Site icon

مفروضات کے خلاف جدوجہد و مزاحمت کی ضرورت

عبدالحمید نعمانی

از: مولاناعبدالحمید نعمانی

_____________

عوامی روایات اور کہانیوں کو ان کے دائرے سے باہر لانے کی مزاحمت بہت ضروری ہے، ورنہ ان کے نتائج بڑے بھیانک اور دوررس ہوں گے، بھارت میں کہانیوں اور اسما۶ و اصطلاحات کی بہتات اتنی ہے کہ ان کا استعمال کہیں بھی اور کسی سے بھی جوڑ کر کیا جا سکتا ہے، اس میں اگر ”آستھا ”کو بھی شامل کر دیا جائے تو کسی زندہ وجود کے انہدام اور حقیقت کو افسانہ اور افسانہ کو حقیقت بنانے میں خاصی تقویت پیدا ہو جاتی ہے، بابری مسجد کے سلسلے میں ایسا ہو چکا ہے اور دیگر معاملات میں بھی بھارت کو اسی سمت میں لے جانے کا جتن کیا جا رہا ہے،کئی سارے امور میں راہیں ہموار کی جا رہی ہیں، اگر اس رو کو آگے بڑھنے سے نہیں روکا گیا تو اس کے بڑے مضر اثرات مرتب ہوں گے، ناموں کے حوالے سے عجیب عجیب تک بندیوں کے سہارے، پہلے سے قائم معابد و ماثر پر ہندو شناخت اور ملکیت ثابت کر کے ان کے وجود کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تاریخی حقائق اور ثابت شدہ ملکیت کو نظرانداز کر کے پی این اوک کی تک بندیوں کو تاریخ بنانے کی ایک مہم سی چل پڑی ہے، یہ احساس کمتری اور تاریخی و تہذیبی بحران سے نجات پانے کی ایک ناکام کوشش ہے کہ خود تو کچھ خاص بنایا نہیں البتہ دوسروں کی بنائی چیزوں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر جھوٹی تسکین کا سامان بہم پہنچایا جا رہا ہے،اس سلسلے میں اس بنیادی سوال کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ مندر کس کی جگہ اور کیسے تعمیر کی گئی تھی،  بھارت میں سرکاری آراضی پر جس کثرت سے مندروں، مٹھوں کی تعمیر ہوتی رہی ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ابھی حال میں گجرات ہائی کورٹ نے تبصرہ کیا کہ مندر کی تعمیر سرکاری آراضی پر قبضہ کرنے کا ایک طریقہ ہے، دیگر کے معابد و ماثر پر دعوے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد کی تعمیر، رام مندر توڑ کر تعمیر نہیں کی گئی تھی، جامع مسجد بنارس گیان واپی بھی کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کر تعمیر نہیں کی گئی ہے لیکن پروپیگنڈا کی طاقت اور مبینہ آستھا کی بنیاد پر ایک مسجد  کی جگہ، مندر کی جگہ نہ ہوتے ہوئے بھی مندر کے لیے دے دی گئی،جامع مسجد گیان واپی کو بھی ایودھیا کی راہ پر ڈال دیا گیا ہے، ایک چیف جسٹس کو راجیہ سبھا کا ممبر اور دوسرے میں ضلع جج کو یونیورسٹی کا لوک پال مقرر کر دیا گیا، اس سے انصاف اور غیر جانبداری مشکوک ہو کر رہ گئی ہے، تاج محل، لال قلعہ وغیرہ کے بارے میں بھی کئی طرح کی باتیں کی جاتی رہی ہیں، لکشمن، لکھنؤ اور گیان واپی محلہ کے نام پر جس طرح کی دور کوڑی لائی جاتی ہے اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ فیض آباد، غازی آباد، فرید آباد، مراد آباد، حیدرآباد، مرشد آباد وغیرہ سے ہندوؤں کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کا رام پور، باڑہ ہندو راؤ سے کوئی تعلق ہے، بہت سے ہندوتو وادی کہتے بھی ہیں کہ گیان واپی میں مسجد ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اب کہا جا رہا ہے کہ لکھنؤ کے لکشمن ٹیلہ پر مسجد کا کیا مطلب ہے؟رام، لکشمن کے نام پر اجارہ داری پر بھی سوال اٹھانے کی ضرورت ہے، یہ فرقہ وارانہ ذہنیت،بھارت اور اس کی قدیم روایات اور تہذیبی رویے کے خلاف ہے، آس پاس مسجد/مندر ہونے کا مطلب، ہندو مسلم کی قربت کی علامت ہے نہ کہ مسجد،مندر کی جگہ تعمیر کی گئی ہے، مسلم دور حکومت خصوصا مغل حکمرانوں کے عہد میں ہندو مسلم دونوں بہت قریب آگئے تھے، اب اسے دوری، نفرت میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مندر/ مسجد کے نام پر تنازعات کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے مقصد سے 1991 کا پلیسیز آف ورشپ ایکٹ ایک بہتر و موثر قانون ہے لیکن اسے فرقہ وارانہ تنازعات کے انسداد کے سلسلے میں مسلسل نظرانداز کر کے کام کیا جا رہا ہے، شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ کے تمام نکات و دفعات پر تفصیلی بحث و گفتگو کر کے اصل حقیقت کو سامنے لایا جائے تاکہ اس سوال کا صحیح جواب مل سکے کہ پارلیمنٹ سے بنے ایک قانون ہونے کے باوجود، مندر/مسجد کے معاملے کی شنوائی و کارروائی کیوں اور کیسے کی جا رہی ہے؟