✍سرفراز فیضی
_____________
رمضان کا مہینہ اپنی برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ سایہ فگن ہے ۔زمانہ کے اعتبار سے رمضان کی سعادتوں کی تین جہتیں ہیں ۔ مغفرت ، برکت اور تربیت ۔ یہ مہینہ ایک طرف ماضی میں بندے سے ہونے والی خطائوں کی مغفرت کا موقع ہے ۔ وہ بھی ایسا موقع کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اس مہینہ کو پالینے کے بعد بھی مغفرت نہ کراپانے والے بندہ کو بد نصیب قرار دیا ہے ۔ (۱) دوسری طرف حال میں نیکوں کی برکتیں سمیٹنے کا مہینہ ہے ۔ کہ بندہ سے اس ماہ میں کم عمل اور کم محنت پر زیادہ اجر کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ رمضان میں عمرہ کرنے پر حج کے ثواب کی حدیث اس پر دال ہیں۔(۲) تیسری طرف یہ بندے کے مستقبل کے لیے تربیت کا ایک مستقل کورس ہے ۔ جو ہر سال بندے سے کرایا جاتا ہے ۔ ہم رمضان کے تربیتی زاویوں کے حوالے سے کچھ باتیں اس مضمون میں سپرد قرطاس کریں گے ۔
روزہ اور تقویٰ:
عبادت کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عبادت بندے کی طرف سے اللہ کی عظمت و بزرگی اور اپنے فقر واحتیاج کے اظہار کا ذریعہ ہے ۔ البتہ بندہ جب ان عبادتوں کا حق ادا کرتا ہےتو یہ عبادتیں بندے کے کردار پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان اثرات میں سب سے گہرا اثر ہے تقویٰ ۔ رمضان کے روزوں کا تقویٰ کے ساتھ خصوصی تعلق ہے ۔ یہ تعلق کئی زاویوںسے ہے ۔
قرآن مجید میں متقین کی سب سے پہلی صفت بیان ہوئی ۔ الذین یومنون بالغیب ۔ جو لوگ اللہ پر غائبانہ ایمان رکھتے ہیں ۔ اور روزہ ایمان بالغیب کا سب سے بڑا مظہر ہے کیونکہ یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایسی راز دارانہ عبادت ہے جس کی تکمیل کا علم یا تو اللہ کو ہے یا بندے کو ۔ روزے کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اللہ رب العزّت نے روزے کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: الصوم لی ۔ روزہ میرے لیے ہے ۔ وانا اجزی بہ ۔ اور اس کی جزاء میں دوں گا ۔ یدع طعامہ وشرابہ وشہوتہ لاجلی۔ بندہ اپنا کھانا پینا اور شہوت میرے لیے قربان کردیتا ہے ۔ (۳)
روزہ کی ساری سعادتیں اصل میں اس لِاَجلِی ( میرے لیے) ہی میں پنہاں ہیں ۔ یہ لِاَجلِی ہی بھوک اور پیاس کی فطری حاجت کو عبادت بنادیتا ہے ۔ اور عبادت بھی اس درجہ کی کہ روزے دار کے منہ کی بو بھی اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہوجاتی ہے ۔(۴) ایسی عبادت جس کو معمول بنانے والوں کےلیے رب العزت والجلال نے جنّت میں ایک الگ دروازہ خاص کردیا ہے۔(5) یہ لِاَجلِی جب روزہ کی بنیاد بنتا ہے تو روزہ کے شجر سے تقویٰ کا ثمر پھوٹتا ہے ۔ روزہ کی عبادت سے تقویٰ بر آمد کرنا ہی روزہ کا بنیادی مقصد ہے ۔ اس لیے روزہ کی فرضیت جس آیت میں کی وہیں فرمایا ۔ لعلکم تتقون ۔ یہ روزہ تم پر فرض ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ تم تقویٰ والے ہوجاؤ۔ بندے کا روزہ اگر اس لِاَجلِی سے محروم رہ جائے تو روزہ عبادت نہیں ، عادت ہے ۔ ایک رسم ، روایت ہے ۔ دکھاوا ہے ۔ اور دکھاوے کا روزہ اجر نہیں وِزر ہے۔ لائق ثواب نہیں باعث عذاب ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : من صام یرائی فقد اشرک ۔ جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ (۶)
