Site icon

قرآن کا اسلوبِ بیان اور اندازِ تخاطب

✍️ ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد

_________________

قرآن مجید نے انبیاء کرام کو سب سے بہترین اور با اعتماد طبقہ قرار دیا ہے۔ ان کی زندگیاں ہر معاملے میں کامل اور واجب الاتباع ہوتی ہے۔ انسانوں میں یہی طبقہ معصوم عن الخطا ہوتا ہے، ان کا انتخاب اور ان کی حفاظت اللہ تعالی خود کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے:
’’یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہدایت دی تھی تو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیے۔‘‘ (الانعام:۹۰)
اس لیے قرآن مجید انہیں ماڈل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نبی یا رسول کی بعثت اسی لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ تعالی کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے۔‘‘ (النساء: ۶۴) اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنی وحدانیت اور اپنی بندگی کی طرف دعوت دینے کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا جن کی بعثت ہر زمانے اور ہر وقت ہوتی رہی۔ جب بھی دنیا میں نظام حق درہم برہم ہو جاتا اور زمین فساد سے بھر جاتی اور ہر طرف کفر و شرک اور جہالت پھیل جاتی تو اللہ تعالی اپنے منتخب بندوں کو دنیائے انسانیت کی طرف مبعوث فرماتا تاکہ وہ نوع انسانیت کو طاغوت کی بندگی اور کفرو شرک کی گندگی سے نکال کر اللہ کی کی بندگی میں دیں۔ یہ وہ بنیادی کام ہے جسے حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیائے کرام نے انجام دیا۔ ہر پیغمبر نے اللہ کی بندگی، اصلاح عقیدہ اور تمام عبادتوں کو اللہ کے لیے خالص کرنے اور شرک سے اجتناب کرنے کو اپنی دعوت کا مرکز و محور بنایا اور اسی مشن کو دن رات، اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے آگے بڑھایا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو (الانبياء:25)

دعوتِ توحید اور اللہ کی بندگی کی طرف دعوت:
اللہ تعالی نے ہر قوم میں دعوت توحید کے لیے کسی نبی یا رسول کو بھیجا ہے اور کسی بھی قوم کو اس نعمت عظمیٰ سے محروم نہیں رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو۔(فاطر :۲۴) غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم، علاقہ اور نسل میں ڈرانے والا اور بشارت دینے والا بھیجا جس نے اپنی قوم کو انجام بد سے ڈرایا اور ان کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو خوش خبری سنائی اور جب کوئی قوم کسی نبی یا رسول کی دعوت سے انکار کرتی یا اس کے پیغام کو ٹھکرا دیتی ہے تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالی بھی اس قوم پر غضب ناک ہو کر اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ’’ہر امت کے لیے ایک رسول ہے پھر جب کسی امت کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘(یونس:۴۸) انبیاء کرام کے مشترکہ نکات قرآن مجید نے تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اللہ کی عبادت کرنا اور کفرو شرک اور طاغوت سے اجتناب کرنا پیغمبرانہ دعوت کے بنیادی نکات ہیں۔ اگر کوئی دعوت اس بنیادی نکتہ سے خالی ہو تو وہ ہرگز پیغمبرانہ دعوت نہیں ہو سکتی۔ ارشاد ہے ’’اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘ (النحل:۳۶) اس آیت میں طاغوت کا لفظ آیا ہے۔ اللہ کے سوا جس کسی کی بھی عبادت، غلامی یا اطاعت کی جائے وہ طاغوت ہے۔ اللہ کے بجائے ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جائے اور ہر وہ فعل جو انسان کو خالق کائنات سے دور یا غافل کرے اور اس کو شیطان کی پرستش کی طرف مائل کرے، طاغوت کہلاتا ہے۔ اسی لیے اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ طاغوت سے مکمل انکار کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ گویا بندہ خدا رہنے کے ساتھ طاغوت کی پرستش سے بچنا مطلوبہ ایمان کا تقاضا ہے۔ اس کی مزید وضاحت قرآن میں اس طرح کی گئی ہے ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہیں کرو گے۔(اعراف : ۵۹) یہ بھی ارشاد ہوا ہے ’’اور اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھیراو۔ (النساء:۳۶) اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر کو جو حکم صادر ہوتا ہے وہ قرآن کی زبان میں یہ ہے’’ تم صاف کہہ دو کہ مجھے تو صرف اللہ کی بندگی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے ساتھ شریک کروں۔‘‘ (الرعد:۳۶) کفرو شرک اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے۔ بت پرستی یا شرک کا مرتکب ہونا اللہ تعالی کی بڑائی اور اس کی قدرت کو کھلے عام چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ کفر وشرک قوموں کے زوال کا سبب بنتا ہے اسی لیے قرآن نے بت پرستی اور مشرکانہ رسوم کو اقوام کے زوال و ہلاکت کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ قرآن نے متعدد مقامات پر بتایا ہے کہ جن قوموں پر عذاب نازل ہوا ان میں پہلے نبی بھیجے گئے جنہوں نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی لیکن کفارو مشرکیننے ان نبیوں کا مذاق اڑایا، ان کی تکذیب کی اور خلاف ورزی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا اور اپنی بت پرستی پر بدستور قائم رہے جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ زوال و انحطاط میں مبتلا ہو کر تاریخ کے اسٹیج سے بالکل غائب ہو گئیں۔

