Site icon

قومی کونسل، ڈائریکٹر اور اردو زبان

✍ زین شمسی

_______________

کچھ دنوں سے فیس بک پر ایک نام ہر جگہ چھایا رہا اور وہ نام تھا شمس اقبال کا۔ چھانے کی وجہ یہ رہی کہ وہ اردو کے سب سے بڑے ادارے این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر منتخب کیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اس طرح کے منصب پر کوئی براجمان ہوتا ہے تو اردو دنیا میں ہلچل مچنا لازمی ہے۔ یہ فطرت بھی ہے کہ کسی کے منصب دار ہونے پر لوگ انہیں مبارکباد کا مستحق سمجھتے ہیں۔شمس اقبال صاحب کو بھی اس لائق سمجھا گیا اور مبارکباد کے ساتھ ساتھ نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا گیا۔ میں نے بھی فیس بک پر یوں ہی پوچھ لیا کہ شمس اقبال کون ہیں؟ جواب میں کچھ دلچسپ اور کچھ انوکھی باتیں لوگوں نے لکھیں اور مختلف طرح کے تبصرے بھی ہوئے۔ این سی پی یو ایل کی اہمیت اور شمس اقبال کی حیثیت پر کچھ لکھنا ضروری سمجھا تو آج کا کالم اسی پر صرف کررہا ہوں۔ جتنا میں کونسل اور شمس کے بارے میں جانتا ہوں، اتنا ہی لکھوں گا ورنہ اردو دنیا میں دانشوران اور اردو کے چاہنے والوں کی ایک قطار موجود ہے جس کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں۔
یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں ہے کہ این سی پی یو ایل کو سرکار نے ڈائریکٹر دیا اور اس پر احسان کیا ہے۔ یہ تو ایک روٹین کا حصہ ہے کہ جہاں کوئی پوسٹ خالی ہوتی ہے وہاں اس اسامی کو پر کیا جاتا ہے۔ مگر کچھ ایسی جگہیں ہوتی ہیں جن پر اردو دنیا ہی نہیں بلکہ مسلمانان ہند کی بھی نظریں ہوتی ہیں کہ سرکار ایسے اداروں کے لیے کیا کررہی ہے۔ ابھی رضا لاٸبریری رامپور میں ڈائریکٹر کا انتخاب ہوا جس کے بارے میں یہ خبر زوروں کے ساتھ مشتہر ہوئی کہ ایک غیر اردوداں کو اتنی اہم ذمہ داری کیوں سونپی گئی اور یہ اردو کے خلاف سازش ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو وائس چانسلر کا انتظار ہے۔ بہار اردو اکادمی اپنے چیئرمین کے خیرمقدم کے لٸے برسوں سے آنکھیں بچھائے بیٹھی ہے۔ اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ کی اردو ایڈوائزری کمیٹی کے خاتمہ کو کئی برس گزر گئے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مدرسہ بورڈ معطل ہے۔ بہار کا سب سے بڑا شمس الہدی مدرسہ اساتذہ کے بغیر ایک ڈھانچہ بن کر کھڑا ہے۔ این سی ای آر ٹی میں ایڈیٹر کی پوسٹ پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوپایا ہے۔ یہ سب تو وہ ادارے ہیں جو سرکار سے منسلک ہیں جبکہ سرکاری ادارے یا یونیورسٹیوں کے شعبۂ اردو اپنی حالت زار پر آنسو بہارہے ہیں۔ یہ ایک الگ المیہ ہے۔ اردو کی ترقی، فروغ یا اس کی لڑائی کے نام پر ہمیں بہت شور سنائی دیتا ہے لیکن عملی طور پر یہ سب کے سب غربت کا شکار ہوچکے ہیں۔ان تمام کمیوں کو ہم سیدھے طور پر سرکار کی نیت سے جوڑ دیتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار پر سارے الزامات دھر دینے سے اس مسئلہ کا حل نکل جائے گا کیا۔ بہار میں اردو کو اختیاری زبان بنادینے کے بعد یہ طے ہوچکا ہے کہ آئندہ دس سال میں اردو فارسی کی جگہ لے لے گی۔  کیا ہمیں اردو کے دفاع کے لیے اسے اپنے الیکشن مینڈیٹ میں نہیں رکھنا چاہیے۔ کیا ہمیں اپنا ووٹ اردو کی بھلائی کے لیے نہیں دینا چاہیے۔ خیر این سی پی یو ایل میں نئے ڈائریکٹر کی تقرری نے بہت کچھ ثابت کیا ہے۔ اگر ہم ماضی کے جھروکے سے دیکھیں تو حمیداللہ بھٹ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ جب کونسل کو کوئی غیرپروفیسر ڈائریکٹر ملا ہے۔ یعنی جسے ہم خالص اکیڈمک نہیں کہہ سکتے۔ چوں کہ وہ پہلے بھی کونسل میں پی پی او کی پوسٹ پر رہ چکے ہیں، اس لیے انہیں انتظامیہ کا پورا تجربہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی ایسا فلاحی ادارہ جو عوامی عوامل سے جڑا ہوا ہے، اسے ایک اکیڈمک شخصیت کی ضرورت ہے یا ایڈمنسٹریٹوشخصیت کی۔ اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ دراصل جب بھی کونسل میں کسی نئے ڈائریکٹر کی تقرری ہوتی ہے تو اس کی مخالفت یا حمایت میں اخبارات میں مضامین کا سیلاب آجاتا ہے۔ ابھی کل ہی ایک اخبار میں شمس اقبال کی مخالفت میں ایک خبر شائع ہوٸی، جس میں بغیر کسی ذرائع کے یہ بات کہی گئی کہ اب کونسل کا وجود خطرے میں ہے اور کسی صاحب نے یہ الزام عائد کیا کہ کونسل کی بدعنوانی میں سبھی لوگ ملوث ہیں۔ اب ایسی خبریں جس میں نہ کوئی ذرائع ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت، کوئی اخبار کا ایڈیٹر کس طرح اپنے اخبار میں شائع کردیتا ہے۔ کیا اخبار کو اپنی ذمہ داری سمجھ میں نہیں آئی۔ اگرکونسل کے ڈائریکٹر نے اخبار پر دعویٰ ٹھوک دیا تو کیا ہوگا۔ لیکن یہ اردو اخبارات کی روایت بھی رہی ہے کہ وہ شخصی خبریں شائع کرکے کسی کی بھی شبیہ برباد کرنے کا اہل ہوتا ہے۔
اردو کی کسی بڑی پوسٹ پر جب بھی کوئی ویکنسی آتی ہے، بڑی شخصیات اسے حاصل کرنے کے لیے قطار بند ہوجاتی ہیں۔ وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ وہ اردو کی فلاح کے لیے آئی ہیں نہ کہ اپنی ترقی کے لیے۔ اسی لیے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ انٹرویو سے پہلے یا اس کے بعد مقدمہ کا دور چلتا ہے اور اسامیوں کو رد کرانے کی کوشش کی جانے لگتی ہے۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر میرا نہ ہوا تو کسی کا نہ ہو اور یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ اردو کی ویکنسی سالوں سال تک معطل کردی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو اسکولوں اور کالجوں کے شعبہ اردو بالکل اردو اساتذہ سے خالی ہوچکے ہیں۔
اردو کونسل ہندوستان میں سمیناروں کے لیے فنڈ دینے اور کتابوں کی اشاعت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اسکالرس کے لیے پروجیکٹس اور کمپیوٹر کورسز کے لیے سینٹر کھولنے کا کام اسی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اگر وہاں موجود پالیسیوں کو صحیح ڈھنگ سے نافذ کردیا جائے تو اردو زبان و ادب کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ مگر باہمی رنجشوں اور متعصب رویوں کی وجہ سے بہت ساری پالیسیاں نافذ نہیں ہوپاتی ہیں۔ چونکہ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر جب  پروفیسرز براجمان ہوتے ہیں، اس لیے وہ زبان کا فروغ کرنے کے بجائے ادب کے فروغ میں مصروف ہوجاتے ہیں اور چونکہ ان کے ہمنواؤں اور طلبا کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اس لیے وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔ وزارت تعلیم سے ان کا رابطہ کم رہتا ہے کیوں کہ تکنیکی طور پر اکادمی کے لوگ کمزور ہوتے ہیں مگر جو ایڈمنسٹریشن کا آدمی ہوتا ہے وہ سفید و سیاہ میں فرق محسوس کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھیں تو حمیداللہ بھٹ نے اپنے دور میں جتنی اسکیمیں سرکار سے منظور کرائیں اور جتنی اسکیموں کا نفاذ ہوا، وہی اسکیمیں بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی جاری رکھیں مگر جاری رکھنے کے ڈھنگ سے ناواقفیت نے اسکیموں کو کمزور کردیا۔ نئے ڈائریکٹر کو ان سب باتوں پر دھیان مرکوز کرنا ہوگا اور اردو زبان کی ترویج اور فروغ کو اولیت دینی ہوگی کیوں کہ ادب تو آدمی تب ہی پڑھے گا جب زبان آئے گی۔
جہاں تک میں شمس اقبال صاحب کو جانتا ہوں، وہ کچھ معاملوں میں بہت سخت ہیں۔ اگر سرکاری کام میں رکاوٹ پیدا کی جائے یا اردو کے فروغ میں کسی طرح کا رخنہ بے وجہ ڈالا گیا تو وہ اس پر سخت حملہ کرنے والے ہیں۔ اخبارات اپنی رائے رکھنے کے لیے آزاد ہے مگر فرضی خبروں سے پرہیز کریں تاکہ کونسل کا کام بہ حسن و خوبی چلایا جاسکے۔

Exit mobile version