✍ ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
_________________
خالق کائنات نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے قرآن کریم جیسی مقدس کتاب نازل فرمائی ۔ اس کتاب عظیم کا نزول رمضان المبارک کی بابرکت شب ہعنی شب قدر میں ہوا ۔ لہذا اس بناء پر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن کریم اور رمضان کا رشتہ بڑا گہرا ہے ۔ اگر ہم قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے رمضان کا مہینہ خاص کرلیں تو یقیناً اس سے بہت سارے سماجی اور معاشرتی مسائل کا حل نکل سکتا ہے ۔
رمضان رحمتوں کے نزول کا مہینہ ہے ان رحمتوں اور برکتوں سے ہم لطف اندوز اسی وقت ہوسکیں گے جب کہ ہم پورے طور پر اس پر نور مہینہ کی قدر کریں ۔ اپنا رشتہ خالق کائنات سے مضبوط کریں ۔ روحانی تربیت و اصلاح ، عبادت و ریاضت کرکے رب کائنات کی خوشنودی حاصل کریں ۔ سماجی رشتوں اور انسانی حقوق کا بھی خیال رکھیں ۔ اسی طرح ہمیں ایک ترتیب بنا کر رمضان کو گزارنا چاہیے ۔ دیگر دینی مشاغل کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس میں تدبر و تفکر کرنے کا بھی وقت نکالنا از حد ضروری ہے ۔
آج معاشرتی سطح پر بہت سارے مسائل اس لیے بھی واقع ہو رہے ہیں کہ ہم نے اپنا رشتہ قرآن عظیم سے منقطع کرلیا ۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا رواج کم ہے ۔ آخراس کی کیا وجہ ہے ؟ اگر ہم اس پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم پر تدبر و تفکر اس لیے بھی نہیں کیا جاتا ہے کہ باقاعدہ ایک روایتی طبقہ نے یہ پیغام پہنچایا کہ قرآن کو سمجھ کر وہی لوگ پڑھ سکتے ہیں جو سترہ یا اٹھارہ علوم کے ماہر ہوں ۔ یہ بات صرف کہی ہی نہیں گئی بلکہ معاشرے میں اس قول کو یقینی بنایا گیا ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ قرآن پر تدبر و تفکر یا فہم قرآن کا مسلم معاشرے میں جو نظم و نسق ہونا چاہیے تھا اس کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔ بھلا بتائیے! جو کتاب علمی و فکری طور پر ہی انقلاب برپا کرنے کے لیے نہیں آئی بلکہ اس نے ایسے نظاموں اور سماجوں میں بھی صالح روح پھونک دی جو اللہ رب العزت کو چھوڑ کر باطل نظاموں اور کئی خداؤں کے آگے سر نگوں تھے ۔ قرآن کریم نے بدامن اور بے انصاف معاشروں کو امن و انصاف کی ہدایت دے کر معاشرے میں سکون و اطمینان پیدا کیا ۔ تعلیم و تدریس اور علوم و معارف کے میدان میں جو تحریک پیدا کی اس سے دنیا بھر میں چلائے جانے والے نصابوں کی اصلاح عمل میں آئی ۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم اس وقت یاد کیا جاتاہے جب کسی کا انتقال ہورہا ہوتا ہے، یا دکان و مکان کی خیر و برکت کے لیے پڑھایا جاتاہے ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ عوام کے دماغ میں ہے کہ قرآن کریم صرف گھروں ، دکانوں اور کاروبار میں برکت کے لیے ہے ۔ طرفہ تماشا یہ کہ ہم نے کبھی اس بات کی کوشش ہی نہیں کی کہ قرآن کا جو غیر مستند تصور عوام کے دل و دماغ میں بسا ہوا ہے اسے دور کیا جائے ۔ جو کتاب دنیا میں پرامن اور صالح انقلاب برپا کرنے کے لیے آئی ہے آج اس مقصد کو ہم نے یکسر بھلادیا ہے ۔ ہماری بدقسمتی یہی نہیں ہے بلکہ اسی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن کریم کو تعویذ میں لکھ کر دیتے ہیں اور وہ یہ بتاتے ہیں کہ کہ قرآن کریم جنوں اور شیاطین کو بھگانے کے لیے بھی ہے ۔ اس حوالے سے بہت ساری کتابیں مل جائیں گی جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے آسیب دور ہوگا اور فلاں آیت سے جن بھاگ جائے گا ۔ قرآن کریم کے حوالے سے اس طرح کا احساس رکھنا اسی طرح اس خیال کی ترویج و اشاعت کرنا صحیح ہے ؟؟ کئی مفسرین نے تو باقاعدہ اپنی تفاسیر کے مقدمہ میں اس طرح کے چیزیں پیش کی ہیں کہ اس آیت کا یہ نقش بنادیا جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ اعمال قرآنی کے نام سے کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور مزید لوگ لکھ رہے ہیں ۔ ان تمام وجوہات اور مسائل کی وجہ سے قرآن کریم سے رشتہ منقطع ہوتا گیا اور یہ تصور کیا جانے لگا کہ قرآن عظیم کتاب ہدایت نہیں بلکہ خاص خاص مواقع پر حصول برکت کے لیے پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں یہ عقیدہ پایا جاتاہے کہ جب کوئی مسئلہ یا بیماری وغیرہ درپیش ہوتی ہے تو وہ کسی عالم یا مولوی کے پاس آتے ہیں اور اس سے تعویذ کی درخواست کرتے ہیں اگر وہ منع کردیتا ہے تو کہتے ہیں کہ آپ تو عالم ہیں آپ کو یہ پتہ نہیں کہ کون سی آیت سے ہماری یہ شکایت یا پریشانی دور ہوگی ؟؟ قرآن مجید کے حوالے سے اسی معاشرتی رویہ پر مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی معروف تفسیر "تدبر قرآن” میں لکھا ہے ۔
” محض تبرک کے طور پر الفاظ کی تلاوت کر لینا اور معانی کی طرف دھیان نہ کرنا حضرات صحابہ کرام کا طریقہ نہیں ہے ۔ یہ طریقہ تو اس وقت سے رائج ہوا جب لوگوں نے قرآن مجید کو ایک صحیفہ ہدایت کے بجائے محض حصول برکت کی ایک کتاب سمجھنا شروع کر دیا۔ جب زندگی کے مسائل سے قرآن عظیم کا تعلق صرف اس قدر رہ گیا کہ دم نزاع اس کے ذریعہ سے جاں کنی کی سختیوں کو دور کیا جائے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے سے میت کو ایصال ثواب کیا جائے ۔ جب زندگی کے نشیب و فراز میں رہنما ہونے کے بجائے اس کا مصرف صرف یہ رہ گیا کہ ہم جس ضلالت کا بھی ارتکاب کریں اس کا افتتاح اس کے ذریعے سے کریں تاکہ وہ برکت دے کر اس ضلالت کو ہدایت بنادیا کرے ۔ جب لوگوں نے اس کو تعویذ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تاکہ جب وہ اپنے دنیوی مقاصد کی تکمیل کے لیے نکلا کریں تو قرآن ان کی حفاظت کرے کہ اس راہ میں ان کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے ۔
دنیا کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس نے قرآن حکیم سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہو کہ اس کا حقیقی فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے کہاس کو پورے غور و تدبر کے ساتھ پڑھا جائے، لیکن یہ عجیب ماجرا ہے کہ یہی ایک کتاب ہے جو ہمیشہ آنکھ بند کرکے پڑھی جاتی ہے ۔ معمولی سے معمولی کتاب بھی پڑھنے کے لیے کھولتے ہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے اپنے دماغ کو حاضر کرتے ہیں لیکن قرآن کے ساتھ لوگوں کی یہ انوکھی روش ہے کہ جب اس کو پڑھنے کا ارادہ کرتے ہیں تو بالعموم سب سے پہلے اپنے دماغ پر پٹی باندھ لیتے ہیں ” (تدبر قرآن ، جلد 1، صفحہ 39-40)
قرآن کریم کے حوالے سے ہمارے معاشرے کا جو رویہ اور کردار ہے یقیناً وہ افسوس ناک ہے اس سے معاشرے کو بچانا نہایت ضروری ہے ۔ نکبت و پستی اور تنزلی و ادبار کی وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم سے ہمارا رشتہ اس نوعیت کا نہیں رہا جس طرح کا صحابہ کرام کا تھا ۔ وہ قرآن مجید سوچ سمجھ کر پڑھتے تھے ایک ایک سورہ کو پڑھنے میں کئی کئی برس لگ جاتے تھے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن کریم کتاب ہدایت اور آفاقی و عالم گیر صحیفہ ہے ۔ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر غور و خوض کرنے کی عادت بنانا چاہیے رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اس رمضان میں ہم طے کریں کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں گے قرآن کریم پر غور و خوض کرنے سے نہ صرف روح کو تسکین ملے گی بلکہ ہمارے معاشرے میں امن و امان بپا ہوگا ۔ نیز ملت اسلامیہ اپنا سابقہ کردار بھی بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