Site icon

رمضان المبارک — فضائل واحکام

بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

مدرس دارالعلوم دیوبند

_____________

رمضان المبارک کے مہینے کو سارے مہینوں پر برتری حاصل ہے کہ اس میں بے پناہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور خیروبرکت نازل ہوتی ہیں ، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، شیاطین قید کردیے جاتے ہیں ، نیکیوں کی توفیق زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی ہے، مومنین کے رزق میں اضافہ ہوجاتا ہے، نفل کا ثواب فرض کے برابر اورفرض کا ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے، رمضان کا ابتدائی عشرہ رحمت، درمیانی مغفرت اور آخری دوزخ سے خلاصی کا ہے، اس میں ایک رات شب قدر ہے جس میں پوری رات عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ہے، دن میں روزہ اور رات میں تراویح کا اجتماعی نظام قائم کیا جاتا ہے، اس طرح اس مہینہ کی نورانیت اور تاثیر میں بے انتہاء اضافہ ہوجاتا ہے، ہر مؤمن بندے کو کسی نہ کسی درجے میں اس کا احساس وادراک ہوتا ہے۔

روزے کا ثواب: رمضان میں روزہ رکھنا فرض ہے، اس کا انکار کرنے والا کافر اور نہ رکھنے والا فاسق ہے، روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ بندوں کی طرف سے میرے لیے ہے، اس کا اجر وثواب میں خود عطا کروں گا، میرابندہ میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خواہشِ نفس کو چھوڑتا ہے، کھانا پینا ترک کرتا ہے؛ لہٰذا میں خود اپنی مرضی کے مطابق ان کا بدلہ دوں گا۔ روزہ دار کے لیے دو طرح کی خوشیاں ہیں : ایک افطار کے وقت، دوسری جب وہ اپنے رب کے حضور میں باریابی کا شرف حاصل کرے گا۔ روزہ دار کے منھ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے، روزہ نفس وشیطان کے حملوں اور جہنم سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزہ رکھے تو بے ہودہ باتوں سے بچے، شور وشغب نہ کرے، اگر کوئی گالی دے یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں ۔

روزہ کی نیت: نیت دل کے پختہ ارادے کا نام ہے، زبان سے بولنا ضروری نہیں اور اگر استحضار کے لیے زبان سے نیت کرلے تو بہتر ہے، روزہ کے لیے نیت شرط ہے، سحری کے بعد دل میں روزہ کی نیت کرنا کافی ہے۔ اگر بلا نیتِ روزہ دن بھر کچھ کھایا پیا نہ جائے تو روزہ نہیں ہوگا، رمضان کے روزے کی نیت سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے کرلینا بہتر ہے، اگر صبح صادق تک نیت نہ کی تو زوال سے کم وبیش ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک نیت کرسکتا ہے، جب کہ کچھ کھایا پیا نہ ہو۔

سحری: سحری کھانا سنت ہے، یہ برکت والا کھانا ہے، آدھی رات کے بعد جب بھی کچھ کھائے سحری کے قائم مقام ہوجائے گا؛ البتہ اخیر حصے میں کھانا افضل ہے، اگر مؤذن غلطی سے صبح صادق سے پہلے اذان دے دے تب بھی سحری کھاسکتے ہیں ، روزہ صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے۔

افطار: یقینی طور پر غروبِ آفتاب کے بعد افطار میں جلدی کرنا مستحب ہے اور دیر کرنا مکروہ؛ کیلنڈر میں لکھے وقت سے تین منٹ کی احتیاط مناسب ہے، افطار میں کھجور اور چھوہارہ افضل ہے، دوسری چیز سے افطار کرنے میں حرج نہیں اور نہ ثواب میں کمی ہوتی ہے۔ حرام چیز سے افطار کرنا حرام ہے جس چیز کے حرام ہونے کا شبہ ہو اس سے افطار نہ کیا جائے۔ افطار کی وجہ سے مغرب کی نماز میں نمازیوں کی رعایت سے کم وبیش دس منٹ کی تاخیر کی جاسکتی ہے۔

افطار کی دعا:

اللّٰہم لَکَ صُمْتُ وعلیٰ رِزْقِکَ أفْطَرْتُ۔ ترجمہ: اے اللہ! میں نے آپ کے لیے روزہ رکھا اور آپ کی دی ہوئی چیز سے افطار کیا۔

