✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
_________________
قسط: 1–2–3
انفاق یعنی خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنا کمالِ ایمان کی علامت ہے،مومنانہ امتیاز ہے،اسلام کے صحیح فہم کی دلیل ہے،قرآن و حدیث میںاس کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں ،قرآن مجید میں اہل ایمان کی مدح وستائش اس وجہ سے بھی کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جو میسر ہو خرچ کرتے ہیں،متعدد مقامات پر انفاق کے ہی مفہوم میں صدقات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،جس کا مفہوم و مطلوب ایک ہی ہے کہ اہل ایمان خیر کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں،یہ ان کی امتیازی شان ہوتی ہے،منافقین کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ خرچ کرنے سے کتراتے ہیں ،بخل کرتے ہیں،بادل ناخواستہ اگر کچھ خرچ کرنا ہی پڑجائے تو اسے بوجھ اور تاوان سمجھتے ہیں،خرچ کرکے احسان جتاتے ہیں،کیونکہ انہیں اللہ پر بھروسہ نہیں ہوتا،جبکہ انفاق اللہ پر یقین اور توکل کی دلیل ہے،انسان کو دیے گئے مال کا مالکِ حقیقی اللہ تعالی ہے،چنانچہ اس عطائے الٰہی میں سے اسکی راہ میں خرچ کرنا،اسکی رضا کے لئے خرچ کرنا اس کا شکر ادا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،اس کے ذریعہ اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور مخلوق کی محبتیں بھی حاصل ہوتی ہیں،آپس میں تعلقات فروغ پاتے ہیں،اجتماعیت مظبوط ہوتی ہے،آپسی تعلقات میں بہتری پیدا ہوتی ہیں،باہمی محبت بڑھتی ہے،انفاق کے ذریعہ حاجت مند کی اشک سوئی ہوتی ہے،فقراء ومساکین کی ضرورت پوری ہوتی ہے، منظم انداز میں انفاق کی تعلیم پر عمل کر کے آج کی بڑھتی بے روزگاری اور فقروفاقہ کی صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے، جس ا نفاق کاحکم قرآن مجید نے دیا ہے وہ مال میں برکت ،نمو اور اضافہ کا سبب ہے،اس کے ذریعہ آزمائشوں اور مصیبتوں سے نجات ملتی ہے،خرچ کرنے والے کو اللہ کے یہاں بھی بڑے مقام و مرتبہ سے نوازا جاتا ہے اور اہل دنیا کے درمیان بھی عزت و تو قیر اور مرتبہ حاصل ہوتا ہے، انفاق کے بے شمار فوائد ہیں،بے شمار نقصانات سے اس کے ذریعہ بچاجا سکتا ہے،احادیث نبویہ اس کی وضاحت کرتی ہیں،سیرت نبوی میں اس کا نمونہ ملتا ہے اور قرآن مجید تو اسے اہل ایمان کا امتیازی وصف قرار دیتاہے۔
انفاق کا مطلب ہے پاکیزہ مال میں سے خدا کی راہ اور اسکی اطاعت کے کاموں اور جائز کاموں میں خرچ کرنا،قرآن مجید میں یہ مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے،کہیں فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوا ہے،کہیں نفلی صدقات کے لیے استعمال کیا گیا ہے،کہیں خاص جہاد کے لیے خرچ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے،کہیں اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے،کہیں خدا تعالی کے رزق دینے کے معنی میں اور کہیں مطلق خرچ کرنے اور سب کچھ دے دینے کے معنی میںاستعمال ہوا ہے،سورہ اسراء کی ایک آیت میں اس کو فقرو املاق یعنی فقراور مال ختم ہونے کے ڈر سے خرچ نہ کرنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِکُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَۃِ رَبِّیْٓ اِذًا لَّامْسَکْتُمْ خَشْیَۃَ الْاِنفَاقِ وَ کَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ( اسراء ۱۰۰)
(اے نبی ان سے کہیئے کہ اگر میرے رب کی رحمت وبخشش کے نہ ختم ہونے والے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے اور تم اس میں تصرف کا اختیار رکھتے تو تم لوگوں کو اس سے روک دیتے اور بخل کرتے، تم کو دینے میں ڈر لگتا کہ کہیں تم فقیر نہ ہوجاؤ، انسان کی طبیعت میں تنگ دلی، بخل اور لالچ ہے، سوائے اسکے جسکو اللہ ایمان اور جود و سخاوت کی توفیق دے۔)
ظاہر ہے کہ جہاں خرچ کرنا فرض ہے وہاں تو فرض کی ادائیگی لازم ہے ہی،فرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور اس سے فرار کے بارے میں تصور بھی محال ہے،یہ الگ بات کہ لوگ زکوۃ کی ادائیگی میں بھی غفلت برتتے ہیں،صحیح طور سے مال کا حساب کرتے ہیں نہ زکوۃنکالتے ہیں،بہرحال یہاں مطلق انفاق زیر بحث ہے،اللہ تعالی نے اس کی بار بار تلقین فرمائی ہے،اس انفاق کو قرض حسن سے تعبیر کیا ہے،استفہام یعنی سوالیہ اسلوب میں اس کی ترغیب دی ہے،استفہام میں طلب کے معنی ہوتے ہیں،یہ اللہ تعالی کے بے پایاں کرم اور اس کے الطاف و عنایات کی بات ہے کہ وہ اپنے بندوں سے اس اسلوب میں خرچ کرنے کا مطالبہ کررہا ہے،فرمایا :۔
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اﷲَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَ اﷲُ یَقْبِضُ وَ یَبسط وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ( بقرہ ۲۴۵)
(تو تم میں کون ہے جو اپنے رب کی رضا اور اس کے دین کی نصرت وعزت کے لیے اپنا مال خرچ کرنے میں سبقت کرنا چاہتا ہے؟ اس کا مال ضائع نہ ہوگا بلکہ وہ اللہ کو دیا گیا قرضِ حسن ہوگا جس کو اللہ کئی گنا کرکے لوٹائے گا، ایک نیکی پر اللہ تعالیٰ دس گنا سے لے کر سات سو گنا بلکہ اور جتنا وہ دینا چاہے اتنا نوازتا ہے، دینے والا تو وہی ہے، اور تمہارا مال بھی اس کا عطیہ ہے، وہی اپنی عطا کی حکمت جانتا ہے جس کو چاہے خوب عطا کرے اور جس کو چاہے کم عطا کرے، جس کے پاس کم مال ہے وہ اپنی استطاعت کے مطابق راہِ خدا میں خرچ کرے اور جو صاحبِ حیثیت ہے وہ اپنی وسعت کے مطابق دے، تم سب کو قیامت کے دن لوٹ کر اسی خدا کے پاس جانا ہے وہاں وہ راہِ خدا میں سخاوت کرنے والے کو اجر سے نوازے گا اور ہاتھ روکنے والے بخیلوں کو سزا دے گا۔)
اللہ تعالی نے اس انفاق کو قرض حسن کا نام دیا تاکہ خرچ کرنے والے کو یقین ہوجائے کہ اس کا مال لوٹایا جائے گا بلکہ کئی گنااضافہ کرکے لوٹا یا جائے گا،انسانی نفسیات کے اعتبار سے اس اسلوب کی بدولت اس کے لیے راہ خدا میں مال خرچ کرنا زیادہ آسان ہے،اس طرح اس کا نفس آمادہ ہوگا،اسی مفہوم کواسی سورہ کی آیت ۲۶۱ میں اس طرح سمجھایا گیا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اﷲُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآء وَ اﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ( بقرہ ۲۶۱)
(جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں خواہ جہاد میں خرچ کریں یا دیگر خیر کے کاموں میں ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ ہو، جسے زرخیز زمین میں بودیا جائے، اس دانے سے سات بالیاں اگیں، ہر بالی میں سات سو دانے ہوں، یہ مثال ہے خیر کے کاموں اور دین کے راستے میں خرچ کرنے والوں کے اجر کی، کہ اللہ تعالی ان کے اجر کو سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ جہاں تک چاہے اور جتنا چاہے بڑھا کر اجر دے، اسی کا مکمل اختیار ہے، جب زر خیز زمین کا یہ عالم ہے کہ ایک دانے سے سات سو دانے پیدا ہوتے ہیں تو آسمانوں اور زمینوں کے رب کی عطا کا کیا عالم ہوگا جو سخیوں کا سخی اور تنہا داتا ہے، وہ تو صدقہ کرنے والے کی نیت کے اعتبار سے اسے بڑھا کر اجر دیتا ہے، وہ ایسی بڑی وسعت والا ہے کہ بے نیاز ی سے دیتا رہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کون اسکی عطا کا مستحق ہے اور کس نے کیا چھپا رکھا ہے۔)
بس انفاق وصدقات میں یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ پاکیزہ اور عمدہ مال خرچ کیا جائے،اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جائے،اس پرکئی گنا اجر کی امید کے ساتھ، خوش دلی اور بشاشت و جذبۂ شکر کے ساتھ خرچ کیا جائے،اور جو کچھ خرچ کیا جائے اس پر احسان جتایا جائے نہ صلہ وستائش کی پرواہ کی جائے اور نہ ہی اسے کسی کو تکلیف پہچانے کاذریعہ بنایا جائے،بخاری و مسلم میںرسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث منقول ہے،عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ ﷺ:’’مامن یوم یصبح العبادفیہ الاملکان ینزلان فیقول احدھما:اللہم اعط منفقاخلفاویقول الاخر اللہم اعط ممسکا تلفا‘‘(متفق علیہ)
ترجمہ : ہر دن جب بندہ صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے اترتے ہیں ، ان میں سے ایک دعا کرتا ہے اور یوں کہتا ہے کہ اے اللہ ! خرچ کرنے والوں کو متبادل عطا فرما ، اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ ! مال روک کے رکھنے والوں کے مال کو ضائع فرما دے ۔
صحیحین اور کتب احادیث میں بہت سی احادیث انفاق و صدقہ کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں،یہاں دراصل انفاق کے سلسلہ میں قرآن کی تلقین ذکر کرنا مقصود ہے کہ قرآن کس طرح انفاق کو مومنین کے امتیازی وصف اور منافقین کی مذمت کے طور پر ذکر کرتا ہے،فضائل کے سلسلے کی احادیث نقل کرنا مقصود نہیں ،ہاں البتہ یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ خرچ کرنے کے لیے دولت مند اور بہت سارے مال کا مالک ہونا ضروری نہیں ،جو جس حیثیت کا ہواسے اس کے مطابق خرچ کرنا چاہیے،مسلم کی ایک روایت میں ہے،عدی بن حاتم روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ آگ سے بچنے کا سامان کرسکتا ہوتو اسے ایسا کرلینا چاہیے(مسلم۱۰۱۶)۔اور حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت میں ہے کہ جوشخص صدقہ کرتا ہے خواہ وہ ایک کھجور کیوں نہ ہو اللہ تعالی اسے بڑے اہتمام کے ساتھ قبول فرماتا ہے،پھر وہ اللہ کے یہاں بڑھتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ ایک بڑے پہاڑ کے برابرہوجاتا ہے،ایسے ہی جیسے تمہارے پاس گھوڑے اور اونٹ کا بچہ پل کر بڑا ہوتا ہے(مسلم۱۰۱۴)۔یہ اور ایسی متعدد روایات ہیں جو یہ بتا تی ہیں کہ اللہ کے یہا ںاصل اہمیت نیت کی ہے،جو بھی اخلاص کے ساتھ جو کچھ میسر ہو اسمیں سے خرچ کرے خواہ وہ کتنا ہی تھوڑا ساکیوں نہ ہو،خواہ ادنی سامان ہو، اللہ اسے قبول فرماتا ہے اور اس پر بے حساب اجر سے نوازتا ہے۔
اب یہاں ہم آیات قرآنیہ کی روشنی میں انفاق کے مختلف معنی کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،مومنین و متقیوں کی مدح و توصیف میںجس کثرت سے قرآن مجید نے صفتِ انفاق کا تذکرہ کیا ہے اسی سے اسکی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ، یہاں سب سے پہلے قرآن مجیدکی وہ آیات دیکھیے جن میں انفاق کا حکم زکوٰۃ کے معنی میں آیا ہے،یہ بھی عجیب بات ہے کہ جہاں جہاں فرض زکوٰۃ کے معنی میں آیا ہے وہاں اسکو اقا مت ِصلوۃکے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ،سورہ بقرہ کی ابتدا ئی آیات میں ہی یہ حکم وارد ہے۔
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنہُمْ یُنْفِقُوْن ( بقرہ ۳)
(جو غیب پر ( یعنی ان حقائق پر جن کو نہ دیکھا ، اور نہ اپنے حواس سے محسوس کیا ، نبی کی تصدیق کی بنا پر ) ایمان لاتے ہیں ، اور نماز صحیح طور پر ( صحیح نیت اور مقصدیت کے ساتھ ) ادا کرتے ہیں ، اور جو بھی نعمتیں ہم نے انہیں دے رکھی ہیں ان میں سے خرچ کرتے ہیں ، ( ان کی زکوٰۃ اور ان کا حق ادا کرتے ہیں۔)
یعنی گزشتہ آیات میں جن متقیوں کا تذکرہ کیا گیا ان کی یہ خصوصیات ہیں کہ وہ غیب کی تمام خبروں پر ایمان لاتے ہیں،تصدیق کرتے ہیں،بہت اہتمام کے ساتھ نماز اداکرتے ہیں لفظ ’’یقیمون ‘‘کے استعمال سے یہی بات ثابت کرنا مقصود ہے کہ یہ متقی لوگ صرف نماز پڑھتے نہیں بلکہ خشوع اور اہتمام کے ساتھ نماز اداکرتے ہیں،اللہ تعالی نے ان کو جو مال عطا کیا اسمیں سے زکوۃ اداکرتے ہیں،صدقات نکالتے ہیں،صلہ رحمی کے لیے خرچ کرتے ہیں ،خیر کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں،گویا انہیں اس حقیقت کا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ یہ مال ان کے پاس خدا کی امانت ہے،اس لیے وہ صرف فرض زکوۃ ہی ادا نہیں کرتے بلکہ ضرورت کا لحاظ رکھتے ہوئے راہ خدا میںخرچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ،ٹھیک یہی بات سورہ انفال میں ارشاد فرمائی گئی۔
الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنہُمْ یُنْفِقُوْنَ ( انفال ۳)
( ان کامل ایمان والوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ نماز کو پورے اہتمام کے ساتھ اس کے وقت پر خشوع اور آداب کی رعایت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، اپنے اموال کی زکوٰۃ نکال کر مستحقین تک پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان کو جو اموال عطا کیے ہیں ان میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں، اسی طرح گویا وہ روح کی زکوٰۃ کے طور پر نماز ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔)
