Site icon

سعادت و شقاوت

از: مفتی ناصر الدین مظاہری

________________

آپ وضو کیجیے اور پھر دھیان دیجیے کہ طبیعت پہلے سے کتنی بہتر اور کھل جاتی ہے، نماز سے پہلے کی نحوست اور نماز کے بعد کی کیفیت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے، اصل میں جن کی طبیعتوں پر نفسانی اثرات غالب ہیں وہ نماز سے بھاگتے ہیں اور جن کے دلوں میں خوف خدا موجود ہے وہ نمازکے لئے بھاگتے ہیں۔ میں نے گشت کے دوران ایسے ایسے افراد کو نماز سے راہ فرار اختیار کرتے دیکھا ہے جن کے بارے میں یقین تھا کہ یہ تو فورا لبیک وسعدیک کہیں گے۔
ایک سال پہلے مدینہ منورہ میں حضرت مولانا حکیم محمد عثمان صاحب قاسمی حفظہ اللہ کے دولت خانہ پر ایک ہی مجلس میں دو عجیب و غریب واقعات سن کر روح تڑپی،دل رویا، آنکھیں بھیگیں،اور زبان نے کلمات شکر ادا کئے۔
ایک واقعہ ندوہ العلماء کے ایک رکن شوری جو غالبا پہلے متحدہ عرب امارات میں تھے بیان کیا کہ ایک صاحب انڈیا سے مکہ پہنچے، جدہ اترتے ہی ان پر پریشانی اور حیرانی کاحملہ ہوا اپنے ساتھی سے کہنےلگے کہ مجھے مکہ نہیں جانا ہے مجھے واپس انڈیا جانا ہے ساتھی کہنے لگا کہ اب تو مکہ مکرمہ آچکا ہے، عمرہ سے فارغ ہوکر اگر دل لگے تورک جانا ورنہ چلے جانا پہلے عمرہ تو کرلو۔ وہ صاحب منع کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور طبیعت مزید تنگی محسوس کرنے لگی اور آخرکاراحرام کی چادروں میں ہی جدہ کے لئے ٹیکسی پکڑی، ائرپورٹ پہنچ کر ٹکٹ لیا اور اپنے ملک واپس چلے گئے۔
حضرت مولانا حکیم محمد عثمان قاسمی صاحب نے مسجد نبوی میں مجھ سے بیان فرمایا کہ میرے ایک شناسا کو مدینہ منورہ آنا تھا جدہ ایئرپورٹ سے مدینہ منورہ کی گاڑی پکڑکر روانہ ہوگئے لیکن جوں جوں مدینہ منورہ قریب ہوتا گیا ان کی بے چینی اور بے کیفی بڑھتی رہی یہاں تک کہ ٹیکسی واپس کرالی اور جدہ ایئرپورٹ پہنچ کر واپسی کا راستہ لیا۔
دو معتبر ومستند علماء کے بیان فرمودہ یہ واقعات ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں ہمیں سجدہ شکر ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں ہمیں بتاتے ہیں کہ حدیث پاک” شقی اپنی ماں کے شکم میں شقی ہے اور سعادتمند، اپنی ماں کے شکم میں سعادتمند ہے”۔
ہمیں ہر آن ہر مکان ہر زمان اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ شکر ازدیاد نعمت کا سبب ہے اور ناشکری نقصان نعمت کا باعث ہے۔

Exit mobile version