Site icon

پلٹ آئیے! قرآن کی طرف

✍عزیز بلگامی،بنگلور،کرناٹک

_________________

یہ ہمارے پاؤں تلے بچھا ہوا فرشِ زمین اوریہ ہمارے سروں پر تنا ہوا آسمان کا سائبان،یہ خاموش ساحلوں سے ٹکراتی ہوئی بحرِ بے کراں کی موجیں اور یہ پُر شکوہ فلک بوس کوہستانی سلسلے،یہ رم جھم کرتی آسمانوں کی بلندی سے برستی بارش اور ہر ذی روح و غیر ذی روح کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے والے یہ بپھرے ہوئے سیلاب،یہ انسانوں کے بدن کو جھلسا دینے والی گرمیاں اور یہ منجمد کر کے رکھ دینے والے سرد ہوا کے جھونکے ،یہ فراوانی ٔ رزق کے ساتھ اِسی زمین کے ایک بڑے خطے پر دیوانہ وار رقص کرنے والے قحط و قلت کے یہ بے کیف منظر،غرض کہ اس کائنات کی ہر منفی و مثبت شئے ہمارے لئے دروسِ عبرت لیے ہوئے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عقلِ سلیم کے ذریعہ ان منظروں میںپنہاں خاموش اِشارات پر غورو فکر کریں اور ان سے حسب لیاقت واستطاعت سبق حاصل کریں۔کیا عجب کہ ہم اپنی زندگی کوبہتری کی سمت گامزن کر سکیںاور ہماری اُخروی زندگی کو کامیابی و کامرانی کی منزل نصیب ہو جائے۔ چوبیسویںسورۃ النور کی ترتالیسویں آیت دیکھیے: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان کی بلندیوں سے پہاڑوں کی طرح حجم رکھنے والے بادلوںسے اولے بھی برساتا ہے۔پھر جس پر چاہے وہ اولے ہی برسادے اور جسے چاہے بچالے۔ ممکن ہے کہ اُس کی بجلی کی چمک ہی نگاہوں کو خیرہ کردے۔ رات اور دن کا اُلٹ پھیر بھی  وہی کر رہا ہے۔ بیشک اِس میں ایک سبق ہے آنکھ والوں کے لیے۔‘‘
مثلاً،ذرا ان پیڑوں کو دیکھیے !بہ ظاہر اپنی جگہ پر خاموش کھڑے ہوئے ہیں، ہر نوع کے موسم میں، طرح طرح کے نامساعد حالات کا صبرو سکون کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں، محض اس لیے کہ بحکم خداوندی یہ حضرتِ انسان کے لئے نفع بخش بنے رہیں۔ انسانوں کا حال ایک طرف یہ ہے کہ اپنی سانس کے حوالے سے فضائوں میں مسلسل کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتے رہتے ہیں، اور دوسری طرف ان وفا شعار پیڑوں کا حال یہ کہ وہ اِس خارج شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی ضرر رساں گیس کو اپنے اندر جذب کرلینے سے دریغ نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک ضرر رساں گیس کے عوض یہ پیڑ ماحولیاتی عدم توازن پیدا کرنے والے ان ہی انسانوں کے لیے آکسیجن جیسی حیات بخش اور ضامنِ زندگی شے مہیا کرتے رہتے ہیں۔انسانوں کے بے لوث خادموں کی طرح جس طرح یہ پیڑپودے مصروفِ خدمت ہیں،کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے رب کے کلام کو، جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بطورِ امانت ہمارے حوالے کیا تھا، مکمل احساسِ امانت داری کے ساتھ دنیائے انسانیت کی نذر کریں! اس عظیم جد جہد کی راہ میں اُٹھنے والے ہر طوفان بلا خیز کاعزم و حوصلے اور سنجیدگی و استقلال کے ساتھ مقابلہ کریں !  شر سے خیر کو بر آمد کریں اور اپنے رب کی راہ پر گامزن رہیں! ایسا کرتے وقت یعنی رب تعالیٰ کے پیغاما ت کے بلاغ کے دوران ہم پانچویں سورۃ کی سدسٹھویں آیت میں موجود خوشخبری کو ضرور پیشِ نظر رکھیں:’’اے رسولؐ، پہنچادیجئے جو کچھ نازل کیا ہے آپؐ پر آپؐ کے رب نے۔ اگر آپؐ  نے ایسا نہیں کیا تو اس کی رسالت کا حق ہی ادا نہیںہوا اور (اس کام میں) اللہ آپؐ  کو انسانوں (کے شر سے) بچائے گا۔اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ نہیں سوجھنے دیتا‘‘۔
