Site icon

ماہ رمضان کا دل سے استقبال کیجئے!

محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

_________________

   چار یا پانچ روز کے بعد رمضان المبارک کی تاریخ شروع ہوجائے گی اور تراویح کا آغاز ہو جائے گا اور اگلے دن سے روزہ بھی شروع ہو جائے گا ۔
               *رمضان المبارک* کا مہینہ قدر و قیمت اور شرف و منزلت کے اعتبار سے تمام مہینوں میں ممتاز اور نمایاں ہے ۔ اس مہینہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کو سید الشہور (مہینوں کا سردار) کہا گیا ہے ۔ یہ مہینہ قرآنی مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ اسی مہینہ کے آخری عشرہ میں شب قدر بھی ہے ۔
اس مہینہ کی عظمت و اہمیت اور قدر و منزلت  کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس مبارک مہینہ کا دو ماہ قبل ہی سے شدت سے انتظار کرتے تھے اور اس مہینہ کو پانے کے لئے اللہ تعالی سے دعا فرمایا کرتے تھے ۔ اس دعا کے الفاظ یہ ہیں  :
*اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان  و بلغنا رمضان*
اے بار خدا ! ہمارے لئے رجب میں اور شعبان میں برکت نصیب فرما ،اور  ماہ رمضان المبارک نصیب فرما ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان المبارک سے پہلے ہی اس کا اہتمام اور اس کی تیاری شروع کر دیتے تھے، (حدیث شریف میں کمر کس لینے کا لفظ استعمال ہوا ہے ) ،شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے اور تقریبا شعبان کے زیادہ تر دنوں میں روزے ہی سے رہتے تھے ،تلاوت و تسبیح اور نفلی نمازوں کا خوب اہتمام فرماتے تھے۔ اور یہ سب کچھ استقبال رمضان المبارک کے اہتمام آپ کیا کرتے تھے ۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے دلوں میں رمضان المبارک اور اس کے روزے کی قدر و قیمت بٹھانے کے لئے ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رمضان کے موضوع پر ایک بلیغ اور جامع خطبہ دیا جس کا لفظ لفظ حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے ۔ یہ خطبہ کیا ہے ؟ رمضان المبارک کا منشور اور پیغام ہے ایمان والوں کے لئے ۔ اور یہ امت کے لئے ایک خصوصی استقبالیہ خطبہ ہے ۔
             چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک (خصوصی) خطبہ ارشاد فرمایا : اے لوگو!  ایک عظیم مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ( یہ) مبارک مہینہ ہے،اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اس ماہ میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں (نماز تراویح کی صورت میں ) قیام کو نفلی عبادت قرار دیا ہے ۔ جو ( خوش نصیب ) اس مہینے میں اللہ تعالی کی رضا کے لئے کوئ نفلی عبادت انجام دے گا،تو اسے دوسرے مہینوں کے (اسی نوع کے) فرض کے برابر ثواب ملے گا اور جو کوئ اس مہینے میں فرض عبادت ادا کرے گا ،تو اسے دوسرے مہینوں میں (اسی نوع کے) ستر فرض کے برابر اجر ملے گا ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ،یہ دوسروں سے ہمدردی اور ان کے دکھ درد کے ازالے کا مہینہ ہے، ،یہ ایسا مبارک مہینہ ہے  کہ اس  میں مومن کے رزق میں اضافہ کیا کیا جاتا ہے ۔ جو شخص اس مہینے میں کسی کو روزہ افطار کرائے گا تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنے گا اور اس کے سبب اس کی گردن  نار جہنم سے آزاد ہوگی اور روزے دار کے اجر میں کسی کمی کے بغیر اسے اس کے برابر اجر ملے گا ۔ حضرت سلمان فاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ ہم نے عرض کی ،یا رسول اللہ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم میں سے ہر کوئ اتنی توفیق نہیں رکھتا کہ روزے دار کا روزہ افطار کرائے ( تو کیا ایسے لوگ افطار کے اجر سے محروم رہیں گے؟ )
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : یہ اجر اسے بھی ملے گا ،جو دودھ کے ایک گھونٹ سے یا ایک کجھور سے یا پانی پلا کر ہی کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے ۔ اور جو شخص کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا ۔ تو اللہ تعالی اسے ( قیامت کے دن) میرے حوض (کوثر ) سے ایسا جام پلائے گا کہ (پھر) وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہیں ہوگا ۔
یہ ایسا (مقدس) مہینہ ہے کہ اس کا پہلا عشرہ نزول رحمت کا سبب ہے اور اس کا درمیانی عشرہ مغفرت کے لئے ہے اور آخری عشرہ نار جہنم سے نجات کے لئے ہے اور جو شخص اس مہینے میں اپنے ماتحت لوگوں  ( یعنی خدام اور ملازمین) کے کام میں تخفیف کرے گا ،تو اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور اسے نار جہنم سے رہائ عطا فرما دے گا ۔ ( شعب الایمان للبیھقی)
        یہ طویل حدیث شریف روزہ و رمضان کے فضائل اور اس کی اہمیت کے بارے میں ایک جامع اور ایمان افروز خطبہ اور منشور ہے اللہ تعالی ہم سب کو اس حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک اور روزہ کی قدر دانی کی توفیق مرحمت فرمائے اور اخلاص کے ساتھ رمضان المبارک کے مہینہ کو عبادت ، نیکی اور تقوی و طہارت کے ساتھ گزارنے کی ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے آمین ۔
          اس ماہ مبارک کے بارے میں اصحاب فہم و بصیرت کہتے ہیں کہ یہ ماہ حلیم ہو یا نہ ہو ماہ حلم ضرور ہے ۔ اس لئے یہ ماہ غصہ پی جانے کا درس دیتا ہے ،عفو و درگزر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے ۔مزاج کو آتشیں اور گرم و شعلہ بنانے کے بجائے شبنمی بنانے کی مشق کراتا ہے ۔
          خالق کائنات کی جانب سے بندوں کے نام اس ماہ یہ نوٹس آجاتی ہے ۰۰ یا باغی الخیر اقبل و یا باغی الشر اقصر۰۰ اے بھلائی اور خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے برائ اور بدعملی کے شائق رک جا ۔
