کیا، بلکہ اپنا سارا فوکس عوام کو زیادہ سے زیادہ مذہبی تعلیم کی طرف موڑنے پر لگایا۔ لیکن اب پانسے پلٹ چکے تھے، علماء کی قیادت کو کھاد پانی دینے والا باحیثیت عوامی طبقہ جس کے اندر سے ہی اس سے پہلے علماء نکل کر قیادت کرتے تھے اب تقسیم کے نتیجے میں الگ ملک میں جا چکا تھا، اب یہاں پر مٹھی بھر علماء ہی اس طبقے کے رہ گئے تھے، بقیہ عوام سکندر تغلق کے زمانے کے  "کائستھ” کی طرح بچے تھے، جن کو قوم کی تہذیب، کلچر اور اس کے محافظ تعلیمی نظام، زبان وثقافت کے مقابلے شکم پروری، اونچے مناصب، حکومت کا قرب، سماج میں وہ عزت و سربلندی جو اب تک ان کو باحثیت طبقہ کے سامنے نہیں ملی تھی، یہ سب زیادہ عزیز تھی اس لیے اس نے اپنا تمام تر رخ اسی "دنیاوی” تعلیم کی طرف موز لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں اور عصری تعلیم والوں کے تناسب میں نمایاں فرق ہو گیا، آج ایک اندازے کے مطابق  تعلیم کے لیے نکلنے والے مسلم بچوں میں 96 فیصد عصری تعلیم اور 3-4 فیصد مدرسے کی تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔
مسلمانوں میں نئے نئے ابھرتے بااثر طبقے نے جب ساری توجہ ماڈرن ایجوکیشن کی طرف کی تو دینی تعلیم کے لئے اس طبقہ سے نیا خون، حوصلہ مند دماغ اور جوہری شخصیات ملنی بند ہوگئیں، الا ماشاء اللہ۔
اب دینی قیادت تیسرے درجے کے طبقہ میں چلی گئی، جس کے اندر برسوں کی محرومی،شکست خوردگی، اور حاشیہ پر رہنے کے سبب دور جدید کے تیز طرار، سبک رفتار شاطرانہ عیارانہ چیلنجرز کا سامنا کرنے کی نہ سکت تھی، نہ دور اندیشی، نہ ہی عزیمت وہمت، اس پر روز افزوں مسلمانوں کے ماڈرن ایجوکیشن کی طرف بڑھتے رجحانات، دینی طبقہ پر اس کے رفتار زمانہ سے پیچھے رہ جانے کے سبب تیز ہوتی تنقید، اور خود عملی دنیا میں عصری تعلیم کے بغیر چھوٹے چھوٹے سفر جیسے معاملات تک میں ہوتی پریشانیوں نے اس طبقہ کو آخرکار سیکولر عصری تعلیم کے آگے اس وقت سپر ڈالنے پر مجبور کیا جب اس میں معاملہ "عصریت اور نام نہاد سیکولریت” سے کافی آگے جاچکا تھا، اور اب اس کی مکمل "آورہالنگ” ہوکر اس میں "برہمنیت” "الحاد” اور "شرک” کا عنصر غالب آچکا تھا۔
لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں سے علماء ودین دار طبقہ کی طرف سے "تعلیم ہمارے مسائل کا حل ہے” اور ہم "تعلیم مین پیچھے رہ جانے کے سبب پچھڑ گئے ہیں” اور "اسلام تو تعلیم کے امر "اقرأ” سے شروع ہوتا ہے” وغیرہ وغیرہ سننے دیکھنے کو ملتا ہے۔
بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔۔
اب جب جاگے ہیں تو سویرے کے بعد اندھیرے کی چادریں دوبارہ تن چکی ہیں، کیونکہ 96 فیصد طبقہ کو روٹی اور پیٹ کا لالچ دیکر جہاں لایا گیا تھا، اس تک بس بقیہ 4 فیصد کے آنے کا انتظار تھا، اب وہ بھی پورا ہوتا نظر آنے لگا ہے تو اب یہ وہمی لقمہ بھی چھیننے کی تیاری ہے، پہلے تو مسلمانوں کو "زیادہ مذہبی” ہونے کے سبب "سائنسی مزاج” سے دور ہونے کا طعنہ دیکر ان کی معاشی بدحالی سے پلہ جھاڑ لیا جاتا تھا، حالانکہ 90 فیصد سے زائد طبقہ اسی "سائنسی علمی مزاج” کے لئے کوشاں تھا، اور اس کو متحرک رکھنے کے لئے ایک آدھ "اے پی جے عبد الکلام” وغیرہ کو یا ایک آدھ سول سروس کریک کرنے والے کو رول ماڈل کے طور پر پیش کر دیا جاتا تھا، تاکہ پوری قوم کے لئے ایک معیار اور سٹینڈرڈ مقرر ہو جائے، اس لئے ہمارے لوگوں کی خشک آنکھوں میں بھی سنہرے خواب تیرنے لگے کہ اس طریقہ پر ہم "سسٹم کے اندر گھس کر” اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔
جوش مزید بڑھا تو اس طرح کے امتحانات کی تیاری کے لئے مخصوص سینٹرز کھولے گئے، مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے نہایت کم چند افراد کی "کامیابی” کو اپنوں اور غیروں نے اس طرح پیش کیا کہ یکبارگی لگا کہ "قلعہ فتح ہو سکتا ہے” لیکن ہائے۔
اس سادگی پے کون نہ مر جائے اے خدا۔
ہم نے پھر وہی بھول کی جو اس سے پہلے کر چکے تھے، یہ نہیں سوچا کہ کسی منظم محکم آئیڈیالوجی اور فکری اساس پر چلنے والے نظام کے اندر گھس کر اس پر غلبہ وتمکن پانے کی صورت صرف یہی ہو سکتی ہے کہ اس کی اساسی اقدار وآئیڈیولوجی ، اس کے مبادی، بنیادی عناصر اور ویلیوز کو دوسرے مبادی،اقدار اور افکار سے بدل دیا جائے، اور اس کی جو چند ممکنہ صورتیں ہیں وہ سب ہم میں مفقود ہیں۔
ایک صورت تو یہ ہے کہ تعداد میں آپ بڑھ جائیں، کہ آپ کے سر دوسرے لوگوں سے زائد ہو جائیں، یہاں ظاہر ہے کہ یہ نہ صرف موجودہ حالات میں ناممکن ہے بلکہ آپ کی اس زاویہ سے کسی کوشش کو پنکچر کرنے کی تیاری سی اے اے این آر سی ،میڈیا پروپیگنڈا کے ذریعے رات دن ہو رہی ہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اقلیت میں ہی ہوں لیکن سسٹم میں کہیں سے بھی تھوڑا سا بھی ربط رکھنے والے آپ کے تمام افراد بیک آواز متحد ہوں، ایک ہی وقت میں کسی کام کے لئے یکساں مؤقف اختیار کریں، سر مو ایک بھی شخص انحراف نہ کرے، اگر اقلیت کا بھی جتھا ہم آواز اور ہم زبان ہو تو وہ اقلیت منشتر آراء واغراض والی اکثریت سے اپنی منوا سکتی ہے، لیکن ذرا سا غور کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے، مختلف شعبوں، پارٹیوں سے جڑے مسلمانوں کے جتنے سر ہیں اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ ان کے اندر بھرے ہوئے مختلف موقف اور آراء ہیں، قوم کی خاطر وہ شاید ایک ادنی سے ادنی موضوع پر عملا یک رائے نہ ہو سکیں، ہاں اتحاد و اتفاق کی سپیچ ضرور دے سکتے ہیں،ہر کوئی اپنے "انویسٹ منٹ” سے ذاتی فائدہ اٹھاکر صرف اپنی ہی سات نسلوں کی دنیا محفوظ کر لینا چاہتا ہے، اور یہ فطری ہے بھی، کیونکہ تعلیم کی جس مادی چکی سے پس کر وہ آئے ہیں،اور جس گلا کاٹ کمپٹیشن میں لاکھوں