سورہ رعد میں اہل ایمان کی تعریف کرتے ہوئے وارد ہوا ہے کہ مومنین اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں،تمام معاملات اور عبادات میں امانت داری کا ثبوت دیتے ہیں،کسی طرح کی حیلہ بازی کرتے ہیں نہ عہد توڑ تے ہیں،جن رشتوں کو جوڑنے اور نبھانے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں نبھاتے ہیں اور ان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں،اعمال کا محاسبہ اور مغفرت نہ ہونے کے ڈر سے سہمے سہمے رہتے ہیں،ان مومنین کی یہ خصوصیات ہوتی ہے کہ یہ صبر کرتے ہیں،اللہ کی رضا کے طالب ہوتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں اور فرض زکوۃ کی ادائیگی کرتے ہیں،نفلی صدقات نکالتے ہیں،کبھی چھپ کر خرچ کرتے ہین کبھی کھل کر خرچ کرتے ہیں،کبھی برائی کر بیٹھیں تو نیکی کر کے اسکی تلافی کرتے ہیں،برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں،ایسے ہی لوگوں کے لیے بہترین انجام کی بشارت ہے۔
وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآء وَجْہِ رَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنہُمْ سِرًّا وَّ عَلانِیَۃً وَّ یَدْرَوْْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ( رعد۲۲)
(اور اپنے رب کی رضا مندی کے لیے صبر کرتے ہیں ، اور نمازیں پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے چھپ کر اور کھل کر خرچ کرتے ہیں ، اور برائی کو بھلائی کے ذریعہ دفع کرتے ہیں ، ان کو آخرت کا گھر ملے گا ۔)
سورہ قصص کی آیات ۵۲تا ۵۴ میں ایسے اہل کتاب کی تعریف کرتے ہوئے بھی کچھ اسی طرح کی بات ارشاد فرمائی گئی ہے جو قرآن مجید پر ایمان لائے اور تصدیق کی،منجملہ ان کی دیگرخصوصیات کے انفاق کو بھی ذکر کیا گیا اورفرمایا گیا:
اَلَّذِیْنَ ٰاتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ ، وَ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْہِمْ قَالُوْآ ٰامَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ، اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَوْْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنہُمْ یُنْفِقُوْنَ ( قصص۵۲۔۵۴)
(جن یہود و نصاری پر اللہ نے تورات و انجیل نازل کی تھی اور انھوں نے اس میں تحریف و تبدیلی نہیں کی تھی، وہ قرآن مجید کی تصدیق کرتے ہیں جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ۔ اور جب قرآن مجید کی آیات اہلِ کتاب مومنین پر تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتے ہیں: ہم اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم اقرار کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا نازل کیا ہوا ہے اور ہم اس کا اتباع کرتے ہیں اور یہ برحق ہے، اس سے پہلے سے ہم توحید پرست تھے، دینِ اسلام پر عمل پیرا تھے جوکہ تمام رسولوں کا دین ہے۔ سابقہ کتابوں ور قرآن مجید کی تصدیق کرنے والے اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ دو کتابوں پر ایمان لانے کی وجہ سے دوہرا اجر عطا فرمائے گا، اس لیے کہ وہ اطاعت پر جمنے والے اور معصیت سے بچنے والے تھے، وہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دفع کرتے ہیں، یعنی برائی کے بعد اس کے کفارہ کے لیے بھلائی کرتے ہیں، یا یہ کہ وہ برائی کا مقابلہ نیکی سے کرتے ہیں، اللہ نے انھیں جو مال دیا ہے اسے وہ اللہ کی رضا کے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ )
یہی بات ذر اسے دوسرے اسلوب میں سورہ فاطر میں فرمائی گئی ہے،قرآن مجید کی تلاوت اس کے فہم اور اسکے عمل کا یہ لازمی نتیجہ قرار دیا گیا ہے کہ قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے لوگ نہ صرف فرض زکوۃ ادا کرتے ہیں بلکہ چھپ چھپ کر نفلی صدقات کرتے ہیں کہ کوئی انہیں دیکھ نہ سکے،اور کبھی اخلاص نیت کے ساتھ کھلے عام خرچ کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی تحریک ملے اور وہ بھی خیر کے کاموں میں خرچ کرنے پرآمادہ ہوں،ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اﷲِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنہُمْ سِرًّا وَّ عَلانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ ( فاطر۲۹)
(جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں ، اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے چھپ کر اور کھل کر خرچ کرتے ہیں ، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں ، جو ہرگز تباہی کی شکار نہ ہوگی ۔ )
فرض زکوۃ اور اس کے ساتھ ساتھ نفلی صدقات کا متعدد آیات میں حکم دیا گیا ،اب سورہ بقرہ کی یہ آیت دیکھیے جس میں اہلِ ایمان کا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ وہ کیا خرچ کریں ، جواب میں اللہ نے بتایا کہ وہ تھوڑا خرچ کریں یا زیادہ خرچ کریں سب اللہ کے پاس محفوظ ہوگا ، اللہ سب جانتا ہے ، اسے دلوں کا حال معلوم ہے ، وہ مخلصین و ریاکاروں کی شناخت رکھتا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ کس پر خرچ کریں ،ارشاد فرمایا :
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْن قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ ﷲَ بِہٖ عَلِیْمٌ سورہ بقرہ (۲۱۵)
(لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیں کہ جو بھی مال تم خرچ کرو ، اسے والدین ، قریب ترین رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور تم جو بھی بھلائی کرتے ہو ، اللہ کے علم میں رہتی ہے ۔)
اسی مفہوم میں سورہ بقرہ کی یہ آیت بھی دیکھیے :
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ ﷲُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ ( بقرہ ۲۱۹)
