Site icon

مملکت آصفیہ کی کہانی میری اپنی زبانی

از سلمان ندیم قاسمی

_________________

اورنگ زیب رح کی وفات(1707ء) کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوا . یہ عظیم الشان سلطنت جس کی بنیاد بابرو ہمایوں نے اپنے عزائم و حوصلوں سے رکھی تھی اور جس پر بڑے کروفر اور طمطراق کے ساتھ اکبر و جہانگیر . شاہجہان و اورنگزیب نے حکومت کی اور اسے بامِ عروج تک پہنچایا یہی وہ شاہانِ مغلیہ ہیں جو بادشاہ کہلانے کے لائق ہیں جن کے ناموں ہی میں جلال چمکتا ہے .ان کے بعد کے بادشاہوں کے نام تو بہت کم لوگوں کو یاد رہ گئے زیادہ سے زیادہ بہادر شاہ ظفر کا نام یاد ہوگا اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سے بہادر شاہ ظفر تک جو بادشاہ آئے وہ صرف نام کے اعظم شاہ .جہاندار شاہ اکبر ثانی وغیرہ تھے.  عز الدین (عالمگیر ثانی) کے مرتے ہی مغلیہ سلطنت کی رہی عزت بھی خاک میں مل گئی اسکے بعد جو بادشاہ ہوئے انہیں بادشاہ کہنے کے بجائے "مغلی تکیے کے شاہ جی” کہنا زیادہ مناسب ہوگا…
یہ "چھوٹی سی” کہانی اس لئے لکھنا پڑی کہ عالمگیر رح کی وفات کے بعد کسی درجے مغلیہ سلطنت کے طمطراق کو باقی رکھنے کی کوشش کی گئی جو مملکتِ آصفیہ کی شکل میں جنوب ہند دکن میں ظاہر ہوئی. جس کے بانی میر قمر الدین نظام الملک آصف جاہ اول تھے. یہ نام اورنگ زیب نے رکھا تھا نظام الملک کی تربیت بھی انکی نگرانی میں ہوئی تھی. یہی وہ شخصیت تھی جو عالمگیر کی وفات کے بعد سلطنت کے انتشار کو روک سکتی تھی. جب انہیں 1722 میں وزیر اعظم بنایا گیا تو اصلاحات کی کوششیں کیں مگر نام کے بادشاہوں کے مصاحبوں سے تنگ آکر وہ دکن چلے گئے اور تاوفات جنوب کا انتظام سنبھالا مگر مغل حکمرانوں کی اطاعت سے سرتابی نہیں کی.جب نادر شاہ نے دلی کو لوٹا تو دلی جاکر مغل بادشاہ کے حقوق کی حفاظت کی. یہ وہ دور تھا کہ مرہٹوں کا "ٹڈی دل ” مغلوں کی لگائی ہوئی فصلوں کو کھاتا جارہا تھا. جب مصیبتیں پڑتی ہیں چاروں طرف سے پڑتی ہیں. نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کا رہا سہا دم بھی نکال دیا تھا. اندر سے مرہٹے سلطنت کو نگلنے کی کوششوں میں تھے. باہر سے انگریزوں کی مستقل آمد ہوا چاہتی تھی. ویسے تو یہ فرنگی عہد اکبری سے ہی ہندوستان کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے. صاحبِ منتخب التواریخ ملا بدایونی نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہےملا صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عموما یہ لوگ ساحلی علاقوں میں بحری قزاقوں کی حیثیت سے منڈلاتے رہتے تھے. اور کبھی کبھی اندرون ملک بھی یہ لوگ مداریوں کی طرح آجاتے تھے بازی گری دکھاتے. باجے بجاتے. کہیں کہیں جشنہائے نوروز میں بھی بادشاہوں کا دل بہلاتے. عہد اکبری میں اس سے زیادہ کی حیثیت میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا پھر انہی بازیگروں نے عہد جہانگیری میں سفارت شروع کی .تجارت کی اجازت چاہی اور سوداگروں کے بھیس میں آئے اور پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے  *توتی المک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء* کی حقیقی تفسیریں کتابوں میں نہیں بلکہ صحیفہء فطرت کے اوراق پر ہمیشہ یوں ہی لکھی جاتی ہیں..