        شیاطین کے نام بھی ایک مہینہ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کردیا جاتا ہے ۔ جنت سجا دی جاتی ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں ۔
             آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کے حق میں یہ فرمایا:
جو رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئے جائیں گے ۔ (بخاری )۔
           امت مسلمہ کو اللہ تعالی کی طرف سے جو بے شمار نعمتیں (انعامات ) ملی ہیں ان میں سے ایک عظیم نعمت رمضان المبارک اور اس  کے روزے بھی ہیں ۔
یہ مہینہ ہمارے درمیان ہر سال خیر و برکت اور رحمتوں کا خزانہ لئے ہوئے ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے ۔ اور مغفرت و بخشش چاہنے کو دنیا بھر میں رحمتوں کا خزانہ تقسیم کرتا ہے ۔
اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے خلاصی کا ہے ۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے رمضان المبارک کے موقع پر دوران خطبہ ارشاد فرمایا :
*ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے ،اے خیر کے چاہنے والے ! اگے بڑھ، اور اے برائ کے چاہنے والے باز آجا ،اور اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک جہنم سے رہائ حاصل کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں اور یہ سلسلہ ہر روز چلتا رہتا ہے ۔ (ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس مہینہ میں اللہ کی طرف سے مومن بندے کے لئے ایسی رات بھی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کے خیر سے محروم رہا وہ حقیقی خیر محروم ہے ۔ ( مسند احمد )
         یہ مہینہ مومن کے لئے کس قدر خیر و برکت کا ہے اور اللہ کی طرف سے ایمان والوں کے لئے عمل خیر کا ماحول کس قدر پیدا کردیا جاتا ہے اس کا اندازہ اس حدیث شریف سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو اسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں ۔ ( بخاری شریف ) ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔ (مسلم شریف)
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے روزہ کی اہمیت اور قدر و منزلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :
"ابن آدم کے ہر عمل میں اس کی نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں ،البتہ روزے کا معاملہ اس سے کچھ جدا اور الگ ہے اس لئے کہ وہ تو صرف میرے لئے ( خدا کے واسطے ) ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ بندہ اپنی شہوتوں خواہشوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو صرف میرے لئے چھوڑتا ہے ۔ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہوتی ہیں، ایک خوشی تو روزہ افطار کے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر ہوگی ۔ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ لغو اور بے ہودہ باتوں اور چیخنے چلانے اور شور مچانے سے پرہیز کرے بلکہ اگر کوئ گالی دے یا حملہ کرے تو صاف کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں ۔ (بخاری و مسلم )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ روزہ انسان کے لئے( گناہوں سے ) ڈھال ہے جب تک کہ وہ خود اس کو پھاڑ نہ دے ۔
روزہ اور روزہ داروں کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جنت کے دروازوں میں سے ایک گیٹ اور دروزاہ *ریان* ہے یہ گیٹ اور دروازہ *وی آی پی* ہے اس دروازے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دروازے سے صرف روزے دار (جنتی) لوگ ہی داخل ہوں گے کسی اور جنتی کا داخلہ اس *وی ائ پی* گیٹ سے نہیں ہو سکے گا ۔
        یہ انعام روزے داروں کے لئے اس لئے ہوگا کہ روزہ بدنی عبادت ہے اور یہ سب سے مشکل اور دشوار عبادت ہے اس میں انسان کو بہت ہمت اور صبر سے کام لینا پرھتا ہے بھوک اور پیاس کی شدت کو برداشت کرنا پڑتا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو خدا کی خوشنودی کے لئے دبانا پڑتا ہے اور قاعدہ ہے کہ جس کام میں محنت و مشقت زیادہ ہوتی ہے اس کا اجر اور اجرت بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
       اوپر کی ایک حدیث سے یہ بھی معلوم کہ عبادات میں صرف روزہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کا اجر اور اجرت و مزدوری اللہ تعالی خود اپنے ہاتھ سے دیں گے جب کہ دیگر عبادتوں کا ثواب اور بدلہ فرشتوں سے دلوائیں گے  ۔
لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ روزے دار کا روزہ بھی ایمان و احتساب کے ساتھ ہو اس میں روحانیت غالب ہو صرف رسمی روزہ نہ ہو کہ صبح سے شام تک بھوکا رہ گیا اور روزے کے شرائط اور اس کے تقاضے کو ملحوظ نہ رکھا بلکہ ضروری ہے کہ روزہ تقوی کے اوصاف سے متصف ہو ۔
ایسے ہی  روزے دار کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے روزہ ایمان و احتساب کے ساتھ رکھا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ۔
اگر چہ محدثین نے اس سے مراد صغیرہ گناہ لئے ہیں اور گناہ کبیرہ کے لئے توبہ کو لازم قرار دیا ہے ۔ لیکن اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے بڑے گناہ کو معاف کر دے تو یہ بھی کوئ بعید بات نہیں ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو روزے کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور روزے کے مبارک ایام میں لا یعنی چیزوں اور بحث و مباحثے اور فضول تکرار سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔
نوٹ اس تحریر کو دوسروں کو بھی پوسٹ کریں۔ اخبارات میں بھی شائع کریں تاکہ اس کا نفع عام ہو۔

Exit mobile version