(اے محمدﷺ یہ لوگ آپ سے شراب پینے اور جوا کھیلنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اس میں بڑا گناہ اور بڑا نقصان ہے، ہاں اس میں کچھ ہلکا پھلکا مادی فائدہ ہو تو ہو، لیکن اس حقیر فائدہ کے مقابلہ اس میں بڑی برائی اور بڑا خطرہ ، اور گناہ ہے، شراب پینے اور جوا کھیلنے کی یہ خرابیاں ہیں کہ عقل ماؤف ہوجاتی ہے، جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے، خون بہانے کا خوف ہوتا ہے، قتل وغارت کی نوبت آجاتی ہے، عزتیں داؤ پر لگ جاتی ہیں، گھر خاندان تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے، عزت لٹنے اور لوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے، یہ اور اس طرح کے بہت سے خطرات و نقصانات جوا و شراب کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں اور کیا نہ کریں اور کتنا مال روک لیں، آپ ان سے کہیے جو میسر ہو خرچ کرو، اپنی ضرورت سے زائد خرچ کر دو، اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہیں ہدایت دی ہے اسی طرح اس نے احکامات بھی کھول کھول کر بیان کر دیے ہیں، اس نے واضح کر دیا ہے کہ کیا حرام ہے اور کیا حلال ہے، کیا جائز ہے اور کیا ناجائز، کیا نفع بخش ہے اور کیا نقصان دہ، اپنے معاملات میں غور کرو اور دین کا فہم حاصل کرو تاکہ فلاح یاب و کامران ہو سکو۔ )
اسی سورہ میں آگے چل کر لوگوں کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ یہ جو زندگی ملی ہے اسکو غنیمت جانو اور جو مال ملا ہے اسے راہِ خدا میں خرچ کرو اور اپنی آخرت سنوارو، اس لیے کہ جب یہ زندگی ختم ہوجائے گی تو پھر آخرت میں نیکیاں ہی کام آئیں گی ، کوئی دوستی کام آسکے گی نہ دولت فدیہ بن سکے گی ، فرمایا گیا :
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّابَیْعٌ فِیْہِ وَ لاخُلَّۃٌ وَّ لاشَفَاعَۃٌ وَ الْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ( بقرہ ۲۵۴)
(اے ایمان والو! ہم نے تم کو جو کچھ دے رکھا ہے ، اس میں سے خرچ کرواس سے پہلے کہ وہ دن آجائے ، جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی ، اور نہ دوستی یاری اور نہ سفارش ، اور انکار کرنے والے (اپنے اوپر ہی ) ظلم کرنے والے ہیں ۔ )
______________
قسط : ۲
پھر مزید تین آیات میں مختلف پہلوؤں کی یوں وضاحت کی گئی :
وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ ﷲَ یَعْلَمُہٗ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ، اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْہَا وَتُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآء فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّئٰتِکُمْ وَ اﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ، لَیْسَ عَلَیْکَ ہُداٰہُمْ وَٰلکِنَّ اﷲَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلاَنْفُسِکُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآء وَجْہِ اﷲِ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لا تُظْلَمُوْنَ ( بقرہ۔۲۷۰۔۲۷۱۔۲۷۲)
(تم جو کچھ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو یا اللہ کے لیے نذر مانتے ہو اس پر اللہ تعالیٰ تم کو ثواب سے نوازے گا اس لیے کہ وہ جانتا ہے اور یہ سب تمھارے لیے وہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے، تمھیں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا اور تمھیں اسکی بڑی ضرورت ہوگی، البتہ وہ ظالم و غلط کار جو مال پر اللہ کی طرف سے فرض کی گئی زکوٰۃ دینے سے گریز کرے یااس طرح کے غلط کام کرے کل بروز قیامت کوئی اس کا مدد گار نہ ہوگا، اور کوئی اس کو عذابِ الہٰی سے نہ بچاسکے گا، ہر مجرم و غلط کار ظالم کے لیے بد ترین انجام اور بدترین ٹھکانہ ہے۔ اگر تم ریا اور شہرت سے قطع نظر علانیہ طور پر صدقہ و خیرات کرو تو بھی اچھا کام ہے اچھی بات ہے، شاید کہ دوسرے لوگ تمھارا اتباع کریں اور وہ بھی آگے بڑھ کے خرچ کریں، اور اگر تم چھپ کر خرچ کرو اور چپکے سے غریبوں محتاجوں کی مدد کرو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر و افضل ہے، کیونکہ اسمیں ریا اور شہرت طلبی کا امکان با لکل نہیں ہے، اور اس طریقہ سے تم جس پر خرچ کروگے اسکی حالت بھی لوگوں سے پوشیدہ رہے گی، اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات کی بدولت تمہارے گناہ معاف کرے گا اس لیے کہ وہ گناہ کا کفارہ ہے، وہ نیتوں سے واقف ہے، ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کس نے کیا عمل کیا خواہ کوئی علانیہ طور پر کرے یا چھپ چھپا پر کرے۔ اے محمد ﷺ آپ کی ذمہ داری لوگوں تک پیغام پہنچا نا ہے، آپ پر لوگوں کو ہدایت دینے اور اسلام میں داخل کر دینے کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ کام تو اللہ کا ہے، وہی ہے جو ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے، وہ اپنے دین کے لیے جسے چاہتا ہے اسے منتخب کرتا ہے، تو تم لوگ راہ خدا میں جو بھی مال خرچ کر تے ہو اپنے لیے کرتے ہو، اسکا ثواب تم کوہی ملے گا، یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تم کو بھر پور بدلہ عطا کرے گا، لہذا خالص اللہ کے لیے عمل کرو، ریا اور شہرت طلبی سے گریز کرو اور یہ سمجھ لو کہ تم جو بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسکا بدلہ خوب بڑھا کر عطا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمھاری نیکیوں میں کوئی کمی نہیں فرمائے گا اس لیے کہ وہ عدل کرنے والا ہے، وہ ظلم کرتا ہے اور نہ کسی کا حق مارتا ہے۔ )
سورہ آل عمران میں اہلِ تقوی کو جنت و مغفرت اور خوشنودی رب کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان متقیوں کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں اور یوں عرض کرتے ہیں ’’ اے اللہ ہم ایمان لائے ، ہماری مغفرت فرما ، ہمارے گناہوں سے درگذر فرما اورہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘، وہ اس دعا کے ذریعہ پہلے اپنے رب کے حضور اپنے ایمان کا اعتراف کرتے ہیں جو کہ اللہ کا حق ہے ، پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور پھر دوزخ سے نجات طلب کرتے ہیں ،آگے ان کی مزید صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ یہ لوگ صبر کرنے والے ہوتے ہیں ، طاعات پر جمنے والے ہوتے ہیں ، چیلنجز کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں خواہ تکلیف و آزمائش کا چیلنج ہو یا شدت و مصائب و تنگ حالی کا چیلنج ، یہ سچے اور کھرے ہوتے ہیں ، قول و عمل سے اپنے کھرے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ، اوامر پر عمل کرتے ہیں اور منہیات سے بچتے ہیں ، راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور جب سارا عالم سوتا ہے تب یہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوکر اپنی مغفرت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ارشاد ہے :