مملکت آصفیہ کے بننے کے بعد نظام الملک نے مرہٹوں اور انگریزوں کو ان کی اوقات میں رکھا. مگر جیسا کہ ہر سلطنت میں ایک دو یا دو تین بادشاہ گزرنے کے بعد خانہ جنگی شروع ہوتی ہے .یہ حقیقت رہی ہے!!  کوئی بھی ملک یا مملکت ہو سوائے خلافت راشدہ کے یا کچھ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے والے حکام و امراء کے اکثرو بیشتر ملک گیریاں یا کشور کشائیاں ملک و مال کے لئے ہوئیں ہیں. ظاہر ہے بنیاد ہی میں کھوٹ ہو تو پائداری کیسی؟ زوال کے اسباب تو اسباب ہیں اور یہ اسباب اسلئے پیدا ہوئے کہ حکومت کا جو شاندار نظام خلافت راشدہ سے ملا ہے اس سے انحراف کیا گیا. جاہ و ملک کی ہوس میں دشمنوں سے ساز باز کی گئی بھائی نے بھائی سے غداری کی. یہی کچھ مملکت آصفیہ کی تاریخ میں آپ کو دیکھنے کو ملےگا کہ آصف جاہوں نے اپنی جاہ کی بقاء کے لئے کبھی انگریزوں کبھی فرانسیسیوں سے ساز باز کی پھر ایک وقت آیا اس ملک پر اکبری عہد کے وہ بازیگر پوری طرح قابض ہوگئے.قابض ہونے کے بعد بھی مملکت آصفیہ کا سورج غروب کیوں نہیں ہوا؟
کبھی اس سوال پر غور کیا ہے؟
جب 1877ء میں ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا اور  شہنشاہ ایڈ ورڈ کی تخت نشینی ہوئی. یعنی جب انگریزوں  نے چھوٹی بڑی ہر بغاوت کو کچل ڈالا اور ان کو پوری طرح اطمینان  ہوگیا کہ اس ملک کے ہم ہی مالک ہیں تو دلی میں ایک پہلا عظیم الشان دربار قائم کیا گیا اور ہندوستان کی تمام ریاستوں کے راجوں، نوابوں کو دعوت دی گئی اور سب سے قدم اور پہلے نمبر پر مملکت آصفیہ کے اعلی حضرت میر محبوب علیخان اور نواب سر سالار جنگ تھے جلسہ ملکہ وکٹوریہ کے فرزند وائسرائے بہادر کی آمد پر رکھا گیا تھا سب سے پہلے اظہار عقیدت  و محبت کے لئے جس وفادار کو دعوت دی گئی وہ میر محبوب علیخان تھے جنہوں نے نواب وائسرائے بہادر کو مخاطب کرکے حسبِ ذیل تقریر فرمائی .بعینہ الفاظ نقل کرتا ہوں جو تاریخ دکن کے مؤلف اختر یار جنگ نے نقل کئے ہیں۔
"مجھے اس مبارک و قابلِ یادگار تقریب میں شرکت سے بے انتہاء مسرت ہوئی .یقینا عالی جناب کو معلوم ہوگا کہ سلطنت انگلشیہ کے ساتھ میرے خاندانی وفاداری و دوستی کے جو تعلقات نسلا بعد نسل رہے ہیں میں نے اپنی مدت العمر ان کے بحال رکھنے اور ان کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے. لہذا میری استدعا ہے کہ عالیجناب از راہِ عنایت میری خالص و صادق مبارک باد شہنشاہِ معظم کو پہونچا کر میری جانب سے یقین دلائیں کہ وہ مجھے اور میرے خاندان کو ہمیشہ اور ہر طرح ایک وفادار و صادق دوست پائیں گے… ( تاریخ دکن نواب اختر یار جنگ صفحہ 583 و 584 )
اس اقتباس سے شاید آپ کو کچھ کچھ میرے سوال کا جواب سمجھ میں آئےگا ۔
1857 ء! غدر کا زمانہ کون نہیں جانتا؟ پتہ نہیں اس کو غدر کیوں کہتے ہیں بلکہ اسی تعبیر کو مشہور کیا گیا یعنی غداری! انگریزوں کے خلاف جد وجہد کو غدر سے تعبیر کیا گیا اب تک ہم بولتے لکھتے آرہے غلطیہائے مضامین!
تاریخ دکن کے مولف آصف جاہ خامس نواب افضل الدولہ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:
"حکومت کا پہلا اور وزارت کا چوتھا سال تھا کہ ہندوستان میں غدر ہوگیا 1857 کے غدر کے زمانے میں جو استقلال اور دور اندیشی اور وفاداری ریاست عالیہ کی طرف سے ظاہر ہوئی وہ اس ملک اور گورنمنٹ کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے ممتاز رہی "
چند سطروں کے بعد یہ بھی لکھتے ہیں کہ
"سب کی نظر حیدرآباد کی شاہی قوت پر تھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک جانب تو برٹش گورنمنٹ اپنے قیامِ ہندوستان کا انحصار حیدرآباد کے اعلی رجحان پر اور دوسری جانب اہل بغاوت کا آیندہ نظم و نسق حیدرآباد کے ایما پر سمجھتے تھے. چنانچہ گورنر بمبئی نے رزیڈنٹ حیدرآباد کو موقع کا اندازہ کرکے تار دیا کہ اگر حیدرآباد نے ذرا بھی حرکت کی تو برٹش گورنمنٹ کا خاتمہ ہے ” (ص 492 تاریخ دکن)

