✍ مفتی ناصر الدین مظاہری
____________
"رمضان المبارک میں کبھی بھی مجھ کو میری ماں نے سحری کے وقت پکار کر نہیں جگایا ہمیشہ کان کے پاس آہستگی کے ساتھ سرگوشی کے انداز میں جگاتی تھیں "
اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو ماں کو اور شادی شدہ ہیں تو بیوی کو ماہ رمضان المبارک میں ضرور دیکھئے، ان کی مصروفیات پر نظر کیجیے، صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک کیا کیا کرتی ہیں اس پر غور کیجیے تو آپ حق تعالی کی اس نعمت پر بار بار شکر ادا کریں گے۔
جب تک مجھے شعور نہیں تھا ہوش نہیں سنبھالا تھا تب تک تو سب کچھ روز مرہ کا معمول محسوس ہوتا تھا لیکن جب سے عقل میں پختگی اور شعور میں کہنگی آئی تو مجھے دکھائی دیا کہ ماہ رمضان المبارک میں ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیوی کی مصروفیات عام دنوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہیں، صبح فجر کے بعد ہر شخص سوتا ہے اور سونے کو اپنا حق سمجھتا ہے لیکن آپ کی ماں یا بیوی سو نہیں سکتی، اسے بچوں کے لئے ناشتہ کا نظم کرنا ہے، بچوں کے اسکول کا نظم کرنا ہے ڈریس تیار کرنا ہے بچوں کو نہلانا ہے کپڑے پہنانا اور تیار کرکے بھیجنا ہے اب کچھ فرصت ملی تھی لیکن بیوی کو سکون کہاں ہے اب وہ کل دن بھر کے کپڑے سمیٹ رہی ہے اپنے بھی، بچوں کے بھی، شوہر کے بھی سب کپڑے دھونے کے بعد سوکھنے کے تاروں پر ڈالنا ہے سوکھنے کے دوران خود کو صاف ستھرا کرکے خشک کپڑوں پر پریس کرنا ہے، رات کے کھانے اور سحری کے جھوٹے برتن صاف کرنا ہے،دن کے بارہ بجے تک اسی طرح کی مصروفیات میں لگی رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی کمر دکھنے لگتی ہے۔ نیند اس کو پریشان کئے ہوئے ہے کہ اب شوہر نامدار اٹھتے ہیں ان کے غسل کے لئے بیوی کپڑے نکالتی ہے شوہر صاحب تو اتنے کاہل ہیں کہ اپنا تولیہ اور کپڑے بھی خود غسل خانے تک نہیں لے جاتے، غسل کے بعد اپنی لنگی بھی نہیں دھو سکتے یہ کام بھی بیوی کرتی ہے، اب ظہر کی اذان ہونے والی ہے ادھر اسکول اور مدرسہ سے بچے آنے والے ہیں اب پھر ان کے ڈریس بدلنا، کھانا کھلا کر ٹیوشن کے لئے تیار کرنا، نماز پڑھنا اور رات افطار وکھانے کے انتظام کا وقت آنے والا ہے بیوی جلدی جلدی قرآن اٹھاتی ہے ایک دوپارے بمشکل پڑھ پاتی ہے کہ افطاری کی تیاریاں شروع کردیتی ہے اگر کوئی بچہ دودھ پیتا یا گود میں ہے تو مصروفیات اور بڑھ جاتی ہیں۔
افطاری میں بھی گھر کے ہر فرد کا خیال رکھتی ہے عبداللہ کو کیا پسند ہے عبیداللہ کیا کھائے گا شوہر کی کیا خاص چیز تیار کرنی ہے اور ساتھ ہی رات کھانے کے لئے تیاریاں جاری ہیں۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوکر پھراپنے کام میں مصروف ہوگئی اس دوران بچوں کی فرمائشیں بھی، لڑائیوں کے فیصلے بھی، جہاں جہاں افطاری بھیجنی ہے اس کا دھیان بھی اور دسترخوان بچھانے کا عمل بھی۔ کبھی سوچا کہ دو تین گھنٹے کی کڑی محنت کے بعد جو چیزیں تیار ہوئی تھیں وہ سب دس پندرہ منٹ میں معدہ کی نذر ہوچکی ہیں اور آپ مسجد چلے گئے ہیں آپ کی بیوی جلدی جلدی دسترخوان اٹھاتی ہے برتن دھوتی ہے نماز مغرب پڑھتی ہے، رات کھانے اور چائے کا نظم کرتی ہے اور اب تراویح کے لئے تیار ہے۔
تراویح سے فارغ ہوکر اگر کسی کی کچھ فرمائش ہوئی تو تعمیل کردی ورنہ سب کے بستر بچھا کر ضرورت کے مطابق اوڑھنے کا سامان رکھ کر بچوں کو سلاکر خود سونے کے لیٹ گئی ہے۔
بمشکل دو تین گھنٹے ہی سوئی ہوگی کہ سحری تیار کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، سارا گھر سو رہا ہے لیکن اکیلی آپ کی بیوی جاگ رہی ہے وہ بھی تو انسان ہے لیکن انسانیت اس کے رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے پورے گھر کا خیال رکھتی ہے ہر جگہ ہر کسی کی پسند ناپسند کا خیال رکھتی ہے جب مکمل تیاریاں ہوچکی ہوتی ہیں تب بھی دھیان رکھتی ہے کہ جلدی بیدار نہ کیا جائے ورنہ کھانے سے فارغ ہوکر نماز فجر کے انتظار میں رکنا پڑے گا اور اس طرح عین وقت پر سبھی کو اٹھا کر کھانا کھلا کر مسجد بھیج دیتی ہے اور خود مصلے پر پہنچ کر اللہ احکم الحاکمین کے آگے سربسجود ہوجاتی ہے۔
اگر آپ کو بیوی یا ماں کی اس محنت کا اندازہ نہیں ہے تو کم ازکم ان کے کام میں صرف ایک دن شرکت کرکے دیکھ لیجیے۔ قسم خدا کی بیوی جیسی نعمت کا شکراداکرتے کرتے زبان اور حلق خشک ہوجائے گا۔
ہمارے نبی نے فرمایا:الدنيا متاع وخير متاع الدنيا المرأة الصالحة۔دنیا سرمایہ ہے اور نیک بیوی سب سے بہترین سرمایہ ہے۔