استاذ دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ
____________
روزہ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے، کھانے پینے اور جنسی خواہش سے باز رہنے کا نام روزہ ہے، دراصل یہی وہ بنیادی خواہش ہے جو انسان کی عام معاصی اور بے اعتدالیوں کی جڑ ہے، اگر انسان کی ہزاروں خواہشات و ضروریات کا جائزہ لیا جائے تو لذت کام و دہن اور خواہش نفس میں سمٹ کر رہ جاتی ہے، اور انسان اسی میں وسعت دے کر اور بے اعتدالی پیدا کرکے خواہشات کا ایک انبار لگا لیتا ہے اور پھر اس کی انجام دہی کے لیے جائز وناجائز، حلال و حرام طریقے اپنانے لگتا ہے ،
لہذا اسلام نے اس پر قابو پانے کے لیے روزہ فرض کیا ہے ، اسلام کا روزہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ تمام مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ پایا گیا ہے، جیسا کہ قرآن پاک نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے "كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون”
گویا روزہ قوت بہیمیہ پر قابو پانے کی ایک مشق ہے، فرشتوں اور انسانوں میں یہی قوت حد فاصل ہے، انسان جتنا زیادہ اس قوت کو مغلوب کرتا ہے اتنا زیادہ فرشتوں سے قریب تر ہوتا چلاجاتا ہے، گویا عالم ناسوت اور عالم ملکوت کا سفر اسی ترک خواہشات سے ہوتا ہے، روزے کے ذریعے قوت بہیمیہ کو زیر کیا جاتا ہے، اور قوت ملکوتیہ کو بڑھایا جاتا ہے ، دنیاوی کثافتیں دور ہوتی جاتی ہیں، اور بندہ ترقی کے منازل طے کرتا چلا جاتا ہے، لہذا روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو فرشتہ صفت بناتی ہے ،اور اس کا محرک صرف اور صرف اللہ کا خوف ہوتا ہے، ریاکاری اور نام و نمود کا شائبہ اس میں نہیں آنے پا تا ہے، اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ ارشاد فرماتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شاء اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی : إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم : 1638
’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
قرآن کریم کی آیت [کتب علیکم الصيام…… لعلكم تتقون] سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کا بڑا مقصد تقویٰ ہے، اور تقویٰ نام ہے”لحاظ رکھنے کا ” گویا اس میں بندہ ایک ماہ تک اپنے خالق کی ماننے کی ٹریننگ کرتا ہے، کہ کس طرح حکم خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاتا ہے، کہ پانی کا گھونٹ منہ میں ہے اور فجر کی اذان ہوگیی تو وہ گھونٹ حلق سے نیچے نہیں اتر سکتا، اور انواع و اقسام کے لذیذ کھانے سامنے موجود ہیں، بھوک و پیاس کی شدت بے حال کئے دے رہی ہے ، اور کوئی روکنے والا بھی نہیں ہے، لیکن اذان مغرب سے ایک سکنڈ پہلے پانی کا ایک قطرہ حلق سے نہیں اتار سکتا،
یہ کیا ہے؟ صرف اور صرف اللہ کا لحاظ ہے، جس کو عربی میں تقوی کہا جاتا ہے ، گویا روزہ کی اصل غرض وغایت تقوی کا حصول ہے، نیز اس سے بھوکے پیاسے غرباء کی بھوک و پیاس کا احساس بھی جاگتا ہے، غمخواری کا جذبہ، دوسروں کی مدد کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، روزہ دار بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتاہے، اس طرح اس میں برداشت کی قوت پیداہوتی ہے، جس کو اسلام میں صبر کہا جاتا ہے،
لیکن یہ سارے فوائد اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب روزہ کو اسکے احکامات اور آداب کی رعایت کے ساتھ ادا کیا جائے-
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندھلویؒ نے لکھا ہے کہ باقی اعضائے بدن کی حفاظت بھی ضروری ہے، مثلا ہاتھ کا ناجائز چیز کے پکڑنے سے، پاؤں کا ناجائز چیز کی طرف چلنے سے روکنا، پیٹ کا مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھنا، اسی طرح باقی اعضاء بدن کی محرمات سے حفاظت کرنا، حضرت شیخ نے روزے کا ایک ادب یہ بھی لکھا ہے کہ افطار کے وقت حلال مال سے کھائے اور اتنا نہ کھائے کہ شکم سیر ہوجائے اس لیے کہ اتنا کھانے سے روزے کی غرض ہی فوت ہوجائے گی، کیوں کہ روزے سے مقصود قوت شہوانیہ اور بہیمیہ کا کم کرنا ہے اور قوت نور انیہ اور ملکیہ کا بڑھانا ہے، گیارہ مہینے تک بہت کچھ کھایا ہے، اگر ایک مہینے کچھ کم کھالیا تو کیا جان نکل جائے گی، مگر ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افطار کے وقت تلافی ما فات میں اور سحر کے وقت حفظ ما تقدم میں اتنا زیادہ کھالیتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ دنوں میں اتنا کھانے کی نوبت نہیں آتی(فضائل اعمال : ۵۹۰)۔