افطار کے بعد کی دعا:

ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ العُرُوْقُ وَثَبَتَ الأَجْرُ إن شاء اللّٰہُ۔ ترجمہ: پیاس بجھ گئی رگیں تر ہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا۔ ان شاء اللہ

تراویح: رمضان المبارک میں عشاء کی فرض وسنت کے بعد بیس رکعت تراویح پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، محلہ کی مسجد میں تراویح کی جماعت سنتِ مؤکدہ کفایہ ہے، اگر محلہ کی مسجد میں تراویح کی جماعت نہ ہوتو پورے محلہ والوں کو سنت چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔ اگر محلہ کی مسجد میں جماعت ہوتی ہو اور کوئی شخص اپنے گھر میں تنہا یا جماعت سے تراویح کی نماز پڑھ لے تو جائز ہے؛ البتہ بلاعذر خلاف افضل ہے۔ نابالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں ہے۔ قرآن اتنا زیادہ پڑھنا کہ مقتدیوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔ تراویح میں ایک بار پورا قرآنِ پاک پڑھنا یا سننا سنت ہے۔ قرآن اتنا تیز پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں گناہ ہے۔ تراویح سنانے یا سننے پر اجرت دینا اور لینا دونوں ناجائز ہے، ایسی صورت میں قرآن سننے اور سنانے کا ثواب نہیں ملتا، اگر بلا اجرت قرآن مجید سنانے والا حافظ نہ ملے تو چھوٹی سورتوں (مثلاً الم تر کیف) سے تراویح جماعت سے ادا کریں ۔ اگر تراویح میں دورکعت پر بیٹھنا بھول گیا اور چار رکعت پر سلام پھیرا تو صرف آخری دو رکعتیں تراویح کی شمار ہوں گی شروع کی دورکعتیں تراویح میں شمار نہ ہوں گی اور پہلی دونوں رکعتوں میں پڑھا ہوا قرآن پاک لوٹایا جائے گا، ہاں اگر دوسری رکعت پر بیٹھا ہو تو چاروں رکعتیں تراویح میں شما ر ہوں گی؛ البتہ بالقصد ایسا نہ کرے، تراویح کی نماز دو دو رکعت اصل سنت ہے۔ اگر تراویح کی چند رکعتیں نہ پڑھ سکا اور امام صاحب نے وتر پڑھانا شروع کردیا تو مقتدی وتر کی جماعت میں شامل ہوجائے، چھوٹی ہوئی رکعتیں بعد میں پوری کرے۔ اگر عشاء کی نماز تنہا پڑھی ہو جماعت سے نہ پڑھ سکا ہوتو بھی وتر کی جماعت میں شریک ہوسکتا ہے۔ اگر کسی نے تراویح کی نماز نہیں پڑھی تو وتر کی جماعت میں شریک نہ ہو، پہلے تراویح پڑھے پھر وتر پڑھے؛ لیکن اگر وتر کی جماعت میں شریک ہوگیا تو نماز ہوجائے گی لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔

اعتکاف: رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں یعنی بیسویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے سے عید کے چاند کی یقینی خبر آنے تک اعتکاف کرنا یعنی مسجد میں کسی آدمی کا ٹھہرنا سنت مؤکدہ کفایہ ہے، اگر بڑے شہر کے ہر محلہ میں اور دیہات کی کسی ایک مسجد میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سنت چھوڑنے کا گناہ سب کو ہوگا۔ اعتکاف میں کوئی عبادت متعین نہیں ، جمعہ کی نماز، پیشاب، پاخانہ، غسل واجب اور وضو کے لیے مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت ہے، بلا کسی عذر کے مسجد سے ایک لمحہ کے لیے بھی نکلنے سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔

شب قدر: پہلی امتوں کی عمریں زیادہ تھیں ، اس امت کی عمریں کم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرامؓ کی خواہش پر ایک ایسی رات عنایت فرمائی جس کی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ہے۔ اکیسویں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اور انتیسویں کی پانچ راتوں میں شب قدر تلاش کرنا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ پوری رات عبادت کرے، اگر پوری رات عبادت نہ کرسکے تو جتنی عبادت بس میں ہو کرے؛ البتہ عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کا اہتمام کرے تو پوری رات کی عبادت کا ثواب مل جائے گا، اس رات کو انفرادی عبادت میں لگانا ثواب ہے، مسجدوں میں جمع ہوکر عبادت کرنا بدعت ہے۔

شب قدر کی خاص دعا:

اللّٰہُم إنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔ ترجمہ: اے اللہ! آپ بے انتہا معاف کرنے والے ہیں ، معافی کو پسند فرماتے، پس مجھے معاف کردیجیے!