پھر ایک اور منظر دیکھیے!ہم دیکھتے ہیں کہ آب و تاب کے ساتھ بہتے ہوئے پانی کے پُر شور بہائو کے درمیان اگرکوئی چٹان سدِّ راہ بن جاتی ہے تو بہتا ہوا پانی اِسے ہٹانے میں اپنی توانائی ضائع نہیںکرتا، بلکہ چٹان کے پہلو سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اپنے بہائو کا سفرجاری رکھتا ہے۔ کیا اِس میں ہمارے لیے یہ درس نہیں کہ مزاحمتوں سے تصادم پر اپنی توانائی ضائع نہ کی جائے۔ بلکہ اپنی توانائی کو بچاتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں ۔ بہتے ہوئے پانی کی طرح انسانوں کی تشنگی ٔ ہدایت کو بجھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف مسلسل بڑھتے رہیں۔یہ صورتحال اُسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ہم اپنا حتمی ہدف اللہ کی رضا اور اُس کی مغفرت کو بنائیں۔صبر،توکل اور سعی ٔ مسلسل ہمارا وظیفۂ حیات بن جائے ۔
فلک پر روشن اِس چمکتے ہوئے سورج کو دیکھیے! زمین کی ہر مخلوق کے لئے یہ منبع توانائی ( انرجی) بنا ہوا ہے۔ہر صبح ایک وقتِ مقررہ پر یہ طلوع ہوتا ہے۔ شاید نہیں، یہ بظاہر غروب ہو جاتا ہے ، لیکن دراصل وہ طلوع ہی ہوتا رہتا ہے، یعنی عین اُس وقت جب کہ وہ غروب ہو رہا ہوتا ہے تو دراصل وہ زمین کے کسی اور حصے کے لیے طلوع ہورہا ہوتا ہے اور زمین پر آباد مخلوق کی زندگی کی ضمانت بنتا ہے اور غروب ہو کر اپنے پیچھے اندھیرا بھی چھوڑجاتا ہے، تو انسانوں کے لیے آرام کرنے اور تاز ہ دم ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یعنی، یہ اپنے فرض کی ادائیگی میں فرمانبرداربنا رہتا ہے اور ایک مقررہ وقت پرغروب ہو کر ہمارے لئے یہ پیغامِ روشن چھوڑجاتا ہے کہ اپنے فرائض کو وفا شعاری اورپابندیٔ وقت کے ساتھ ادا کیا جائے ،اپنی موجودہ زندگی کے غروب ہونے اور اپنی ابدی زندگی کے طلوع ہونے سے پہلے پہلے اپنے فرائض کو مکمل احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا جائے۔
پھر آسمان سے برسنے والی بارش پر ایک نظر ڈالیے۔بارش برستی ہے تو کتنے دروسِ عبرت ہیں جو ہمیں حاصل ہوتے ہیں! ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رنگ و نسل میں تفریق نہیں کرتی، ذات پات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی، تذکیر و تانیث کی بحث نہیںچھیڑتی ، بلکہ ساری مخلوق کے لیے یکساں طور پر برستی ہے اور ابرِ رحمت بن کر برستی ہے،پیاسی دھرتی کی پیاس بجھاتی ہے، اِسے سیراب کرتی ہے۔ کیا ہم بارش کے شعار کو نہیں اپنا سکتے ! انسانیت کو بارشِ ہدایت کی ضرورت ہے اور زمین پر بسنے والی محرومِ ہدایت انسانیت کے خشک سینوں کو رب تعالیٰ کا کلام ہی سیراب کر سکتا ہے۔