دعوت کا قرآنی منہج:
دعوت کا لفظ قرآن مجید میں کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ ۲۰۸ مرتبہ دیگر مشتقات کے ساتھ استعمال میں آیا ہے جس میں ۴۴ مرتبہ اللہ اور اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔دعوت کا لفظ دعا سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی چیز کی طرف بلا نا، آگاہ کرنا یا عمل پر ابھارنے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس کے معنی لوگوں کو اللہ اور اس کے دین کی طرف بلانا، راغب کرنے اور رہنمائی کرنے کے ہیں تاکہ وہ دنیا و آخرت کی کامیا بی و کامرانی سے ہم کنار ہوں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ رشد و ہدایت، خیر خواہی، بھلائی، کامیابی و کامرانی، سرخ روئی اور سعادت کی طرف بلانے کا تذکرہ ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ ‘‘(یونس:۲۵) اس آیت میں دو اہم باتوں کی طرف نشان دہی کی گئی ہے ایک یہ کہ امت مسلمہ کو امت وسط کہا گیا ہے۔ وسط کے معنی درمیان کے ہیں یعنی اس امت کی یہ بنیادی صفت قرار دی گیا کہ یہ امت ہر معاملے میں معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہے اور اعتدال و توازن کی روش پر قائم رہے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ روز محشر میں جب لوگ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو رسول گواہی دے گا کہ اس نے دین مبین کو لوگوں تک من و عن پہنچادیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’تم ان سے کہہ دو کہ راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔‘‘(یوسف :۱۰۸) اللہ کے رسول ﷺ نے لوگوں کو یقین و بصیرت اور واضح دلیل کے ساتھ اللہ کی وحدانیت اور بندگی کی طرف بلایا، یہی طریقہ آپ کی اتباع کرنے والوں کا ہونا چاہیے۔ اللہ کی طرف دعوت دینے والے کو اس طرح سراہا گیا ’’تم اپنے رب کی طر ف دعوت دو یقینا تم سیدھے راستے پر ہو۔‘‘ ( الحج: ۶۷) اللہ تعالیٰ نے داعی کو روشن چراغ بنا کر بھیجا (احزاب : ۴۶) مذکورہ بالا آیات میں دعوت یعنی اللہ کی طرف بلانے کا تذکرہ ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہی دعوت دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی کے لیے معتبر، مفید اور ضامن ہے جو اللہ اور اس کے دین کی طرف ہو۔ اس دعوت میں کوئی خیر اور نجات نہیں جو اللہ اور اس کے دین کے بجائے کسی اور مذہب،ازم، نظریہ اور شخصیت کی طرف ہو۔ اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی تنبیہ کرنے والا نہ آیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے کسی نہ کسی نبی یا رسول کو بھیجا تھا جس نے ان کو کفر وشرک سے نکال کر الله وحدہ لا شریک کی بندگی کی طرف بلانے کا فریضہ انجام دیا تاکہ لوگ خیر و فلاح کی راہ اختیار کر سکیں۔ جب رسول لوگوں کے سامنے اپنا فریضہ دعوت ادا کرتا ہے اور قوم اس کی دعوت ٹھکرا دیتی ہے یا پس پشت ڈال دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا فیصلہ سنا دیتا ہے۔(یونس :۴۸)