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(اٰل عمران ۱۷)
(جو صبر کرنے والے ہیں ، سچے کھرے ہیں ، خشوع و خضوع اختیار کرنے والے ہیں ، خرچ کرنے والے ہیں اور وقتِ سحر استغفار کرنے والے ہیں۔ )
اسی سورہ میں آگے فرمایا گیا کہ نیکی و صلاح کا اعلیٰ مقام اس وقت تک نہیں حاصل ہو سکتا جب تک کہ اپنی پسند اور اپنے لیے ترجیح دیے جانے والے محبوب مال میں سے نہ خرچ کیا جائے اور اس آیت میں بھی اللہ نے آخر میں اپنی صفتِ علم کا ذکر کیا تاکہ خرچ کرنے والے کو مستحضر رہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ کون شہرت و دکھاوے کے لیے خرچ کررہا ہے ، کون مدح و ستائش کے لیے خرچ کر رہا ہے اور کون اخلاص نیت کے ساتھ مدارجِ تقوی کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے عمل کررہا ہے ، ارشاد ہے :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اﷲَ بِہٖ عَلِیْمٌ(آل عمران۹۲)
(اور تمہیں نیکی اور صلاح اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ، اور تم جو بھی خرچ کرتے ہو ، اللہ اس کو جانتا ہے ۔)
اسی سورہ میں آگے اہل ایمان و تقویٰ کو مغفرت و جنت کی طرف لپکنے کی دعوت دی گئی اور فرمایا گیا کہ دائمی عیش اور حقیقی کامیابی حاصل کرنے کی جلدی کرو اور جنت کی طرف لپکو جو متقیوں کے لئے آراستہ کی گئی ہے، پھر اگلی آیت میں متقیوں کی تعریف وتوصیف بیان کی گئی کہ آخر وہ کون تھے جن کے لیے جنت آراستہ کی گئی ہے، ارشاد فرمایا:
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآء وَ الضَّرَّآء وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ( آلِ عمران ۱۳۴)
(ان نیکو کاروں اور مقربینِ بارگاہِ الٰہی کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں کہ وہ خوشحالی وتنگدستی ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، انھیں خدا کی محبت اور اس کی رضا کی چاہت کسی حال میں بھی مال خرچ کرنے سے رکنے نہیں دیتی خواہ فقر میں مبتلا ہوںیا تنگی میں، یاخوشحالی میں، وسعت اور مالداری سے ان کے اندر نہ لالچ پیدا ہوتی ہے نہ گھمنڈ اور نہ مال کو روکنے اور جمع کرنے کی ہوس، وہ اپنے نفس پر قابو پالیتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، اسی طرح غصہ کے وقت وہ نفس پر قابو پالیتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں، بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی صفات یہ ہیں کہ ان پر جو ظلم کرتا ہے اسے معاف کردیتے ہیں، درگزر سے کام لیتے ہیں، وہ رحمٰن کے عفو ودرگزر کی امید میںمعاف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، خدا کے عقاب کے خوف سے لوگوں سے بدلہ نہیں لیتے، یہ دراصل صفتِ احسان ہے ،اور اللہ بھلے کام کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ خود بھی احسان فرماتا ہے اور خوب عطا فرماتا ہے، نافرمانی کرنے والوں سے درگزر فرماتا ہے بلکہ خطا کرنے والوں کے ساتھ بھی احسان فرماتا ہے، بلکہ انسان کی تکریم کرکے اور لوگوں کو نفع پہنچاکر وہ احسان در احسان فرماتا ہے، روایت میں ہے ’’ان اللہ أمرنی أن أصل من قطعنی وأن أعطی من حرمنی وأن أعفو عمن ظلمنی‘‘ بیشک اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو مجھ سے رشتہ توڑے میں اس سے جوڑوں، جو مجھے محروم کرے میں اس کو عطا کروں، جو مجھ پر ظلم کرے میں اس کو معاف کروں۔)
یہ بھی قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے کی ایک دلیل ہے کہ ایک طرف خرچ کرنے پر ابھارتا ہے، اس کے بہترین نتائج و ثمرات سے آگاہ کرتا ہے، دوسری طرف بخل و اسراف سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، سورۂ فرقان کی آخری آیات کی تفسیر میں آپ اس بابت ایک جامع نوٹ پڑھ آئے ہیں، تیسری طرف قرآن ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی دعوت دیتے ہیں، پھر ان لوگوں کا تذکرہ کرتا ہے جو خرچ تو کرتے ہیں مگر دکھاوے کے لئے اور تعریفیں لوٹنے کے لئے کرتے ہیں، ریا کاری کرتے ہیں کیونکہ انہیں اللہ کے یہاں ملنے والے اجر و ثواب کی امید ہوتی ہے، نہ ثواب کا یقین، سورہ نساء کی آیت ۳۷ و۳۸ میں ان کا تذکرہ کرنے کے بعدیہ ارشادفرمایا:
وَ مَاذَا عَلَیْہِمْ لَوْ ٰامَنُوْا بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَہُمُ اﷲُ وَ کَانَ اﷲُ بِہِمْ عَلِیْمًا(نسائ۳۹)
( ان کا کیا بگڑ جاتا اگر یہ کتاب اللہ کی تصدیق کرتے اور رسول پر ایمان لے آتے اور یوم آخرت کے لیے عمل کرتے، اپنے قول و عمل میں سچے اور مخلص ہوتے، پھر ان کی بڑی تعریف ہوتی، اجرِ عظیم ملتا، اللہ کے یہاں سُرخرو ہوتے، ان کا کیا چلاجاتا اگر یہ اللہ کے دیے گئے مال میں سے خود اپنی خاطر اچھے کاموں میں خرچ کرتے، کیوں کہ ان کا صدقہ خود ان کے دلوں کو پاک کرتا، ان کو عزت عطا کرتا اور ان کے مال ودولت میں اصافہ کا سبب ہوتا، اللہ ہی نے ان کو اپنے فضل سے یہ مال عطا فرمایا ہے اور وہی اس میں اضافہ فرمائے گا، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، آیت میں چونکہ نیت اور مقصد سے متعلق گفتگو تھی اس لیے اللہ نے اپنی صفت علم کا تذکرہ کیا، اس لیے کہ وہ ڈھکی چھپی اور چھوٹی بڑی ہر بات کا علم رکھتا ہے اور تمام رازوں سے واقف ہے۔)
سورۂ سجدہ میں مؤمنین کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان کو جو کچھ مال و دولت اور جو بھی رزق عطا فرمایا گیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں، ارشاد فرمایا گیا:
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰٰیتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِہَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَ ہُمْ لا یَسْتَکْبِرُوْنَ، تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُم ْعَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن (سجدہ ۱۵۔۱۶)