کیا ہم سسکتی بلکتی انسانیت کے مسیحا نہیںبن سکتے! انسانیت کے جسم پر گمرہی اور سرکشی کے جو زخم آئے ہیں کیا اِن زخموں پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا عطا کردہ رُشد کا پھاہا نہیں لگا سکتے!!وہ نسخۂ کیمیا جو گوشۂ حرا کی پرکیف تنہائیوں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے تھے، کیا بیمار انسانی ذہنوں کے امراض کا مداوا نہیں بن سکتا؟کتنی کثافتیں ہیں جو اِس وقت انسانیت کو اپنی  گرفت میں لے چکی ہیں۔یہ بات نگاہ سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ رب تعالیٰ انسانیت کے لئے فائدہ مند چیزوں کو زمین میں ثبات اوربقا عطا فرماتے ہیں جیسا کہ تیرھویں سورۃ کی ستراویں آیت میں بالکل واضح الفاظ میں ذکر ہے:’’…جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتاہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے…‘‘۔
پھر ذرا سمندر کو دیکھیے ! بظاہر پُر سکون دکھائی دینے والا یہ سمندر،جس کے سینے میں نہ جانے کتنے طوفان مچلتے رہتے ہیں۔آئیے ذرا اِس کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھیں۔اِس کی گہرائیوں کی دنیا  بڑی عجیب ہے۔روشن سورج کی سفید کرنیں جب سطح سمندر سے ٹکراتی ہیںتو مختلف گہرائیوں اور گیرائیوں کے اعتبار سے نور کی یہ سپیدی مختلف رنگوں میں منقسم ہوجاتی ہے۔چوبیسویں سورۃ النور کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ سمندروں کی گہرائیوں اوراسکے عمیق اندھیروں کا تذکرہ فرماتا ہے :’’…یا (ایسے نافرمانوں، ناشکروں اور حق کے انکاریوںکے اعمال کی دوسری مثال ) جیسے سمندر کی عمیق گہرائیوں میں اندھیرے ، اس پر موج کے اوپر موج چھا رہی ہو اوراسکے اوپر ( آسمان میں) گھنے سیاہ بادل ، تاریکیوں پر تاریکیاں ہوں۔ جب اپنے ہاتھ کو ہی دیکھنا چاہے تو بھی نہ دیکھ سکے (ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے) اور اللہ جس کے لئے کوئی نور مہیا نہ کرے، تو کوئی اسے نور فراہم کرنے والا نہیں ‘‘۔
اِس آیت سے ہماری فکر و نظر کو یہ مہمیز ملتی ہے کہ ہم علومِ بحرOceanography کی موجودہ معلومات سے بھی کچھ استفادہ کریں۔سمندر کی گہرائیوں سے پیدا ہونے والے اندھیروں کی حقیقت ذیل میں بیان کی جارہی ہے:
اولاً،سمندر میں دو سو میٹر کی گہرائی تک کا جوخطہ ہوتا ہے وہ خطۂ سطحیت کہلاتا ہے۔وہاں تک صرف اتنی روشنی باقی رہ جاتی ہے کہ سمندری پودوں میں کلوروفل بنانے کا عمل یعنی Photosynthesisجاری رہے۔ سمندری زندگی بس اسی گہرائی تک پائی جاتی ہے۔ شارک جیسی مچھلیاں بھی اِسی گہرائی تک متحرک رہتی ہیں۔ اس خطہ کو Epipelagic Zoneکہتے ہیں۔یہ وہ خطے ہیں جنہیں دنیا نے ابھی ابھی دریافت کیا ہے،جبکہ چودہ صدیوں قبل ہی ہمارے ربِّ ذو الجلال نے ہمارے لیے یہ معلومات مہیا کردی تھیں۔
ثانیاً،دو سو میٹر سے ایک ہزار میٹر کی گہرائی کے خطے کو Mesopelagic Zone کہا جاتا ہے۔ سمندری گہرائی کے اِس حصہ میںانتہائی خفیف سا نور نفوذ کر پاتا ہے، جو سمندری زندگی کی بقا کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ اس لئے یہاں آبی پودے یا سمندری مخلوقات تقریباً ناپید ہوتی ہیں۔