روزہ نہ رکھنے کی اجازت: مسافر جو کم از کم سوا ستتر کلومیٹر کی مسافت تک سفر کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا ہو اس کے لیے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے؛ البتہ رمضان کے بعد جلد از جلد ان روزوں کی قضا کرلے، اگر سفر میں زیادہ مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا بہتر ہے۔ اگر روزہ کی حالت میں سفر شروع کیاتو روزہ کو پورا کرنا ضروری ہے، اگر سفر سے گھر واپس آگیا اور روزہ نہیں تھا تو روزے کے احترام میں شام تک کچھ نہ کھانا واجب ہے۔ اگر کوئی دشمن جان سے مارنے یاکسی عضو کے ضائع کرنے کی دھمکی دے تو روزہ توڑنے کی گنجائش ہے، بعد میں اس کی قضا کرلے۔ اگر بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنا سخت دشوار ہوجائے یا مرض کے بڑھنے کا خطرہ ہوتو روزہ نہ رکھے بعد میں قضا کرلے۔ اگر روزہ رہنے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدست سے بیمار ہونے یا جان جانے کا خطرہ ہوتو روزہ توڑ سکتا ہے۔ عورت کے لیے حیض (ماہواری) کے دنوں میں اور بچہ کی پیدائش کے بعد خون (نفاس) آنے کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ، ان دنوں کی قضا بعد میں کرلے گی۔ ان حالتوں میں چھپ کرکھائے پیے، دوسروں کے سامنے کھانے پینے سے بچے۔ حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو اپنی جان یا بچے کی جان کا خطرہ ہوتو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کرلے۔

جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے: قصداً کھانے، پینے اور جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا کے ساتھ کفارہ لازم ہوجاتا ہے۔ یعنی لگاتار ساٹھ روزے رکھنا، اگر کوئی شخص بہت بوڑھا ہے تو ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا ضروری ہوجاتا ہے، آنکھ اور ناک میں دوا ڈالنے سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔ قصداً منھ بھر قے کرنا، روزہ یاد ہونے کی حالت میں کلی کرتے وقت حلق میں پانی اتر جانا، عورت یا مرد کو چھونے سے انزال ہوجانا، رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کرلینا، دن باقی تھا غروب آفتاب ہوجانے کے خیال سے کھالینا، بیڑی، سگریٹ،حقہ پینا، لوبان، عود یا اگربتی کا دھواں قصداً حلق میں پہنچانا، بھول کر کھانے یا پینے کے بعد یہ سوچ کر کہ روزہ ٹوٹ گیا ہے قصداً کھانا پینا، ان سب چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور صرف قضا لازم ہوتی ہے، کفارہ لازم نہیں ہوتا۔

جن چیزوں سے روزہ مکروہ ہوتا ہے: بلاضرورت کسی چیز کو چبانا، نمک چکھ کر تھوک دینا، توتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلے سے دانت مانجھنا، غسل واجب ہونے کی حالت میں پورے دن ناپاک رہنا، سنگھی لگانا، کسی مریض کو خون دینا، غیبت کرنا، انسان یا جانور کو گالی دینا، وغیرہ ان سب چیزوں سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے، یعنی ثواب کم ہوجاتا ہے، البتہ فرض ذمہ سے ادا ہوجاتا ہے۔

جن چیزوں سے روزہ مکروہ نہیں ہوتا: مسواک کرنا سنت ہے، اس سے روزہ کا ثواب بڑھتا ہے، خوشبولگانا، ضرورت پر انجکشن لگوانا، بلا اختیار حلق میں گردوغبار دھواں یا مکھی کا چلا جانا، خود بخود قے ہونا، خواب میں غسل واجب ہونا، بیوی اور نوکر کاغصہ ہونے والے شوہر اور آقا کے کھانے میں نمک چکھ کر تھوک دینا وغیرہ ان سب سے روزہ مکروہ بھی نہیں ہوتا۔