امت کی داعیانہ حیثیت اور قرآن:
اللہ کے رسول ﷺ کے بعد یہ ذمہ داری آپ کی امت پر عائد کی گئی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خیر امت کے مقام پر فائز کیا۔ پیام حق کی اشاعت و تبلیغ کی جو ذمہ داری پیغمبر برحقؐ کی تھی وہ آپ کے بعد امت مسلمہ کے کندھوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (آل عمران: ۱۱۰) اس آیت میں امت مسلمہ کو خیر امت کے لقب سے نوازا گیا جس کا کام نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کو سچے دل سے اپنا خالق و مالک تسلیم کر کے ایمان لانا ہے۔ ایک جگہ کامیاب لوگوں کی یہ صفت بتلائی گئی ہے: تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (آل عمران: ۱۰۴) امت مسلمہ چونکہ دین اسلام کی علم بردار ہے اور اس کو تمام انسانوں تک دین مبین پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس کے لیے وہ اپنے رب کے نزدیک جواب دہ بھی ہے۔

داعی کی حیثیت اور قرآن:
قرآن مجید میں دعوت اور داعی کے لیے بہت سی اصطلاحات وارد ہوئی ہیں جن میں سے ہر اصطلاح معنی و مفہوم کے اعتبار سے انتہائی جامع اور کامل ہے۔ اس کے علاوہ داعی کے لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد اصطلاحات بیان کی ہیں جن کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔
(ا) مذکر: قرآن مجید میں داعی کے لیے مذکر کی اصطلاح بیان ہوئی ہے جس کے معنی یاد دہانی،نصیحت اور تنبیہ کرنے کے ہیں۔ (الغاشیہ: ۲۱)
(۲) مناد: مناد کے معنی پکارنے کے ہیں اور منادی ڈھنڈورچی اور اعلانچی کو بھی کہتے ہیں اسی لیے داعی بلند آواز سے بھی صداقت و حقانیت کی طرف بلاتا ہے۔(آل عمران : ۱۹۳)
(۳) واعظ: قرآن مجید نے داعی کے لیے واعظ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ واعظ ایسی بھلائی کی بات کہتا ہے جس سے دلوں میں رقت پیدا ہو جاتی ہے اور لوگوں کو خدا کی عقوبت سے ڈرا کر اجروثواب کی تحریص بھی دلاتا ہے اور ان کو ترغیب و ترہیب کے ذریعہ سے خوف خدا کی طرف مائل کرتا ہے۔
(۴) بشر و مبشر:۔ داعی بشر و مبشر بھی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں داعی کے لیے یہ دونوں اصطلاحیں بیان ہوئی ہیں۔ داعی لوگوں کو اللہ کی بندگی اور سیدھی راہ اختیار کرنے پر بہتر ین اجر اور معاوضے کی خوش خبری سناتا ہے۔ (المائدہ : ۱۹)
(۵) نذیر: داعی کو نذیر بھی کہا جاتا ہے۔ انذار کے معنی ڈرانے کے ہیں اور نذیر انجام بد سے آگاہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔نذیر کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو اعمال کے نتائج اور روزِ جزاء کے حساب و کتاب سے ڈراتا ہے۔
(۶) ناصح : ایک داعی ناصح بھی ہوتا ہے۔ نصیحت ہر اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جن میں دوسروں کی خیر خواہی مطلوب ہو۔ داعی کو اسی صفت سے متصف کیا گیا ہے کیونکہ وہ دوسروں کا خیر خواہ ہوتا ہے۔ (اعراف : ۶۸)
( ۷) مرشد:۔ داعی نوع انسانیت کے لیے انتہائی مخلص رہنما ہوتا ہے اور اس کی رہنمائی ذاتی مفادات سے بلند ہوتی ہے (الکھف : ۱۷)
(۸) شاہد:۔ داعی اپنی قوم میں شہادت کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے اور قیامت کے دن اسی شہادت کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا۔روز محشر میں اللہ تعالیٰ ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان کو توبہ کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
(۹) ہادی :۔ حق و صداقت اور بھلائی کا راستہ دکھانا داعی کا بنیادی مشن ہوتا ہے۔