یہ سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے کہ جن مقاصد کے تحت رام مندر کی تحریک کو بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا وہ ملک کے اقتدار کی کرسی پر براجمان رہنے کے تناظر میں ختم نہیں ہو گئے ہیں، اس لیے مندر، مسجد، اسلام، مسلمانوں اور محنت کش طبقات، دلت، آدی واسی مسائل کی موجودگی میں بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوگا، معروف ہستیوں، شیو، رام، کرشن، لکشمن اور دیگر ناموں پر اکثریتی سماج کے مختلف حصوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے مختلف قسم کی تحریکات، ہندوتو وادی عناصر کی ضرورت و مجبوری ہیں، لکھنؤ کا امام باڑہ اور ٹیلہ شاہ والی مسجد کو ہندو عمارت اور عبادت گاہ قرار دینے کا سلسلہ جاری رہے گا، اس سلسلے میں اورنگزیب کا نام بہت مفید و موثر ہے، اسے کسی بھی معاملے میں اور کہیں بھی بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے،ماحول کچھ ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کسی بھی دعوٰی کے لیے کسی پختہ ثبوت و شہادت کی سرے سے ہی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے، یہ نہیں دیکھا جا رہا ہے کہ اگر اس طرح کے دعوے میں کوئی سچائی ہے تو برٹش سامراج سے پہلے اس طرح کا دعوٰی لے کر کوئی ہندو سامنے کیوں نہیں آیا تھا، کسی ہندو مورخ، لکھنے پڑھنے والے نے ہندو مندر، منہدم کر کے اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کے عمل کو ریکارڈ کر کے کیوں نہیں رکھا تھا، پورا معاملہ، اقتدار، ذہنیت اور حالات کی تبدیلی کا ہے، آر ایس ایس سربراہ بھاگوت نے کہا تھا کہ ہر مسجد میں مندر تلاش نہیں کرنا چاہیے، لیکن ہر تاریخی عمارت و عبادت گاہ، غلامی کی نشانی نظر آرہی ہے، لکھنؤ کی ٹیلہ شاہ مسجد 350 سال پرانی اور سینٹرل سنی وقف بورڈ میں وقف نمبر 212 لکھنؤ کے طور پر درج ہے، پہلے جب اسے اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے مسجد کی زمین کو لکشمن ٹیلہ بتا کر ہندو آراضی ہونے کا دعوٰی کیا تھا تو اسے نچلی عدالت نے خارج کر دیا تھا لیکن اب بدلتے فرقہ وارانہ ماحول میں بر عکس طور پر مسجد کی طرف سے دائر کردہ عرضی کو خارج کر کے، ہندو فریق کی طرف سے، مسجد کے خلاف دائر عرضی کو اسی نچلی نے قابل سماعت قرار دے دیا ہے، دعوٰی کیا گیا ہے کہ مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی گئی ہے، اس دعوے کو قابل سماعت قرار دینے کا مطلب بہت صاف ہے کہ ملک کو ایک مخصوص ڈگر پر لے جانے کی راہ  ہموار کی جا رہی ہے، سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ، مندر کو اور مسجد کے لیے متبادل جگہ فراہم کر کے بہ ظاہر تنازعات کو ختم کرنے کا کام کیا تھا لیکن اصلا تنازعات کے ان گنت دیگر دروازے کھل گئے ہیں، ہندوتو وادی عناصر اور تنظیموں کو راستہ اور موقع موقع مل گیا ہے کہ وہ مختلف بہانوں سے خود کو زندہ اور ضرورت بنا کر اکثریتی سماج کے سامنے لانے کا سلسلہ جاری رکھیں، ان کو اس سے بھی حوصلہ اور تقویت مل رہی ہے کہ مساجد اور مسلمانوں کی طرف سے دائر عرضیوں کو عموما ناقابل اعتنا۶ و توجہ قرار دے کر عدالتوں کی طرف سے خارج کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ ان کی طرف سے دائر عرضیوں میں کئی سارے نکات قابل توجہ و سماعت ہوتے ہیں، اس کی مثال جامع مسجد بنارس گیان واپی کے تہہ خانہ میں پوجا کی اجازت اور اس کے خلاف عرضی،ہائی کورٹ سے خارج ہونے کے معاملے ہیں، یہ بات قابل توجہ ہے کہ ضلع جج نے ضلع مجسٹریٹ ورانسی کو ریسور تعینات کرنے کی ہدایت دی تھی، جب کہ ضلع مجسٹریٹ پہلے سے ہی کاشی وشو ناتھ مندر ٹرسٹ کے ممبر ہیں، ایسی حالت میں معاملے کی شفافیت اور غیر جانبداری باقی کیسے رہ سکتی ہے، ایسی صورت حال میں ضلع مجسٹریٹ کو ریسور مقرر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے دستاویز میں تہہ خانہ کا کوئی ذکر نہیں ہے اس کے باوجود اس میں پوجا کی اجازت، ظاہر ہے کہ ناقابل فہم ہے، آنے والے دنوں میں حالات کس رخ پر جائیں گے، اس پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم حقائق و شواہد جمع کرنے اور تاریخی کتابوں اور دستاویزات کی اشاعت کی ضرورت، پہلے سے سوا ہو گئی ہے، اس پر مسلم تنظیموں اور معروف اشاعتی و تعلیمی اداروں کو خاص طور سے توجہ دینی چاہیے، اس سے مفروضات اور من گھڑت کہانیوں پر روک لگانے اور عوامی افواہ کو تاریخ بنانے کی مذموم کوششوں کے خلاف مزاحمت میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔

Exit mobile version