Site icon

نو سو چوہے کھا کے….

شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )

______________

بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) نے لوک سبھا الیکشن کے لیے امیدواروں کی جو پہلی فہرست جاری کی ہے اسے دیکھ کر اگر کہا جائے ’ نو سو چوہے کھا کے بلّی چلی حج کو ‘ تو غلط نہیں ہوگا ۔ کچھ ایسے ہوں گے جو اس فہرست کو دیکھ کر عش عش کر رہے ہوں گے کہ ’ دیکھ لیں مودی جی ! نے کیسے اُن کے پتّے صاف کیے جو آئیں بائیں شائیں بکتے تھے ۔‘ لیکن سچ یہ ہے کہ جن کے پتّے مودی جی ! نے صاف کیے ہیں اُن سے انہیں جو کام لینا تھا ، وہ کام لے لیا ہے ، اب ان کی بی جے پی میں نہ کوئی ضرورت رہ گئی ہے ، اور نہ ہی کوئی اہمیت ۔ چار ممبرانِ پارلیمنٹ ایسے ہیں جن کے ٹکٹ کاٹ دیے گیے ہیں ، یعنی اگر بی جے پی جیتتی ہے ، اور حکومت بنتی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں نظر نہیں آئیں گے ، ہاں ممکن ہے کہ ان کی جگہ دوسرے چہرے نظر آ جائیں ۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا ٹکٹ بھوپال سے کاٹ دیا گیا ہے ، ان کی جگہ آلوک شرما الیکشن لڑیں گے ۔ یہ وہی سادھوی ہے جو مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ ہے ، اور ایک ایم پی کی حیثیت سے اس نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو ’ شہید ‘ قرار دیا تھا ۔ واضح رہے کہ سادھوی کے متنازعہ بیان پر ملک بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا ، اور پی ایم مودی یہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ ’ میں دل سے پرگیہ کو معاف نہیں کروں گا ‘ ، اور اب پی ایم سینہ ٹھونک کر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو شہید کہنے والی سادھوی کو ٹکٹ نہ دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ، انہوں نے ثابت کر دیا کہ سادھوی کو کبھی دل سے معاف نہیں کیا تھا ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ سادھوی کو ٹکٹ دے کر اور ایم پی بنوا کر پی ایم مودی نے ایک تیر سے کئی شکار کیے تھے ، ایک جانب مالیگاؤں کے متاثرین پر یہ جتایا تھا کہ سادھوی بھلے تمہاری قصوروار ہو بی جے پی اسے ایم پی بنائے گی ، اس کے علاوہ انہوں نے ہندوتوادی دہشت گردی کی پیٹھ تھپتھپانے کا کام کیا تھا اور بھوپال میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دے کر کانگریس کے سینیئر لیڈر دگ وجئے سنگھ کو ہرانے کا کام کیا تھا ۔ سادھوی کا چہرہ سامنے لا کر پی ایم مودی نے نہ جانے کتنے گھروں میں سادھوی کی ذہنیت داخل کروادی ہے ، نہ جانے کتنی خواتین ہوں گی جنہوں نے سادھوی کے کہنے پر اپنے چاقوؤں کو دھار دی ہوگی ۔ فہرست میں پرویش صاحب سنگھ ورما ، رمیش بدھوری اور جینت سنہا کے نام بھی شامل نہیں ہیں ۔ سچ کہیں تو ان کا بھی استعمال کیا گیا اور پھر دودھ سے جیسے مکھی نکالی جاتی ہے انہیں نکال کر پھینک دیا ۔ صاحب سنگھ ورما نے کس قدر نفرت پھیلائی اس کا اندازہ دہلی اور اطراف کے علاقوں کا دورہ کرنے سے ہو جائے گا ۔ اس ایم پی نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا نعرہ دیا تھا ، سی اے اے کے مظاہرین پر ورما نے گھناؤنے الزامات لگائے تھے ، کہا تھا کہ ’ یہ تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری ماں بہنوں کا ریپ کریں گے ‘۔ نہ جانے کتنے برادرانِ وطن نے ورما کے ’ جھوٹ ‘ کو ’ سچ ‘ مانا ہوگا ، نہ جانے کتنوں نے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ شروع کر دیا ہوگا ! ورما ایک پوری نسل کی ذہنیت کو متاثر کرنے کا سبب بنے ہیں ، اور اس کے ذمے دار پی ایم اور بی جے پی کے ذمےدار ہی ہیں ۔ جینت سنہا نے تو ’ ماب لنچنگ ‘ کے ’ جائز ‘ ہونے کی سند ، اس گھناؤنے اور ظالمانہ جرم کے ملزمین کی ضمانت پر انہیں ہار پھول پہنا کر دی تھی ! اس عمل سے نہ جانے کتنے نوجوانوں کو لوگوں کی ماب لنچنگ کا حوصلہ ملا ہوگا ۔ اس کے ذمے دار بھی مرکز ہی کے بھاجپائی قائدین ہیں ۔ اب کام نکل گیا ہے ، اب اپنا روشن اور صاف ستھرا چہرہ دنیا کے سامنے بھی اور عام ہندوستانیوں کے سامنے بھی پیش کرنے کا وقت ہے ، لہٰذا ان سب کے نام پہلی فہرست سے غائب ہیں ۔ اس فہرست سے رمیش بدھوری کا نام بھی غائب ہے جس نے ایم پی دانش علی کو پارلیمنٹ کے اندر بُرا بھلا کہا تھا ، جو دراصل ملک کے سارے مسلمانوں کو بُرا بھلا کہنے کے مصداق تھا ۔ اب یہ سب اپنا رونا رو رہے ہیں ! انہیں پتا ہونا چاہیے کہ سیاست میں بی جے پی جیسی جماعتیں کام نکالنا جانتی ہیں ، اور کام نکل جانے کے بعد جن سے کام نکالا ہے انہیں دریا برد کرنا بھی جانتی ہیں ۔ سیاسی لیڈر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، بصورت دیگر لات کھاتے ہیں ۔ بی جے پی کے لیڈروں کے لیے یہ فہرست ، جس میں سے بہت سارے پُرانے نام نکال دیے گیے ہیں ، سبق ہے ؛ سبق یہ کہ اعلیٰ قیادت ہمیشہ پیٹھ نہیں تھپتھپاتی ، وہ کسی ملند دیورا اور اشوک چوان کو تو دوسری سیاسی پارٹی سے اپنے ساتھ ملا لے گی لیکن جن سے بڑے بڑے کام لیے ہیں ان کی مقبولیت گھٹنے پر یا ان کے متنازعہ بننے پر انہیں باہر کا راستہ دکھا دے گی ۔ اور اس میں سبق دیورا اور اشوک چوان کے لیے بھی ہے۔

Exit mobile version