قرآنی دعوت کے تین بنیادی اسلوب:
دعوت کا اسلوب زمان اور حالات و ظروف کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے کسی جگہ ایک اسلوب کام آسکتا ہے تو دوسری جگہ ایک دوسرا اسلوب مفید اور موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن کچھ بنیادیں ایسی ہیں جو ہر جگہ کام آسکتی ہیں۔ وہ بنیادیں قرآن مجید کی رو سے تین اسلوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ ۔ ( النحل :۱۲۵)
اے نبی اپنے کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو اس طر یقہ پر جو بہترین ہو۔اس آیت میں دعوت کے تین بنیادی اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ حق سے نا آشنا قوموں تک کیسے پیغام الٰہی پہنچایا جائے اور ان کو کس طرح اللہ کی وحدانیت کی طرف مائل کیا جائے اور کیسے اللہ کی بندگی اختیار کرنے پر ان کے دل و دماغ کو قائل کیا جائے۔ داعی کو دعوتی کام کے دوران عموماً کچھ مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی اس کو بے ہودہ اور لایعنی سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی اس کی بات کو تمسخر اور مذاق میں اڑایا جاتا ہے۔ کہیں اس پر الزامات لگائے جاتے ہیں تو کہیں اس کے متعلق غلط فہمیاں پھلائی جاتی ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بے بنیاد دلائل اور مفروضے گھڑ کر ان کی دعوت کو یا تو ٹھکرا دیا جاتا ہے یا انہیں مناظرہ اور بحث و مباحث کرنے پر اُکسایا جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا کہ داعیوں کو جنونی اور آوارگی پر بھی محمول کیا جاتا ہے۔ ان صورتوں میں دعوت و تبلیغ کے مذکورہ بالا تینوں اصول داعی کو ذہن میں مستحضر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس راہ میں یہ تینوں اصول انتہائی کا رآمد ہیں۔

(۱) الحکمہ:
حکمت کے معنی دانش مندی، فہم و بصیرت، عقل مندی فصاحت و بلاغت وغیرہ کے ہیں۔ دعوت کے میدان میں حکمت ایک سنہرا اصول ہے کہ داعی اپنی بات لوگوں تک خوب سے خوب تر انداز میں پہنچائے تاکہ مخاطب کے دل و دماغ میں اس کی بات صحیح ڈھنگ سے اتر جائے۔ مولانا مودودی حکمت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے جس شخص اور گروہ سے سابقہ پیش آئے تو اس کے مرض کی تشخیص کی جائے پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ کو نکال سکتے ہوں۔