تربیت نفس:
نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے ۔ ان النفس لامارۃ بالسوء۔ بلا شبہ نفس انسان کو برائی کی طرف لے جانے والا ہے ۔(یوسف :53) زندگی کے ہر مرحلہ میں بندے کے سامنے دو راہیں ہوتی ہے ۔ ایک راہ وہ جس پر نفس اس کو کھینچ رہا ہے ۔ دوسری طرف وہ جس پر چلنے کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ نفس کے راستے کی منزل جہنم ہے۔ حفت الجنۃ بالمکارہ ، وحفت النار بشہوات۔ جنت نفس کی ناپسندیدہ چیزوں اور جہنم شہوات نفس سے گھیر دی گئی ہے ۔(۷) اللہ کا راستہ جنت کا راستہ ہے ۔ جس پر انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین چلے اور جس پر چلنے کی توفیق ہم صبح وشام رب العزت سے طلب کرتے ہیں ۔
بھوک اور پیاس نفس کا سب سے شدید تقاضہ ہے ۔ روزہ اللہ کے لیے نفس کے تقاضوں کو مارنے کی مشق ہے ۔ بندے کے لیے سبق ہے کہ جس رب کے لیے وہ اپنے نفس کے جائز تقاضوں کی قربانی دے رہا ہے اس رب کےلیے نفس کے ناجائز تقاضوں کو بدرجہ اولیٰ قربان کرے ۔
رزق اور رزّاق :
پیٹ انسان کی زندگی کی ضرورت ہے ۔ لیکن انسان کی سوچ نیچ ہوتو وہ پیٹ کو اپنا معبود بنا لیتا ہے ۔ یہ ایسی ضلالت ہے جو انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتی ہے ۔ انسان گمراہی کے آخری درجہ پر جاپہنچتا ہے ۔أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ۔ دیکھا آپ نے اس شخص کو جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا ہے ؟ باوجود یہ کہ وہ جانتا بوجھتا ہے اللہ نے اسے گمراہ کردیا ہے ۔ اس کی سننے اور سمجھنے کی صلاحیتوں پر مہر لگا دی ہے ۔ اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں ۔ اب اگر اللہ اسے ہدایت نہ دے تو کون اسے ہدایت دے سکتاہے ۔ کیا تم پھر بھی نصیحت قبول نہیں کروگے ؟(الجاثیہ :۴۵)
پیٹ ہی جب انسان کی زندگی کا محور ہوجائےتو انسان سے انسانیت نکل جاتی ہے ۔وہ جانوروں کی زندگی جیتا ہے ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ تو بس عیش کرنے کے لیے جیتے ہیں اور ایسے کھاتے ہیں جیسے جانور کھاتے ہیں اور جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے ۔ (محمّد:12)
روزہ ایمان والے بندے کی طرف سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ رزق کا پجاری نہیں رزاق کا بندہ ہے ۔ پیٹ بھرنا اسکی زندگی کی ضرورت ہے ۔ مقصد نہیں ۔ یہ رزق سے بے اعتنائی نہیں رزاق سے لگاؤ ہے ۔ اس سے عقیدت و محبّت کا اظہار ہے۔ اطاعت کا عہد ہے ۔ اس کی عملی مثال ہے ۔ اس بات کا اعتراف ہے کہ کھانا ، کھلانے والے سے بڑا نہیں ۔ کھلانے والا جب تک کھلائے تو کھانا عبادت اور کھلانے والا جب کھانے سے روک دے تو کھانے سے رک جانا عبادت ۔
شکر اور صبر:
نعمت اور مصیبت زندگی کے دو پہیے ہیں ۔ انسان ان دو حالتوں سے کبھی جدا نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن بندے کا ایمان اور کفر ان دونوں حالتوں کے ساتھ اس کے رویّہ کو مختلف کردیتا ہے ۔ کافر نعمت میں تکبر اور مصیبت میں شکوے، کفر اور ناشکری کی حالت میں ہوتا ہے ۔ مومن بندہ نعمت میں شکر اور مصیبت میں صبرو استقامت کا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ روزہ بیک وقت شکر کی بھی تعلیم دیتا ہے اور صبر کی بھی مشق کراتا ہے ۔
شکر دو چیزوں کا مرکّب ہے ۔ نعمت کی قدر اور منعم کی احسان مندی ۔ نعمت کی قدر ہی نہ ہوتو منعم کے لیے احسان مندی کے جذبات پیدا ہی نہیں ہوسکتے ۔ اب انسان کا مزاج یہ ہے کہ جب تک نعمت اس کی دسترس میں ہوتی ہے اس کو نعمت کی قدر کا احساس نہیں ہوتا ۔ جب نعمت سے محروم کردیا جاتا ہے تو نعمت کی اہمیت کا احساس جاگتا ہے ۔ روزہ کے مختصر سے وقفہ میں جب بندہ تھوڑی دیر کے لیے زندگی کی دو بنیادی ضرورتوں سے دور کردیا جاتا ہے تو ان کی اہمیت کا احساس اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ نعمت کی قدر کا یہ احساس جب ایمان کے ساتھ ملتا ہے تو بندہ شکرگذاری کے مقام تک پہنچتا ہے ۔
روزہ صبر اختیاری کی ایک بہترین مثال ہے ۔ صبر کبھی اجباری ہوتا ہے ۔ صبر اجباری یعنی ایسی مصیبتوں پر صبر جن کے دور کرنے کی طاقت بندے میں نہیں۔ صبر کبھی اختیاری ہوتا ہے کہ بندہ مصیبتوں کے دفع کرنے پر قادر ہو لیکن اللہ کی رضا کے خلاف جانے کے بجائے وہ اس مصیبت پر صبر کرنے کو ترجیح دے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں صبر کی ان دونوں قسموں کی مثالیں موجود ہیں ۔ بچپن میں ان کا کنویں میں ڈالا جانا ایسی مصیبت تھی جس کو دفع کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ اس حالت میں ان کا صبر ان کی مجبوری تھی ۔ لیکن عزیز مصر کی بیوی کی دعوت پر بدکاری کرنے کے بجائے جیل کی مصیبتیں انہوں نے خود اختیار کیں ۔ جیل کی مصیبتوں پر ان کا صبر اختیاری تھا۔ اختیاری صبر، صبر کا اعلیٰ درجہ ہے اور روزہ اس صبر کا بہترین عملی نمونہ ۔ کہ بندہ بھوک اور پیاس کی اس شدّت پر اللہ کی رضا کے لیے صبر اختیار کرتا ہے ۔ روزہ اس طرح بندے کو زندگی کے راستے میں اللہ کی فرمانبرداری پر آنے والی ہر تکلیف پر صبر کی مشق کراتا ہے ۔ مومن بندے کی پوری زندگی اسی صبر سے عبار ت ہے ۔ اُس کی زندگی بھی روزہ کی طرح ہوتی ہے ۔ وہ زندگی بھر خواہشات کی بھوک اور شہوتوں کی پیاس کو مارتے ہوئے جنت کے افطار کا انتظار کرتا ہے ۔ اور اپنےعزم میں کامیاب رہا تو قیامت کے دن اس خوش بختی کو پا بھی لے گا۔
لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا؛ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ, وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطا رکرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہو گا۔(8)
فقر کا احساس:
عبادت دو رویّوں سے عبارت ہوتی ہے ۔ غایۃ التعظیم اور غایۃ التذلل ۔ یعنی انتہاء درجہ کی تعظیم اور انتہاء درجہ کی انکساری اور تذلل ( اپنی بے بسی ، لاچارگی ، فقر واحتیاج کا اظہار)۔ انہیں دو نوں احساسات کے اظہار کا نام عبادت ہے ۔ اللہ کی قدرت وعظمت اور عطا وعنایت کا احساس بندے کے دل میں اللہ کےلیے تعظیم کے جذبات پیدا کرتا ہے تو اپنی محتاجگی اوربے بسی کا ادراک تذلل اور محتاجگی کے احساس کو جنم دیتا ہے ۔ روزہ ایک طرف اللہ کی عنایتوں کی قدر بندے کے دل میں پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اس کو اپنی لاچارگی اور بے بسی کا احساس دلاتا ہے ۔ بھوک اور پیاس انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ کھانا پینا اس کی زندگی کی بنیادی ضرورت ۔ خالق اور مخلوق کے بیچ یہ سب سے بڑا فرق ہے ۔کہ مخلوق محتاج محض ہے اور خالق غنی اور صمد۔ قرآن مجید میں جہاں حضرت عیسی اور مریم علیھما السلام کی ربوبیت کی نفی کی گئی وہاں یہی ایک دلیل ان کی خدائی کے ردّ کےلیے کافی سمجھی گئی ۔ مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ. مسیح ابن مریم تو بس ایک رسول تھے۔ ان سےپہلے بھی کئی رسول گذر چکے ہیں ۔ ان کی والدہ ایک راست باز خاتون تھیں۔ اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھیے ہم ان کے سامنے نشانیاں کتنے واضح انداز میں پیش کررہے ہیں پھر بھی یہ کہاں بہکے چلے جارہے ہیں۔(المائدہ :75)
انسان کی اصل یہ ہے کہ وہ بندہ ہے ۔ محتاج وبے بس۔ لا چار اور کمزور ۔ اس کی ایک ایک سانس اللہ رب العزت والجلال کی عنایتوں کی محتاج ہے ۔ اس کی ساری قوتیں ، سب صلاحیتیں دو وقت کی روٹی کی محتاج ہیں ۔ اوپر والے کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں لیکن اگر کھانا اور پانی کی یہ دو نعمتیں ہی وہ انسان سے چھین لے اس کی زندگی کا قصہ تمام ہے ۔ روزہ بندے کے فقر وبےبسی کا احساس اُس کے دل میں پیدا کرتا ہے۔ فقر و محتاجگی کا یہ احساس ہی بندگی کی بنیاد ہے ۔ یہ احساس اس کو بندگی کی حدوں میں رکھتا ہے ۔ اپنی حدوں کو پھلانگ کر تکبر کا راستہ اختیار کرنے سے روکتا ہے ۔ ۔ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِين.َ
خاتمہ:
زندگی میں ایک اور رمضان کا پا لینا انتہائی سعادت اور بڑی نعمت ہے. اس نعمت کی قدر اور عظمت کا احساس اگر دِل میں پیدا نہ ہورہا ہوتو ان لوگوں کو یاد کریں جو پچھلے رمضان میں آپ کے ساتھ تھے لیکن اس رمضان کی سعادتیں اللہ نے اُن کی قسمتوں میں نہیں لکھی تھیں۔
ضرورت بھر کھائیں۔
ضرورت بھر سوئیں۔
اور ضرورت بھر بات کریں۔
یہ تین فارمولے آپ کے رمضان کو پُر سعادت بنا سکتے ہیں۔
اللہ ہم سب کے لیے اس رمضان کو خوشگوار تبدیلی والا رمضان بنائے۔ نیکیوں کے اس سیزن میں اپنے نامہ اعمال طاعت کے کاموں سے مزیّن کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ گناہوں کے دامن کو رب کریم مغفرتوں کی برکھا میں پاک کرلینے کی سعادت سے نوازے. اپنے ان خوش بخت بندوں میں شامل کرے جن کے نام اس ماہ جنّت کی رسید کٹنی ہے اور جہنّم سے آزادی کا پروانہ ملنا ہے۔
حوالہ جات:
(۱)سنن ترمذی: حدیث نمبر ۷۴۹۲۔ شیخ الالبانی نے اس روایت کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
(۲)سنن ابی داود: حدیث نمبر ۱۹۹۰، شیخ الالبانی نے اس کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
(۳)صحیح بخاری : حدیث نمبر۷۴۹۲
(۴)صحیح بخاری : حدیث نمبر۷۴۹۲
(۵)صحیح بخاری : حدیث نمبر:۱۸۹۶
(۶)مسند احمد۔ ط الرسالہ: حدیث نمبر ۱۷۱۴۰
(۷)صحیح مسلم : حدیث نمبر ۲۸۲۲
(۸)صحیح بخاری : حدیث نمبر۷۴۹۲
(الجماعۃ ، جون، 2017 )