اچھی طرح پڑھئے ان الفاظ کو یہ حقیقت تھی کہ حیدرآباد کی ریاست انگریزوں کے بخیے ادھیڑ سکتی تھی. دولت تھی طاقت تھی فوج تھی سب کچھ تھا کیا ہوجاتا جو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کرنے والوں کا ساتھ دے دیتے جدو جہد کرنے والے عام لوگ تھے میں سمجھتا ہوں اس وقت کے ہمارے بڑے بڑے اکابرین نے انگریزوں کی اس وفادار سلطنت کو متوجہ کیا ہوگا مگر یہ ٹس سے مس نہیں ہوئی.
بلکہ!
مولف دکن لکھتا ہے "
"شوراپور کے راجہ نے ہندوستان کے غدر میں شریک ہونے کے لئے سینکڑوں عرب اور ہزاروں روہیلے اور پنڈاری جمع کرلئے تھے. نواب مختار الملک بہادر نے اسے بحکمت عملی گرفتار کرکے رزیڈنٹ کے حوالے کردیا اور غدر کی نوبت نہ آنے پائی "(ص 492 سابق)
اندازہ لگائیے کہ غدر یعنی اہل ہند سے غداری کس نے کی؟

چلو مان لیتے ہیں یہ تو بعد کی بات ہے جب انگریزوں کو اچھا خاصہ اقتدار حاصل ہوگیا تھا یعنی کوئی یہ کہے کہ ریاست کے پاس اتنی "زیادہ” قوت نہیں تھی جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی انگریز بھی جانتے تھے کہ اگر غدر میں ریاست شریک ہوئی تو "ہم گئے ”  1857 اہل ہند کی اس جد جہد سے پہلے انگریزوں کے خلاف جب محبِ ملک و وطن سلطان ٹیپو بر سرِ پیکار تھے تو انگریزوں کا ساتھ کس نے دیا تھا؟
آپ نے ٹیپو سلطان کا مشہور جملہ سنا ہوگا:
"گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے”
مشہور جملہ ہے شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ٹیپو نے یہ جملہ اپنے امراء کی غداری کی وجہ سے کہا ہو مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ جملہ بہت بڑے پس منظر میں کہا گیا. یہ اشارہ مملکت آصفیہ کی طرف تھا. ٹیپو جانتے تھے کہ میرے بعد ہندوستان غلام ہوجائےگا. سب سے اہم بات ٹیپو سلطان کو انگریزوں سے کبھی بھی شکست نہیں ہوئی .شہادت کے آخری معرکے میں انگریز فوج کے سپاہی صرف ساڑھے6 ہزار تھے.  باقی کون تھے؟
دیکھو مولف تاریخ دکن کیا لکھتا ہے:
"1798 ء میں پھر انگریزوں اور ٹیپو کی جنگ ہوئی. سلطان ٹیپو نے ہر چند اعلیٰ حضرت کو انگریزوں کی اعانت سے باز رکھنا چاہا مگر کچھ اثر نہ ہوا اور کیونکر ہوتا ملکِ میسور سرکار نظام کا خراج گزار تھا .حیدر نایک نے اس پر قبضہ کرلیا. اور بیجاپور کے اکثر اضلاع دبا لئے تھے. غرض ساڑھے چھ ہزار فوج کنٹنجنٹ تحت عہدہ داران انگریزی اور ساڑھے چھ ہزار فوج آصفیہ نے علاوہ بہت سی فوج بے قاعدہ کے جن کا شمار 37 ہزار تھا بالاشتراک سریرنگ پٹنم پر حملہ کردیا .اور قلعہء مذکور فتح کرلیا. "(بحوالہ سابق ص 464)
