Site icon

ہندستانیت بنام ہندوتو

عبدالحمید نعمانی

✍️ مولاناعبدالحمید نعمانی

______________

بھارت میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے، جسے سنجیدگی اور دیانت داری سے سمجھنے اور دیگر کو سمجھانے کی ضرورت ہے، دونوں طرف سے جاری سرگرمیوں اور کوششوں کے نتائج و اثرات، ملک کے ماحول میں یقینی طور سے بر آمد و مرتب ہوں گے، تاہم یہ  تو یقین و وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مثبت و پائیدار نتائج، ہندوتو کے خلاف اور ہندستانی روایات پر مبنی مشترکہ طرز حیات کے حق میں بر آمد ہوں گے، ساورکر نے اپنی کتاب، ہندوتو،میں ہندو مت کو ہندوتو کے مقابلے میں کم تر اور ہندوتو کے جز۶ کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ساورکر کے مفروضہ تصور کی تائید و توثیق قدیم سے جاری ہندستانی روایات سے بالکل بھی نہیں ہوتی ہے، بھارت کی خصوصیت و شناخت، نظریے میں آزادی اور زندگی کے تنوعات ہیں، شیو، رام، کرشن، گوتم کے تعلق سے موجود روایات میں نفرت و تفریق کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، ان کے نام، نعرے اور گمراہ کن پروپیگنڈا کو موجود روایات کے حوالے سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے، ہندستانی ماحول میں، اسلام، قرآن و پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور ان کے تہذیبی و عملی اظہار کی شکل میں موجود معابد و ماثر اور مدارس کے تئیں نفرت و حسد، ہندوتو کا نیا ظاہرہ ہے، اس کا اصل ہندو مت اور ہندستانیت، کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کے تصورات و روایات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن انتخابی سیاست اور اقتدار میں بنے رہنے اور اس کے لیے ماحول سازی کے مقصد سے فرقہ وارانہ تفریق اور متحدہ مشترکہ ہندستانی سماج کی تقسیم کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے عمل کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، اس کے لیے غیر ضروری اور غلط طریقے پر غزوہ ہند کے نام پر  بھارت کو بھٹکانے کا کام کیا جا رہا ہے، گزشتہ دنوں ملک کے سب سے بڑے تاریخی، تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے خود کے وجود اور کار کردگی کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،دارالعلوم دیوبند نے اپنے دارالافتاء سے جاری فتوے کے متعلق جو وضاحت پیش کی تھی اس کے بعد غزوہ ہند کے نام سے ملک میں فرقہ وارانہ تفریق و نفرت پھیلانے اور متحدہ قومیت و وطنیت کے برخلاف، مہم کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ہے، کسی معتبر استاذ اور ذی فہم طالب علم نے نہیں سمجھا کہ موجودہ بھارت کے باشندوں سے جنگ کر کے ان کو ختم کر دینا چاہیے، جیسا کہ یتی نرسنہا نند جیسے لوگ، جھوٹ اور شرارت کے جذبے سے اکثریت کو گمراہ کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں، یوپی پولیس انتظامیہ والے بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ غزوہ ہند کا مصداق و مطلب وہ ہے جو یتی نرسنہا نند اور اس کے ساتھی سمجھتے ہیں، وہ اور دیگر ہندوتو وادی، ملک کی عظیم اکثریت کو دہشت زدہ کر کے اپنا کاروبار حیات چلانے کی شرم ناک حرکت کرتے رہتے ہیں، بھارت میں ابھی تک کل ملا کر ایک اچھی بات یہ ہے کہ ملک کی بڑی اکثریت، فرقہ پرست عناصر کا ساتھ دینے سے دور و نفور ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس حکام نے یتی نرسنہا کو اپنے ساتھیوں سمیت دیوبند جانے سے روک دیا اور واپس ڈاسنا مندر میں لا کر نظر بند کر دیا، جب کہ پہلے ہی میرٹھ پولیس نے غزوہ ہند کے بارے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے متعلق بہت واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے، اس کے متعلق رپورٹ سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ کو پیش کر دی گئی تھی، اس کے باوجود یتی نرسنہا نند کا اپنے ٹولے کے ساتھ، دیوبند کی طرف کوچ کو شر پسندی اور شرارت کے سوا کوئی اور نام و عنوان نہیں دیا جا سکتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ میرٹھ پولیس کی طرف سے، دارالعلوم دیوبند کے فتوے سے متعلق پیش کردہ رپورٹ نے گودی میڈیا، فرقہ پرست عناصر اور نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے چیئرمین کے منصوبے پر پوری طرح پانی پھیر دیا ہے، اس سے یہ سب بری طرح بوکھلاہٹ میں مبتلا ہو گئے ہیں، ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ معاملہ اتنی جلدی اس طرح بہتر طور سے ختم ہو جائے گا، اس میں کوئی کوئی شبہ نہیں ہے کہ غزوہ ہند جیسے معاملے کو لوک سبھا انتخابات تک لے جا کر اس کو اپنے حق میں استعمال کرنا، پیش نظر تھا، لیکن وقت سے پہلے ہی میرٹھ پولیس کی جانب سے سہارنپور ضلع مجسٹریٹ کو پیش کردہ رپورٹ نے خاک نامرادی چٹانے کا کام کیا ہے، اس پر بوکھلاہٹ اور ناراضی، خلاف توقع نہیں ہے، کمیشن برائے تحفظ اطفال نے دارالعلوم دیوبند کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ایم اور ایس ایس پی کو رپورٹ کے ساتھ دہلی طلب کر لیا اور رپورٹ بھیجنے کے بعد دوبارہ کمیشن نے ضلع انتظامیہ کو پرانے احکامات کی تعمیل کا فرمان جاری کر دیا ہے، امید تو یہی ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو بھارت کی مستحکم روایات کی موجودگی اور دارالعلوم دیوبند کے شاندار ماضی اور ملک کے لیے مثبت تعمیری و تاریخی کردار کے مد نظر، اپنے مذموم مقاصد میں مطلوبہ کامیابی نہیں ملے گی، دارالعلوم دیوبند نے یہ کہہ کر اپنی تاریخ عزیمت کے مطابق جرآت کا ثبوت دیا ہے کہ  اس کے خلاف کارروائی ہونے پر عدالت سے رجوع کیا جائے گا، اس کا لگتا ہے کہ اچھا اثر ہوا ہے، یہ بات بھی ہے کہ دارالعلوم نے غزوہ ہند کے متعلق روایات کا انکار کر کے مزید شکوک و سوالات کو راہ دینے کے بجائے ان کی بہتر وضاحت پیش کی ہے، اس سے غلط فہمیوں کے ازالے میں مدد ملی ہے، غزوہ ہند کی روایات میں سے کسی روایت میں  بھی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا موجودہ خطہ ہند میں جہاد سے تعلق ہو، پڑوسی ملک کے کچھ فتنہ پرور عناصر کی شرارت کو بھارت میں در آمد کرنا، فرقہ وارانہ نفرت و ذہنیت کی علامت ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں غزوہ کی بات، ویسے بھی اصل معنی پر نہیں رہ جاتی ہے، 58ھ میں حضرت ابوہریرہ رض کی وفات کے بعد ان سے مروی روایات کا مفہوم و مصداق کا موجودہ بھارت سے کوئی تعلق قائم نہیں رہ جاتا ہے، روایت میں کہا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمان ہند میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد، میری موجودگی میں ہوا تو اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں قربان کروں گا، اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں افضل شہداء میں ہوں گا اور اگر زندہ رہا تو میں وہ ابوہریرہ ہوں گا جو(عذاب سے)  آزاد کر دیا گیا ہے، (وعدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃ الھند، فان ادرکتھا انفق نفسی و مالی، فان اقتل کنت من افضل الشہداء وان ارجع فانا ابوھریرۃ المحرر، نسائی رقم 4383)  اس روایت کا پورا حصہ ماضی میں عمل میں آچکا ہے، حضرت ثوبان رضی والی روایت میں کہا گیا ہے کہ میری امت کے دوگروہوں کو اللہ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا، ان میں ایک گروہ  ہند میں جہاد کرے گا اور دوسرا گروہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہو گا، (عصابتان من امتی احرزھما اللہ من النار، عصابۃ تغزوالھند و عصابۃ تکون مع عیسی علیہ السلام،  نسائی رقم 4384،مطبوعہ بیروت) اس روایت کا بھی پہلا گروہ اپنا کردار ماضی میں ادا کر چکا ہے، دوسرا گروہ، قرب قیامت میں، دجال کے خلاف، حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہوگا، اس کا بھی موجودہ خطہ ہند  میں جہاد، غزوہ سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہاں کے باشندے اپنی فطرت کے پیش نظر دجال کے ساتھ نہیں ہوں گے، بھارت کی تاریخ و روایت رہی ہے کہ یہاں کے برادران وطن  آدرش شخصیات کے ساتھ رہے ہیں، رام، راون، کورو پانڈو جنگ، اس کی مثال ہے، ان کے عمل سے نہیں لگتا ہے کہ وہ دجال کے ساتھ اور حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف ہوں گے، جب ایسا نہیں ہو گا تو خطہ ہند میں ہندوؤں کے خلاف غزوہ و جہاد کا کوئی مطلب نہیں ہے، بھارت کے لوگوں میں حضرت عیسی علیہ السلام اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تیئں احترام کا جذبہ رہا ہے، یہاں کی روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف طریقوں سے، اپنے انداز سے سے جگہ دی گئی ہے، اس پر بھوشیہ پران کی پیشن گوئیاں شاہد ہیں، ایسی حالت میں غزوہ ہند کی بات کو غلط رنگ میں پیش کرنا، سراسر شرارت اور بے بنیاد بدگمانی ہے، موجودہ پروپیگنڈا، جارحانہ و منفی ذہنیت پر مبنی ہندوتو کا ظاہرہ و حصہ ہے، نہ کہ اصل ہندستانیت و روایات کا حصہ ہے۔

Exit mobile version