ثالثاً، ایک ہزار سے تقریباً چار ہزار میٹرکی گہرائی کے خطے کو Bathypelagic Zone کہا جاتا ہے۔ گہرائی کے اِس حصہ میں سمندر بالکل ہی تاریک ہوجاتا ہے۔ نور کی کوئی کرن اس گہرائی تک پہنچ نہیںپاتی نتیجتاً ہر طرف تاریکی ہی تاریکی چھائی ہوتی ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت میں کہا گیا ہے۔
رابعاً، چار ہزار سے لے کر سمندر کی سب سے نچلی سطح یا صحنِ سمندرتک،تاریکیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے، جس کے تصور ہی سے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس خطۂ گہرائی کو Abyssopelagic Zoneکہا جاتا ہے۔پھرصحنِ سمندر کو دیکھیے!یہاںتنگ مگر گہری کھائیوں کے سلسلے ہوتے ہیں، جنہیںTrench کہا جاتا ہے۔بحرِ اوقیانوس کی Mariana Trenchنامی ایسی ہی ایک کھائی کی گہرائی10,924 میٹریعنی تقریباً 35,840 پیمائش کی گئی ہے، یعنی اگر ہمالیہ پہاڑ کوMariana Trenchمیں رکھ دیا جائے تو اس کی سب سے بلند چوٹی مائونٹ ایورسٹ سمندری پانی میں اِس قدر گہرائی تک ڈوبے گی کہ اِس کے اورسطح سمندر کے درمیان پھر بھی 1.5 کلو میٹر کافاصلہ ہوگا یعنی ہمالیہ کی اِس بلند ترین چوٹی کے تقریباًایک میل کی اونچائی تک پانی بھراہوا ہوگا۔ خدا کا شکر کہ آج سائنس، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میںاِن آیات کی گہرائی و گیرائی کی حقیقت کو سمجھنا ہمارے لئے آسان ہوگیا ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل اس طرح کی تفصیلات کا علم کیا انسان کے بس کی بات ہو سکتی تھی؟یہ الکتاب الحکیم کی آیتیںہیں جو ہردور کے انسان کوقائل ہونے پرمجبور کرتی ہیں کہ یہ کتاب’ ’کلامِ بندہ‘‘ نہیں بلکہ’’ کلامِ الٰہی‘ ‘ہے، جو انسانوں کے خالق کی کتاب ہے،جس نے سمندروں کی بھی تخلیق کی اور وہی ہے جس نے معلومات ِ عامہ کے دروازے ہم پر وا کیے کہ ہم اِس کی روشنی میں کلامِ الٰہی کی آیات کا مزید ادراک کریں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور خلاق العلیم کی یہ کتاب نئی نئی معلومات کی روشنی میں اپنی حقانیت ثابت کرتی رہے گی اور انسانیت بے اختیار پکار اٹھے گی کہ یہ کتاب فی الحقیقت ربِّ کائنات کی کتاب ہے، جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے ۔
ہمارے سامنے سائنسی حقائق بھی ہوں،یہ آیاتِ بینات بھی ہوں!رات دن ان کا ہمیں مشاہدہ بھی ہورہا ہو!پھر بھی ہم غفلت سے نہ جاگیں؟نورانی کتاب ہمارے درمیان ہو،پھر بھی ہم اندھیروں میں رہنا پسند کریں؟ہدایت کے چمکتے سورج کے باوجود،ہدایت کی کوئی کرن ہم تک نہ پہنچے، کیا یہ حیرت کی بات نہیں؟ کیا ہم اپنی سطح کو اس قدر بلند نہیںکر سکتے کہ تاریکی سے باہر آجائیں؟ کتاب اللہ کی نور انی کرنیںہماری زندگی کو جگمگا دیں۔ہماری آخرت کو روشن کردیں۔کیوں اِس کتابِ منوّر سے ہم قریب نہیں ہو پاتے! کہ اِس کی تلاوت بھی ہوتی رہے اور اسکے معنی و مفہوم سے بھی ہم قریب تر ہو جائیںاور توفیقِ خداوندی سے اِس کی ہدایات پر عمل پیرائی کا موقع میسر آئے !