(ہماری آیتوں کو جو لوگ مانتے ہیں ، ان کو جب ان کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے ، تو وہ سجدہ میں گرپڑتے ہیں اور اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں لگ جاتے ہیں ، اور تکبر نہیں کرتے ۔ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں ، (وہ تہجد کے لیے اٹھتے ہیں ) اور اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں ، اور ہم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔)
سورۂ سبا میں اپنی دنیا میں مست و مگن لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ رزق میں تنگی اور فراخی سب اللہ تعالی کی مشیئت کے تابع ہے، وہ جس کو چاہتا ہے فراخی عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگدست و تنگ حال کر دیتا ہے، تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اللہ اس کے بدلہ میں تمہیں دنیا میں بھی مال و متاع عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی اجر عظیم سے نوازے گا۔ فرمایا گیا:
قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآء مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَہٗ وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَہُوَ یُخْلِفُہ وَ ہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ سبا۳۹)
(کہہ دیجئے کہ رزق کی کشائش و تنگی کا فیصلہ اپنے بندوں کے لیے میرا پروردگار اپنی مشیئت سے کرتا ہے ، اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو ، وہ اس کے بدل کا انتظام فرماتا ہے ، وہ بہترین عطا فرمانے والا ہے ۔ )
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینے کی ہے رزق صرف کھانے پینے کی اشیاء اور روزی کو ہی نہیں کہتے بلکہ اللہ تعالی نے انسان کو جو کچھ بھی مادی و معنوی نعمتیں عطا کی ہیں، مال و دولت، عزت و شہرت، وسائل و مناصب، قدرت و صلاحیت، محبت و مقبولیت عطا فرمائی ہے ان سب پر اس کا اطلاق ہو تا ہے، یہ الگ بات ہے کہ روزی ہی اس کے خاص معنٰی ہیں، لیکن اس کا عام معنی عطاوعطایا ہے، انسان کو عقل، قوتِ سماعت وبصارت اور قوتِ گویائی کی جو نعمتیں ملیں یہ سب اسی زمرے میں آتی ہیں، ایک انسان مال سے کسی کی مدد نہیں کر سکتا لیکن ہاتھ سے تعاون کرتا ہے تو ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دیتا ہے یامنہ سے بھلی بات کہتا ہے تو صدقہ کا ثواب پاتا ہے۔
سورہ حدید میں ایمان لانے اور اتباع رسول ﷺ کا مطالبہ کرتے ہوئے خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ جو بھی مال و دولت تمہارے پاس ہے وہ دراصل اللہ کا فضل و انعام اور اس کی ملکیت ہے، اللہ نے ہی تمہیں اس مال کا وارث بنایا ہے، فرمایا گیا:
ٰامِنُوْا بِاﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ فَالَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مِنْکُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ( حدید ۷)
(اے لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ، اور جن چیزوں کی ملکیت پچھلی نسل سے اس نے تمہاری طرف منتقل کی ہے اور جن کا تمہیں ذمہ دار اور نمائندہ بنایا ہے ، ان میں سے خرچ کرو ، تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں گے اور خرچ کریں گے ، ان کو بڑا اجر ملے گا ۔ )
سورہ منافقون میں اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ اللہ نے جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو اور نیکیاں کماؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اچانک موت آ دبوچے اور تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ کہ کاش مہلت مل جاتی تو میں بھی خیر خیرات کرتا، صدقہ کرتا اور اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرتا، فرمایا:
وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لا اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ( منافقون ۱۰)
(اور ہم نے جو بھی تم کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی پر موت طاری ہو اور وہ کہے کہ اے میرے مالک ! کیوں نہ مجھے ایک قریبی مدت تک مہلت عطا فرمادی ، کہ میں صدقات ادا کرتا ، اور نیک و صالح بن جاتا ۔ )
سورہ تغابن میں اس حقیقت کو اس انداز سے واضح کیا گیا کہ جس قدر ہوسکے اللہ کی اطاعت کرو، اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرو، یاد رکھو کہ تم جو کچھ خرچ کروگے اس کے بہترین ثمرات و نتائج تم ہی کو ملیں گے، انفاق کے سبب تمہارے مال میں اضافہ ہوگا، تمہیں اجر عظیم سے نوازا جائے گا، دل اور مال دونوں کی صفائی ہو گی، اس لئے کہ فی الحقیقت کامیاب وہ شخص ہے جس کو بخل و حرص سے بچا لیا جائے اور احسان کی صفت سے نواز دیا جائے:
فَاتَّقُوا اﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لانْفُسِکُم وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ( تغابن ۱۶)
(اس لیے اللہ کے احکام کا جہاں تک ممکن ہو سکے لحاظ رکھو ، اور سنو اور مانو ، اور خرچ کرو ، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ، اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل و حرص اور دل کی تنگی سے بچا لیے جاتے ہیں ، وہی کامیاب اور کامران ہوتے ہیں ۔ )
جہاد کے لیے خاص طور پر انفاق کا حکم دیا گیا، متعدد آیات میں تلقین کی گئی کہ اللہ کے راستے میں اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے، اس کے دین کی نصرت کے لئے اپنا مال خرچ کرو، اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کو دعوت نہ دو، اس لیے کہ اگر تم جہاد کی خاطر، اعداد قوت کی خاطر اپنا مال خرچ نہیں کرو گے تو تمہارے دشمن طاقتور ہوں گے اور تم پر غالب آئیں گے، جہاد کے لیے خرچ کرنے کے فضائل بیان کیے گئے، دکھاوا کرنے، احسان جتانے، تلخی دکھا کر، توہین کرکے، ناک بھوں چڑھا کر خرچ کرنے سے منع کیا گیا، کیونکہ ان چیزوں سے اچھا عمل بھی اکارت جاتا ہے، ایسے مؤمنین جو کمزوری، مرض یا تنگدست ہونے کے سبب راہ خدا میں خرچ کرنے سے قاصر ہوں، باوجود اس کے کہ وہ بھی کلمہ اسلام کی بلندی کے لیے اپنا مال نچھاور کرنے کی حرص رکھتے ہوں اور نہ کر پانے کے سبب غمزدہ ہوں، انہیں محسنین و مخلصین میں شمار کیا گیا، جہاد میں انفاق کے ان تمام مضامین کو سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۵ پھر ۲۶۱ تا۲۶۵، سورہ انفال۵۹۔ ۶۰ اور سورہ توبہ کی آیت ۹۰۔۹۲ میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ بات گزر چکی ہے کہ منافقین مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے تھے، اس کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے تھے ،اگر بادلِ نا خواستہ کچھ انفاق کرتے بھی تھے تو محض نفاق چھپانے کے لیے دکھاوے کی خاطر کر دیتے تھے، ان کی نفرت اور بغض و حسد کا یہ عالم ہوتا تھا کہ وہ اہل ایمان کی تباہی وشکست کے منتظر رہتے تھے۔
وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِکُمُ الدَّوَآئِرَ عَلَیْہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْء وَ اﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( توبہ ۹۸)
(انہیں بدّؤوں میں ایسے لوگ ہیں، جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے جرمانہ سمجھتے ہیں ، اور تمہارے خلاف کارروائیوں کے منتظر رہتے ہیں ، ان پر ان کی بدی کی مصیبت آنی ہے ، اور اللہ تو سب کچھ سن رہا ہے ۔ )
_________________
قسط: آخری
ان منافقین کے یہاں مال ہی سب کچھ ہوتا ہے، یہ حرص و ہوس کے مارے ہوتے ہیں، مال و زر کے حصول کی خاطر خود کو مسلمان ثابت کرتے ہیں، اسی لیے یہ دوسرے کے لیے بھی یہی تصور رکھتے تھے کہ مال نہ خرچ کیا جائے تو مسلمان اسلام اور پیغمبر اسلام کو تنہا چھوڑ دیں گے اور ان سے جدا ہو جائیں گے، چنانچہ یہ منافقین انصار سے کہتے تھے کہ مہاجرین پر مت خرچ کرو تو یہ سب فقر و فاقہ سے مجبور ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے، حالانکہ ان عقل کے ماروں کو یہ حقیقت معلوم نہیں تھی کہ رزق کے خزانے تو اللہ کے پاس ہیں، فرمایا گیا:
ھمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ ٰلکِنَّ الْمُنفِقِیْنَ لا یَفْقَہُوْنَ ( منافقون ۷)
(یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے پیغمبر کے پاس( اور ان کے ساتھ) جو لوگ ہیں ان پر خرچ مت کرو، تاکہ یہ چھٹ جائیں ، (ان کی جمعیت پارہ پارہ ہاجائے ) حالانکہ آسمانوں اور زمین کے تمام خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، لیکن یہ منافق بے عقل ہیں ۔ )
ان منافقین کا حال سورہ توبہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اللہ اگر ہمیں مال عطا کر دے تو ہم بھی راہِ خدا میں خرچ کریں گے ، لیکن جب انھیں خوشحالی میسر آتی ہے تو اپنے ہی عہد و پیمان کو بھول جاتے ہیں ، کنجوسی کرتے ہیں ، خرچ کرنے سے کتراتے ہیں مال کی چاہت میں ان کا یہی بخل موت تک ان کے دلوں میں نفاق کے بسیرا کرنے کا سبب بن جاتا ہے :
وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اﷲَ لَئِنْ ٰاتنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ، فَلَمَّآ ٰاٰتہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَ تَوَلَّوا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ، فَاَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِہِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اﷲَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ( توبہ ۷۵-۷۷)
(ان میں سے وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا ، تو ضرور ہم صدقہ خیرات دیں گے، اور نیکی اور تقوی اختیار کریں گے ۔ پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا ، تو بخل کرنے لگے ، اور رخ پھیر لیا ، اور یہ (حق سے ) اعراض کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ تو اللہ نے اس کے بعد ان کے دلوں میں تا قیامت جب یہ اللہ کے حضور پیش ہوں گے نفاق ڈال دیا ، یہ اس لیے کیا گیا کہ انہوں نے جو عہد اللہ سے کیا تھا اس کی خلاف ورزی کرتے رہے ، اور جھوٹ بولتے رہے ۔)
ان کے بخیلی اور بددلی کے ساتھ خرچ کرنے کے کردار کو وہاں بھی بیان کیا گیا ہے جہاں یوں واضح کیا گیا ہے کہ یہ منافق اصلا کافر ہیں، اسی لیے یہ مارے باندھے کی نماز جو پڑھتے ہیں وہ محض دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں :
وَ مَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقتُہُمْاٰ اِلَّا اَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاﷲِ وَ بِرَسُوْلِہٖ وَ لا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ھمْ کُسَالٰی وَ لا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ ھمْ کٰرِہُوْنَ ( توبہ۵۴)
(ان کے صدقات قبول کرنے سے جو چیز مانع ہے وہ یہ کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں ، نماز میں مارے باندھے ، کسل مندی سے آتے ہیں ، اور ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ۔)
سورہ محمد میں اس مضمون کو کھول کر بیان کیا گیا کہ کہ تم میں سے جو بخل کرے گا وہ درحقیقت اپنے کو ہی نیکی اور اجر و ثواب سے محروم کرے گا، اللہ تو بے نیاز ہے، بندے اس کے محتاج ہیں، اس کو صدقات کی ضرورت نہیں، وہ تو خود نوازتا ہے، وہ رازق و رزاق ہے، اس لئے جو خرچ کرنے کے بجائے بخل کرتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو محروم کرتا ہے:
ہٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلاء تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ فَمِنْکُمْ مَّنْ یَّبْخَل وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہ وَ اﷲُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآء وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ ( محمد ۳۸)
(اور دیکھو تم کو اس کی دعوت دی جارہی ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو ، تو تم میں سے بعض بخل سے کام لیتے ہیں ، اور جو بخل کرتا ہے وہ اپنے ساتھ بخل کرتا ہے ، اللہ تو بے نیاز ہے تم (اللہ کے در کے ) فقیر ہو ، اور اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تمہارے علاوہ دوسری قوم کو تمہاری جگہ پر لے آئے گا ، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے ۔)
