Site icon

راج ٹھاکرے کے دو راستے !

✍ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

____________

وہ سیاست داں جن کی اُٹھان سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ آگے جاکر اپنی انگلی سے آسمان میں سوراخ کر دیں گے ، اکثر درمیان ہی میں بے دَم ہوجاتے ہیں ، اس کی ایک مثال راج ٹھاکرے ہیں ۔ جب تک راج ٹھاکرے اپنے چچا بالا صاحب ٹھاکرے کے ساتھ رہے ، اُن کی تصویر بنے رہے ۔ انہی کی طرح بولنا ، چلنا اور انہی کی نقل اتارنا ۔ لوگ انہیں بال ٹھاکرے کا وارث کہنے لگے تھے ، اور وہ بھی خود کو شیوسینا کا مالک سمجھنے لگے تھے ۔ لیکن بال ٹھاکرے نے جب ادھو ٹھاکرے کو اپنا جانشین بنایا تب راج ٹھاکرے کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ، اور وہ شیوسینا سے الگ ہوگیے ، اپنی ایک سیاسی پارٹی ’ مہاراشٹر نونرمان سینا ‘ ( منسے ) کے نام سے بنائی ، ابتدا میں کچھ ٹھیک ٹھاک سرگرمی دکھائی ، مناسب سیٹیں بھی جیتیں ، لیکن پھر ادھو ٹھاکرے کے سامنے ان کی ’ منسے ‘ چِت ہو گئی ۔ راج ٹھاکرے  ’ تخریبی ‘ تو ہیں لیکن سیاسی طور پر ناکام لیڈر ہیں ۔ ان کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی کی شروعات ’ سیکولر ‘ نظریے کی بنیاد پر کی تھی ، لیکن پھر انہوں نے کٹّر ہندتوادی کا رنگ اختیار کیا ، کچھ دن وہ وزیراعظم نریندر مودی پر گرجے برسے ، اور اب وہ مودی کی گود میں جاکر بیٹھ گیے ہیں ۔ گویا انہیں سیاسی طور پر کوئی پختہ زمین نہیں مل سکی جس پر وہ اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد کو مضبوط کرسکتے ۔ آج راج ٹھاکرے کا ذکر ان کے دہلی دورے اور جمعرات کو وزیراعلیٰ شندے اور نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس سے ملاقات کے سبب ہے ۔ ان ملاقاتوں کو ویسے تو الگ الگ معنی پہنائے جا رہے ہیں ، لیکن ان ملاقاتوں کی بنیاد میں  بی جے پی کے ذریعے شیوسینا کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کا واقعہ ہے ۔ بی جے پی شیوسینا کو توڑ کر خوب خوش تھی ، لیکن اب شیوسینا کی تقسیم سے اُسے اپنے مقاصد نکلتے نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کا یہ ماننا ہے کہ مہاراشٹر کے الیکشن میں بال ٹھاکرے کے خاندان کی مدد یا تعاون کے بغیر بی جے پی کی دال گلنے والی نہیں ہے ۔ اور یہ سچ بھی ہے ؛ بی جے پی کی آج کی کامیابی شیوسینا سے اتحاد کا ہی نتیجہ ہے ، لیکن اب اتحاد ٹوٹ چکا ہے ۔ کوشش تو خوب کی گئی کہ ادھو ٹھاکرے کو منا لیا جائے ، اور وہ ایک بار پھر بی جے پی کے ساتھی بن جائیں ، لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ۔ ادھو ٹھاکرے اب کسی بھی صورت میں بی جے پی کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہیں ۔ لہذا اب بی جے پی کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ راج ٹھاکرے کو اپنے پالے میں شامل کر لے ۔ سوچ یہ ہے کہ نہ سہی ادھو ، راج ہی سہی ، ایک ٹھاکرے تو ساتھ رہے گا ۔ ایسا سمجھا جاتا تھا کہ دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کے بعد راج ٹھاکرے کی ’ منسے ‘ اور بی جے پی میں انتخابی مفاہمت ہو جائے گی ، اور جمعرات کو اس کا اعلان ہو جائے گا ، لیکن راج دہلی سے واپس آ چکے ہیں ، اور شندے و فڈنویس سے ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں ، مگر اتحاد کا کوئی اعلان ہنوز نہیں ہوا ہے ۔ شاید معاملہ سیٹوں کی تقسیم کا ہے ؛ راج ٹھاکرے کو ریاست میں کم از کم تین سیٹیں مطلوب ہیں ، مگر بی جے پی انہیں صرف ایک سیٹ دینا چاہتی ہے ۔  مزید یہ کہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ راج ٹھاکرے کا امیدوار ، جو ان کا بیٹا امیت ٹھاکرے ہوگا ، ’ منسے ‘ کے نشان ’ انجن ‘ پر الیکشن لڑے ۔ شرط یہ ہے کہ راج ٹھاکرے اگر بی جے پی سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یا تو این سی پی ( اجیت پوار ) یا پھر شندے شیو سینا کی چناؤ نشانیوں میں سے کسی ایک پر  ، یعنی ’ گھڑی ‘ یا ’ تیر کمان ‘ پر انتخاب لڑنا ہوگا ، اور اپنے ’ انجن ‘ کو چھوڑنا ہوگا ۔ اس شرط کو ماننے کا مطلب ، راج ٹھاکرے کا اپنی سیاسی پارٹی سے منھ پھیرنا ہوگا ۔ بی جے پی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہے ، ایک تو یہ کہ اگر راج ٹھاکرے ’ انجن ‘ چھوڑنے پر راضی ہوجاتے ہیں تو ان کے بیٹے امیت ٹھاکرے کو ’ تیر کمان ‘ پر الیکشن لڑوا کر ادھو ٹھاکرے کے سامنے ان کے گھر سے ہی چیلنج کھڑا کر دیا جائے ، اور دوسرا یہ کہ اگر راج ٹھاکرے شرط قبول نہیں کرتے تو انہیں باہر کا راستہ دکھا کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے ، اور یو پی والوں کو یہ کہہ کر خوش کر دیا جائے کہ ’ ہم نے یو پی والوں کو بُرا بھلا کہنے والے راج ٹھاکرے کو اپنے ساتھ شامل نہیں کیا ‘۔ راج ٹھاکرے دو راہے پر کھڑے ہیں ، لیکن بی جے پی سے ہاتھ ملانے کا انجام تو انہیں جھیلنا ہی پڑے گا ۔ بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ راج ٹھاکرے کو استعمال کر لیا جائے ، اور اس طرح استعمال کیا جائے کہ ٹھاکرے خاندان کا کوئی بھی فرد بی جے پی کے لیے کبھی چیلنج نہ بن سکے ، راج ٹھاکرے بھی نہیں ۔ لہذا راج ٹھاکرے کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ اپنے روٹھے ہوئے بھائی ادھو ٹھاکرے کو منا لیں ، ان سے ہاتھ ملا لیں ، اور مل کر بی جے پی کو پٹخنی دے دیں ۔ بی جے پی انہیں سبق سکھائے اس سے بہتر ہے کہ یہ بی جے پی کو سبق سکھا دیں ۔

Exit mobile version