پانچویں سورۃ کی پندرھویں اور سولھویں آیت میں ساری انسانیت سے صاف صاف ارشاد فرمایا گیا ہے:ــ’’اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارے ایسے رسول ؐ  آئے ہیںجو الکتاب کا بہت سا بیان کردیتے ہیں جو تم نے چھپا رکھا ہے اور تمہاری بہت سی باتوں سے درگذر کرجاتے ہیں۔بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین آچکے ہیں۔ اللہ اس کے ذریعہ ہر اس شخص کو سلامتی والے راستوں پر چلاتا ہے جو اللہ کی رضوان کے پیچھے چلنا چاہے اور انہیں اندھیروں سے نکالتا ہے، نور کی طرف(رہنمائی کے لیے)۔‘‘ 
ہدایت کاسورج اپنی آب و تاب کے ساتھ مسلسل چمک رہا ہے، لیکن ہم اپنے دل کی کھڑکیوں پر پڑے پردوں کوہٹانا نہیں چاہتے۔کیا جگمگا نہیں جائے گی ہمارے ذہن و دل کی کائنات؟ اگر ہم کتاب اللہ سے اپنے تعلق کو جوڑ لیں!نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور ہم اخلاقِ کریمانہ کی جستجو کریں!رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قول بڑا معروف ہے: بلغوا عنی ولو آیۃیعنی ’’مجھ سے اگر ایک ہی آیت تم نے سنی ہو،تو دوسرے انسانوں تک اُسے پہنچائو‘‘۔
یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ دنیا کی تقریباً دو ہزار زبانوں میں قرآن شریف کے ترجمے ہوکر سارے عالم میں پھیل چکے ہیں۔تفاسیر کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ لیکن حقیقی ضرورت اللہ کے اوریجنل کلامOriginal Text کے ابلاغ کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والی انسانوں کی اکثریت اپنے رب کی راہ گم کر چکی ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں۔ ایک کامیاب اور باعزت زندگی کے لیے کتاب اللہ کی طرف رجعت ضروری ہے۔پھر نہ خام خیالیاں رہیں گی،نہ توہمات نہ جہالت کے اندھیرے۔ عقل ،سائنس، علوم وفنون لوگ ہم سے سیکھنے لگیں گے۔المیہ یہ ہے کہ ہم چاند اور مریخ پر کمندیں تو ڈال رہے ہیں،مگر ہمارے اپنے اندر کے نہاں خانے کتاب اللہ کے نور سے جگمگا نہیں رہے ہیں۔دنیا خالقِ کائنات کے پیغام سے غافل ہے۔ہمارا بھی حال کچھ یہی ہے۔ کیا دنیا کی اس امتحان گاہ میں ہم کتابِ نور سے اپنی زندگی کی تاریکیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں؟کیا ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت و عظمت کی بازیافت کے خواہشمند ہیں؟کیاآخرت کی فلاح ہمارے پیش نظر بھی ہے؟یہ فیصلہ ذاتی طور پر ہم میں سے ہر شخص کو کرنا ہے۔اپنے معمولات،اپنے اخلاق و کرداراور اپنے رویہ اور طرز زندگی میں مطلوبہ تبدیلیاں کرنے کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔
آئیے، ماہِ قرآن رمضان المبارکہ میں ہم فیصلہ کرتے ہیںکہ ہم قرآن کی طرف پلٹیں گے اور اپنی زندگی کی تاریکیوں کو دور کردیں گے۔وما توفيقي إلا بالله۔

Exit mobile version