✍️ مولانا رضی احمد مصباحی
_________________
فراٹے کے ساتھ…..
تیز دوڑتی اور پھسلتی زبان ،
شتابدی سے بھی تیز ،
راجدھانی سے بھی آگے ،
ہوائ جہاز کی رفتار کا مقابلہ کرنے والی زبان ،
کیا پڑھ رہی ہے پتہ نہیں ؟
مگر پڑھے جارہی ہے ،پڑھے جا رہی ہے۔
بہت غور سے سننے کے بعد یا کبھی رفتار کم ہو تو لگتا ہے کہ ہاں حافظ صاحب قرآنی آیات کی تلاوت فرمارہے ہیں۔
بہت حیرت ہوتی ہے جب لوگوں کو قرآن جلد سننے کے بعد فخریہ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ،
جو نا تو قرآنی الفاظ کے معانی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ناہی مفاہیم آیات سے ان کے کوئ مطالب وابستہ ہوتے ہیں۔
میرے ایک دوست ہیں جو بہت اچھے حافظ ہیں ، میں نے ان سے ایک دن پوچھا ، یار تم اچھے حافظ قرآن ہو تراویح کیوں نہیں سناتے ہو ؟
موصوف نے اس کے جواب میں جب راز سے پردہ اٹھایا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
میرے دوست نے بتایا کہ دیکھو آج کے زمانے میں ہمارے ملک میں جو تراویح رائج ہے اس میں ثواب کا تو سوال ہی نہیں ، الٹا قرآن کی لعنت سنانے والے کے نصیبے میں بھی آتی ہے اور سننے والے کے بھی،
تم لوگ عالم ہو جانتے ہوگے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے”
آج تم جتنے بھی تراویح میں قرآن سنانے والے حفاظ سے مل لو کسی کا مطمح نظر یہ نہیں ہوتا کہ ہم قرآن پڑھ کر ثواب حاصل کریں گے.
*۔الاماشاءاللہ*۔
اکثر تراویح میں ملنے والی رقوم کی لالچ میں تراویح کے لئے محنت کرتے ہیں۔
ہزار کوشش کے باوجود بھی مجھے اس بات کے تاریخی شواہد نہیں ملے کہ ہمارے ہندوستان میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر برق رفتاری سے تراویح میں قرآن پڑھنے کی رسم کب اور کہاں سے شروع ہوئ ؟
اور علماءکرام اور مفتیان عظام نے اس بات کی طرف توجہ کیوں نہیں دی کہ اتنی تیز رفتاری سے قرآن پڑھنے کے فوائدونقصانات کیا ہیں ہمارے مذہب مقدس میں اس نہج پر اس عظیم ترین کتاب کی تلاوت جائز بھی ہے کہ نہیں…..؟
خود قرآن جس فصاحت بلاغت کے بلند وبالا معیار کے ساتھ سب سے اونچے رتبے کے فصیح وبلیغ کی طرف سے تخلیقی کائنات کے ابلغ وافصح ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، کیا ان سے ایک بھی روایت ایسی ملتی ہے کہ آقائے کریم علیہ الصلوہ والتسلیم نے آندھی طوفان کی طرح برق رفتاری سے قرآن پڑھا ہو یا اپنے کسی بھی جان نثار کو پڑھنے کی اجارت بھی دی ہو ۔
ہمیں تو کئی آیتیں ایسی ملتی ہیں جس میں آہستہ ، ٹھہر کراور اس کے اسرار ورموزکی طرف توجہ دے کر پڑھنے کی تاکید ملتی ہے ،
آقاء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر یاد کرنے کے لئے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنا چاہا تو اللہ تبارک وتعالی نے اس سے بھی منع فرمادیا
*” ان علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قرانہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ "*
خود سوچئے جس پر قرآن نازل ہوا جب اسے بھی مصلحتا قرآن جلد جلد پڑھنے کی اجازت نہیں تو ایک عام شخص کو جسے مفہوم قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیون کر قرآن کی توہیں کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟
*” ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ "*
آہستگی کے ساتھ ٹھہر کر پڑھنے کی تاکید کی:
*” ورتل القرآن ترتیلا "* کہ قواعد و تجاوید کی رعایت کرتے ہوئے مکمل آہستگی کے ساتھ رک رک کر تلاوت کی جائے۔
سورہ دخان کی آیت:
*” وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجورا "*
کےتحت مفسرین فرماتے ہیں اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میری امت قرآن کے معانی میں غوروفکر کرنا چھوڑ دے گی ۔
سوچئے !جس برق رفتاری سے ہمارے ہندوستانی ریل حافظ اور ہوائ جہاز حافظ قرآن پڑھتے ہیں کیا قرآن کے الفاظ کے معانی سمجھنا ممکن ہیں ؟؟
جس طرز پر قرآن پڑھنے سے خود قرآن لعنت کرے،
پڑھنے اور سننے سے کیا فائدہ ؟؟
ایک مخصوص جماعت نے بڑی چالاکی سے قوم مسلم میں یہ گمراہی پھیلا کر اس بدعت سیئہ کا سہرا بھی اپنے سر باندھا ہے ۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالی علیہ کا ایک واقعہ اس تعلق سے بڑا ہی سبق آموز ہے ، ان سے کسی نے شکایت کی کہ آپ کا فلاں شاگرد عشاء کے بعد کھڑا ہوتا ہے اور فجر سے پہلے نوافل میں پورا ایک قرآن پاک ختم کر لیتا ہے ،
امام صاحب بنفس نفیس اس شاگرد کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ ایسا ایسا آپ کے متعلق سن رہا ہوں کیا صحیح ہے ؟
شاگرد نے اثبات میں جواب دیا آپ نے فرمایا آج رات جب آپ قرآن پڑھنے کھڑے ہوں تو تصور کیجیے گا کہ آپ قرآن مجھے سنا رہے ہو ،
اگلے دن امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا کہیے کیسا رہا ؟
شاگرد نے جواب دیا حضور آج تو صرف دس پارے ہی پڑھ سکا ،
آپ نے اگلا سبق دے دیا فرمایا آج کھڑے ہونا تو تصور کرنا کہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنا رہا ہوں ،
اگلے دن امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا سنائے کیسا رہا ؟،
شاگرد نے جواب دیا حضور اس کیفیت کے ساتھ تو میں ایک پارہ بھی ایک رات میں نہیں پڑھ سکا ۔
آپ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر اگلا سبق دے دیا ، آپ نے فرمان بردار شاگرد کو حکم کیا کہ آج پڑھنے کے لئے کھڑے ہونا تو یہ تصور کرکے پڑھنا کہ خود رب تبارک وتعالی کو قرآن سنا رہا ہوں ،
اب اگلے دن استاذ محترم کے حالات پوچھنے پر شاگرد نے جو جواب دیا وہ بڑا تعجب خیز ہے اس نے کہا حضور:
” آج پوری رات اس تصور کے ساتھ سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی نہیں کر سکا۔
ہمارے دین متین میں ہر شئی کا حق متعین ہے ،
قرآن کا حق کیا ہے ؟
یہ بات ذہن میں رہے کہ جس قدر کسی شئی کے حق کا درجہ کم ہوگا اسی درجہ ثواب بھی کم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔
ادنی درجا میں قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر، صاف صاف ، اطمنان سے ، خشوع وخضوع اور تجاوید قواعد کے ساتھ پڑھا جائے ۔
کیا رمضان کے مبارک مہینے میں ہمارے حفاظ قرآن کا ادنی حق بھی ادا کر رہے ہیں ؟؟
جن حفاظ کو ایک رات میں کم از کم پانچ /5 پارہ پڑھنا ہوتا ہے کبھی ان سے پوچھئے ! خشوع و خضوع ، تضرع ، انکساری اور قواعدو تجاوید کا گذر بھی ان کے دلوں پر ہوتا ہے ؟
یہ پانچ پارے بھی جب بیس رکعت نماز تراویح میں پڑھنا ہوں توذہن ودماغ کی کیفیات کا کیا حال ہوتا ہے وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو قرآن کی لعنت کا طوق اپنے گلے میں لٹکانے کے شوقین ہیں ۔
کیا آج کے زمانے میں منصب افتاء اور بلند وبالا علمی مسند پر قابض حضرات امام مالک رحمہ اللہ کی سنت پر عمل کر کے قوم میں رائج ہوچکی اس بدعت سیئہ پر پابندی نہیں لگا سکتے ؟
کوشش کریں تو ضرور لگا سکتے ہیں ۔
سوچیئے!_______ کہیں قوم کی تباہی اور بربادی کی ایک وجہ یہ بھی تو نہیں کہ اللہ کا مقدس کلام مہینے بھر مسلمانوں کی بڑی جماعت پر لعنت بھیجتا ہے.
فاعتبروا یااولی الابصار