کی کوچنگ اور فیس دیکر وہ اس مقام تک پہونچے ہیں اس کے پہلے قدم پر ان کے ذہنوں میں گھر اور تعلیم گاہ سب جگہ ہی ان کا مقصد، "کامیابی” کے معنی ٹھونس ٹھونس کر بھر دیے جاتے ہیں، جس کا کوئی دور کا سرا بھی اغراض ملی، دینی، قومی شناخت کا تحفظ، اپنی تہذیب وکلچر کی بقا سے نہیں ملتا، بلکہ ان میں سے ہر شیئ عموماً راہ کا پتھر اور منزل کی اڑچنیں خیال کی جاتی ہیں جن سے جتنی جلدی چھٹکارا ملے بہتر ہے، ویسے بھی اس "اندر گھس چکے” طبقہ کی کارگردگی آزادی کے بعد سے ہی اب تک اپنی ملت کے لئے تقریبا معدوم ہی رہی ہے، اب اس میں کوئی نئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ اس سے امیدیں وابستہ رکھی جائیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سر نہ تو اکثریت میں ہوں، نہ ہی متحدہ اقلیت میں ہوں، لیکن آپ کے اندر اس قدر اعلی درجے کی اخلاقی قوت اور عزیمت وحمیت ہو کہ دوسرے خود آپ کی دامن سے وابستگی کو اپنے لیے نجات سمجھنے لگیں، آپ کی زندگی، طرز عمل، مقصد پر ثبات، دنیا کے بارے میں نظریہ وفلسفہ اور اس کی عملی تطبیقی ان کے لئے موجب کشش ہو۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ چیز سرے سے ہی مفقود ہے، اغراض ذاتی پر اغراض دینی وملی کی قربانی، اخلاق کی سطحیت، نفاق کی کثرت، کرپشن جھوٹ دروغ گوئی اور مکاری ہماری قوم کے سر کا تاج بن چکے ہیں، حد یہ ہے کہ مسلمان خود دوسرے مسلمان سے تجارت یا مالی معاملہ کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ اسکی خیانت، بے ایمانی اور بغض وحسد اس کو کہیں لے نہ ڈوبے، بارہا اس کا تجربہ ہو چکا ہے، مزدوروں کی مزدوری رکھ لینا،قرض واپس نہ کرنا،تجارت میں دھوکہ کرنے میں اپنے بھائی غیروں پر سبقت لے جا چکے ہیں۔
یہ تینوں آپشن بازی پلٹنے کے مفقود ہیں، تو اب یہ خام خیال ہی ہے کہ سسٹم کا حصہ بن کر کچھ اصلاح ہو سکتی ہے۔
موجودہ حال یہ ہے کہ روٹی سے منسلک اس تعلیم کے دروازے پر اب جب ساری قوم اک دکا چھوڑ کر اکٹھی ہو چکی ہے تو ان پر اسی کا دروازہ بند کرنے کی کاوشیں ہو رہی ہیں، اب دروازہ اسی کے لئے کھلے گا جو بچی کچی غیرت،حمیت، تہذیبی نشانات اور اپنے مذہب کی بنیادوں کو باہر چھوڑ کر آئے، کیونکہ یہی وہ انتہائی ہدف ہے جس سے قرآن کریم نے ہمیں بارہا آگاہ کیا ہے کہ تم سے رضامندی کی واحد شرط یہی ہے کہ اس پیرہن کو اتار کر دوسرا مخصوص پیرہن ہمارے جیسے ہو جاؤ تب ہی تمہارے لئے یہاں کچھ مقام ومرتبہ ہے بلکہ بنیادی حاجات وضروریات بھی اب اس پر موقوف ہیں۔ راستہ تمہارے سامنے ہے، آپشنز واضح ہیں جو راہ چاہو اختیار کرو، لیکن تمہیں اس حال میں لا دیا گیا ہے کہ اب تم صرف اسی دروازے میں رسائی کے لئے احتجاجا چیخ چلا تو سکتے ہو، لیکن اس سے پیچھے ہٹنے یا منہ موڑنے کی ہمت، عزیمت، غیرت، حساسیت تم کھو چکے ہو۔

Exit mobile version