انفاق کا استعمال قرآن مجید میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کے لیے بھی ہوا ہے، اہل و عیال پر خرچ کرنا ان کی کفالت کرنا ایک ذمہ داری بھی ہے اور اس کے بڑے فضائل بھی ہیں، ابو مسعودبدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتا ہے تو اس کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے (مسلم ۱۰۰۲) درحقیقت صدقہ و انفاق میں سارا مسئلہ نیت کا ہی ہے، امام شعبیؒ نے یہاں تک فرما دیا کہ’’ جو شخص صدقہ کرنے پر خودکو اس قدر ثواب و اجر کا محتاج نہیں سمجھتا جس قدر فقیر خود کو صدقہ کا محتاج سمجھتا ہے تو اپنے صدقہ کو اکارت کر دیتا ہے، اس کا صدقہ اس کے منہ پر مار دیا جائے گا ‘‘(نضرۃ النعیم ، الصدقہ ۔)
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اہل و عیال پر خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، عورتوں کا نفقہ ادا کرنے کے معنی میں بھی اس لفظ کو سورۂ ممتحنہ اور سورۃ طلاق میں استعمال کیا گیا ہے، مردوں کو عورتوں پر جو یک گونہ فوقیت دی گئی ہے اور ان پر ذمہ داری ڈالتے ہوئے انہیں عورتوں کا محافظ مقرر کیا گیا ہے، اس کی بھی دو وجہیں قرآن مجید ذکر کرتا ہے ایک یہ کہ مرد کماتا ہے، خرچ کرتا ہے، اس پر عورت کے نفقہ کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، سورہ نساء میں ارشاد ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ ﷲُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ فَالصّٰلِحٰتُِ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اﷲُ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوزَهنَّ فَعِظُوْهنَّ وَ اہْجُرُوْهنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلا تَبْغُوْا عَلَیْہِنَّ سَبِیْلا اِنَّ ﷲَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا(نسائ۳۴)
(مرد اس بنا پر ، کہ اللہ تعالی نے ان کو عوروتوں کے مقابلے میں مزید صلاحیتوں سے نوازا ہے ، اور کیونکہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں عورتوں کے ذمہ دار ہیں ( گھر کے انتظامات کی ذمہ داری انہیں پر ہے ) نیک خواتین ، اطاعت شعار ہوتی ہیں اور شوہر کے پیچھے -اللہ کی حفاظت کے سہارے -مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہیں ۔ جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں تجربہ ہو ، انہیں سمجھاؤ ، بجھاؤ ( اس سے کام نہ چلے ) تو بستروں میں علیحدگی اختیار کر لو اور(اس سے بھی کام نہ چلے تو) تادیب کرو ،پھر اگر وہ اطاعت کرنے لگے ، تو پھر زیادتی کا کوئی ارادہ مت کرنا ، ( اور کسی موقع کی تلاش میں نہ رہنا ) بے شک اللہ سب پر بلند ہے اور وہی بڑا ہے ، ( اس کی نافرمانی کسی حال میں نہ ہو ۔)
عہد جاہلیت میں لوگ اولادوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل کر دیتے تھے، انہیں اس جرم سے روکا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ اولاد پر تم جو کچھ خرچ کرتے ہو وہ تمہاری ملکیت نہیں ہے، اور نہ ہی ان کے رزق کی ذمہ داری تم پر ہے ،بلکہ اللہ ہے جو تم کو بھی رزق دیتا ہے اور ان کے رزق کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے:
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لا تَقْتُلُوْا اَوْلادَکُمْ مِّنْ اِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاہُمْ وَ لا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(انعام۱۵۱)
(کہہ دیجئے ان سے ، کہ آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا حرام کیا ہے ؟ (اور کیا فرض کیا ہے ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور فقر کی بنیاد پر اولاد کو قتل مت کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی ، اور بے حیائیوں اور بڑے بڑے گناہوں کے قریب نہ پھٹکو ، کھلے ہوں یا چھپے ، اور کسی کی جان نہ لو ، جس کی جان لینے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، إلّا یہ کہ حق کا تقاضا ہو ( مثلًا قصاص میں کسی کو مارا جائے ) اس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ عقل و ہوش سے کام لو ۔)
یہی بات سورہ اسراء میں اس طرح فرمائی گئی
وَ لا تَقْتُلُوْآ اَوْلادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا( اسرائ۳۱)
(اور جب تم کو اس کا یقین ہے کہ اللہ ہی رازق ہے تو اپنی اولادوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل نہ کرو، ان کا رزق تمہارے ذمہ نہیں بلکہ اللہ ہی کے ذمہ ہے، وہی اولاد، والدین، اجداد، احفاد سب کو روزی دیتا ہے، اولاد کا قتل بہت بڑا جرم اور بدترین گناہ ہے، اولاد کو رزق دینے کا ذکر آباء سے پہلے کرنے سے اولاد کو قتل نہ کرنے کے حکم میں مزید تاکید پیدا ہوتی ہے، اس لیے کہ اللہ ہی سب کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ )
یہاں انفاق و صدقہ کی قرآنی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، آپ نے دیکھا قرآن مجید میں درجنوں مرتبہ اس کا ذکر کیا گیا ہے، مومنین کی مدح اور منافقین کی مذمت میں اس وصف کو خاص اہمیت حاصل ہے، ہمیں خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ بہترین صدقہ تو تب ہے جب اپنی ضرورت کے باوجود کیا جائے، صدقہ و انفاق کا تعلق ہرگزمال وراثت قلت و کثرت سے نہیں ہے، اخلاص کے ساتھ خرچ کی ہوئی ایک پائی پہاڑ کے برابر ثواب کا ذریعہ اور باعثِ نجات بن سکتی ہے، یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ جب ہم خیر کے کاموں میں خرچ کرنے، نفلی صدقات کرنے کا ارادہ کریں تو دیکھیں کہ کہاں خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، خیر کا کوئی کام معمولی نہیں مگر سب سے اہم وہ ہے جو سب سے ضروری ہو، خرچ کرنے میں قرابت داروں کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ان پر خرچ کرنے کا دوہرا ثواب ہے، ایک صدقہ کا اوردوسرا قرابت داروں سے حسن سلوک کا،ہمیں حکم حصول جنت کے لیے ،جہنم سے بچنے کے لیے، صلحاء اور متقیوں کے اس امتیازی وصف کو اپنی زندگیوں میں لانے کی کوشش کرنا چاہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خاص صفت سے اپنی زندگیوں کو آراستہ کرنا چاہیے، خرچ کرنے سے شخصیت سنورتی ہے، معاشرہ میں سکون پنپتا ہے، لوگوں کی محبت حاصل ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی سعادتوں کے ساتھ اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے، اور یہی مومن کی اصل کامیابی اور معراج کمال ہے۔