کچھ بعید نہیں اس "فوج بے قاعدہ "کے پیچھے نظام سرکار کی مالی پشت پناہی ہوگی اور یقینا ہوگی کیونکہ اس وقت نظار سرکار کی ریاست کے حدود برطانیہ سے بھی بڑے تھے اور پھر میسور تو بزعمِ خویش حیدر نایک نے ہڑپ لیا تھا اور بیجاپور کے اکثر اضلاع بھی !کیا کچھ نہیں کیا ہوگا نظام سرکار نے؟
ٹیپو سلطان نے سلطنت آصفیہ سے تعلقات استوار کرنے کے لئے اپنی بیٹے کا رشتہ بھی بھیجا تھا مگر بڑی حقارت سے ٹھکرادیا گیا. حقارت سے ٹیپو سلطان کے والد کو حیدر نایک کہا کرتے تھے مولف نے بھی یہی الفاظ لکھے ہیں. یہ حقیقت ہے کہ سری رنگا پٹنم اور میسور سرکار نظام کے ماتحت تھے مگر عملا حکومت حیدر علی کی تھی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کا ساتھ نہ دینے کے لئے ہر ممکن مفاہمت اور دوستانہ تعلقات بنانے کی کوشش کی مگر نظام سرکار انہیں باجگزار ہی دیکھنا چاہتی تھی .بزدل سرکار میں اتنی طاقت تو تھی نہیں کہ ٹیپو کو باجگزار بنائیں اسی لئے ٹیپو کی طاقت کو کچلنے کے لئے بڑھ چڑھ کر انگریزوں کا ساتھ دیا. اور ٹیپو سلطان کی حکومت کو ختم کردیا اس طرح جنوبی ہند پر انگریزوں کو کنٹرول حاصل ہوگیا.نظام کو توقع تھی کہ میسور واپس مل جائےگا مگر انگریزوں نے میسور کے قدیم راجوں کو حکومت دیدی. اور نظام کے حصے میں بلاری اور کڑپہ کے علاقے دئے جنکی سالانہ آمدنی 1 کروڑ روپے تھی. اور یہ مالِ غنیمت بھی 1800ءکے معاہدء معاونت کے نام پر انگریزوں نے واپس لے لیا اس معاہدے سے نظام سرکار کی آزاد حیثیت پوری طرح ختم ہوگئی. (ملخص از زوالِ حیدرآباد ص 24،25)
غور کریں انگریزوں کی اس بد دیانتی اور مکاری کے بعد بھی نظام سرکار کو ہوش نہیں آیا اور نسلا بعد نسل انگریزوں کی وفادار رہی .کاش اس موقعے پر ٹیپو کا ساتھ دیتی یا کم از کم 1857 ء کے موقعے پر انگریزوں سے وفاداری کے بجائے اہلِ ہند کی "مبارک غداری” کا ساتھ دیتی تو انگریزوں کب کے ہندوستان چھوڑ کر جاچکے ہوتے. پھر 1860 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کو قانونا ختم کرکے باقاعدہ ہندوستان پر تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہوگئی…اللہ نے بار بار موقعے دئے مگر انگریزوں سے وفاداری نسل بعد نسل چلی آرہی تھی جب انگریزوں کو اللہ نے جنگ عظیم اول و دوم کی مصیبت میں مبتلاء کیا تب یہ موقع تھا کہ نظام ہفتم اپنے مطالبات ٹھوک بجاکر منواتے اور قانونی معاہدے کرتے. اپنے چھینے ہوئے علاقے واپس لیتے پھر ان کا تعاون کرتے مگر یہاں بھی ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دیا گیا. وفا کا دامن تھامے رہے اور 1948 ءمیں سقوط کے وقت ان دوسو سالہ وفاؤں کا انگریزوں نے کیا صلہ دیا؟۔
لله ملك السماوات والأرض وما فيهن وهو على كل شيء قدير

Exit mobile version