صدقۂ فطر: اگر کسی عاقل بالغ مسلمان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ اتنی دولت ہو جس کی قیمت چھ سو بارہ گرام تین سو ساٹھ ملی گرام (۳۶۰ء۶۱۲) چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے، مال پر سال گزرنا ضروری نہیں ہے، اگر صرف چاندی ہوتو اس کا مذکورہ نصاب کے وزن کے برابر ہونا ضروری ہے۔ آدمی اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد اور خادم کی طرف سے ادا کرے گا، بیوی اور بالغ اولاد کا صدقۂ فطر ادا کرنا شوہر اور باپ پر واجب نہیں ہے، ہاں اگر قولی یا فعلی اجازت سے ادا کردیں توادا ہوجائے گا۔ وہ بچہ جو عید کی صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا ہو اس کا صدقۂ فطر باپ پر اداکرنا واجب ہے۔ صدقۂ فطر کے مستحقین وہی لوگ ہیں جو زکات کے مستحق ہیں ؛ البتہ اتنا فرق ہے کہ زکات کافر کو نہیں دے سکتے اور صدقۂ فطر دے سکتے ہیں ۔ عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا بہتر ہے، اس کے بعد بھی اداکرنے سے ادا ہوجائے گا۔

زکوٰۃ: ہرعاقل بالغ مال دار مسلمان پر زکوٰۃ واجب ہے، اگر اس کا مال نصاب زکات تک پہنچتا ہو، یعنی اپنی ضرورتوں سے زائد اتنا مال تجارت ہوجس کی قیمت چھ سو بارہ گرام تین سو ساٹھ ملی گرام (۳۶۰ء۶۱۲) چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو اوراس پر سال بھی گزرگیا ہو، ادائے زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرنا ضروری ہے، اگر سونا زیادہ ہو یعنی ستاسی گرام چار سو اسی ملی گرام (۴۸۰ء۸۷) یا اس سے زائد ہو تو اس کی زکوٰۃ الگ سے نکالی جائے گی، مال میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ادا کیا جاتا ہے، یعنی سوروپے میں سے ڈھائی روپے۔ آئندہ سال کی زکوٰۃ اگر پہلے ادا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ، مقروض کو اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، خواہ قرض کتنا ہی ہو۔ کسی خدمت کے معاوضے میں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی، یعنی مسجدکے امام یا مؤذن یا مدرسہ کے مدرس کی تنخواہ زکوٰۃ سے ادا نہیں کی جاسکتی، فقیر کو مالکانہ طور پر زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔ اگر کسی کے پاس کچھ روپے، کچھ سونا، کچھ چاندی اور کچھ مال تجارت ہو؛ مگر الگ الگ نصاب کو نہ پہنچتے ہوں تو سب کو ملاکر دیکھیں گے اگر ان کی مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کو پہنچتی ہوتو چاندی کے لحاظ سے زکات واجب ہوگی۔ کمپنیوں کے شیرز پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ نابالغ کے مال پر زکوٰۃ نہیں ہے، دادا دادی، نانا نانی، اولاد، میاں بیوی کے علاوہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یعنی بھائی بہن، بھانجے، بھتیجے، چچا، خالہ پھوپی اور ماموں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ قریبی رشتہ دار کو زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے۔

نماز عید: ثنا پڑھنے کے بعد امام صاحب تین زائد تکبیریں کہیں گے، دو میں ہاتھ اٹھاکر چھوڑ دیں ، تیسری تکبیر میں ہاتھ باندھ لیں ۔ دوسری رکعت میں امام صاحب پہلے قراء ت کریں گے، پھر چار تکبیریں کہیں گے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ اٹھاکر چھوڑ دیں ، چوتھی تکبیر میں رکوع میں چلے جائیں ۔ بقیہ چیزیں عام نمازوں کی طرح ہیں ۔ سلام ودعا کے بعد امام صاحب خطبہ پڑھیں گے، خاموشی سے خطبہ سنیں پھر عیدگاہ سے باہر نکلیں ۔

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ : 4، جلد:102‏، شعبان – شوال ۱۴۳۹ھ مطابق مئی – جون ۲۰۱۸ء

Exit mobile version