(۲) الموعظۃ الحسنہ:
دعوت کا یہ دوسرا اصول ہے موعظ حسنہ اس کے معنی عمدہ نصیحت کے ہیں۔ داعی کی نصیحت ایسی عمدہ اور دلکش ہو کہ مخاطب کا ذہن مطمئن ہو جائے اور اس کے دل و دماغ میں برسوں سے پل رہے شکوک وشبہات دور ہو جائیں۔ داعی نصیحت ایسے انداز سے کرے کہ مدعو یہ سمجھے کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح و تربیت کے لیے نہ صرف دلسوزی اور تڑپ موجود ہے بلکہ اس کو یہ بھی محسوس ہو کہ داعی اس کا حقیقی خیر خواہ ہے اور اس کی فلاح و کامیابی اور ابدی نجات کے لیے کوشاں اور بے چین ہے ۔

(۳) جدال بالاحسن:
دعوت کا تیسرا اصول جدال بالاحسن ہے جس سے مراد مخاطبین سے بحث و مباحثہ نہایت عمدہ اور اچھے طر یقے سے کرنے کے ہیں۔ اس میں درشتی اور تلخ کلامی سے گزیز کیا جائے اور راست بازی اور دیانت داری کی روش کو اختیار کیا جائے نیز ایسا اسلوب، طریقہ اور نرم و مشفقانہ لب و لہجہ اختیار کیا جائے کہ مخاطبین نرمی و محبت کے ساتھ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں۔ مخاطبین سے بحث و مباحثہ تب ہی سود مند ہو سکتا ہے جب وہ حسن اعتدال کے پہلو سے لیس ہوں ورنہ اس سے گریز کیا جائے۔ بحث و مباحثہ کی ضرورت اگر پڑے تو کرسکتے ہو لیکن ایسی بحث جو نہایت معتدل طریقے پر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعوت حق کا طریقہ حکمت اور موعظت حسنہ کا طریقہ ہے اور وہ بحث و مباحثہ جو معتدل طریقے پر نہ ہو دعوت کا صحیح طریقہ نہیں ہو سکتا۔ داعی کو ان تینوں اصولوں سے لیس ہونا چاہیے ورنہ اگر وہ ان صفات سے خالی ہو تو وہ دین کے لیے کار آمد ہونے کی بجائے الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک غیر تربیت یافتہ داعی جو علم و حکمت سے بھی خالی ہو کسی بھی حیثیت سے کار دعوت کے لیے موزوں نہیں ہے۔ مفسر قرآن پیر محمد اکرم شاہ نے بجا فرمایا کہ ’’ایک ناداں اور غیر تربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ثابت ہو سکتا ہے اگر اس کے پیش کردہ دلائل بودے اور کمزور ہوں گے، اگر اس کا انداز خطابت درشت اور معاندانہ ہو گا، اگر اس کی تبلیغ اخلاص و للہیت کے نور سے محروم ہو گی تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کر دے گا‘‘

کردار کی بلندی اور قرآن:
دعوت دین ایک عظیم مشن ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو مکلف ٹھہرایا ہے۔ جس نے بھی یہ کار خیر انجام دیا اس نے پیغمبرانہ مشن کی آبیاری کی اور اسی کی بات اور پکار سب سے بہترین اور اچھی قرار دی گئی کیوں کہ اس کی دعوت اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْن (حم السجدہ :۳۳)
اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
داعی کی یہ تین نمایاں صفات ہیں اور وہ انہی تین صفات سے پہچانا جاتا ہے چنانچہ اس کا ان بنیادی صفات سے متصف ہونا بے حد ضروری ہے۔
۱۔ بہتر ین شخص وہ ہے جو دعوت کا کام کرے۔
۲۔ داعی کا عامل ہونا ضروری ہے۔
۳۔ داعی اپنے اسلام کا کھل کر اظہار کر ے۔

(۱) دعوت الی اللہ: داعی کی یہ پہلی نمایاں خصوصیت ہوتی ہے کہ اس کی ہر بات گفتگو تقریر وعظ ونصیحت، ملاقات اور مناظرہ اللہ کی طرف بلانے کے لیے ہو۔

(۲) با عمل ہونا : داعی کی یہ دوسری خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ جس بات کی طرف بلاتا ہے اس پر وہ خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ یعنی وہ دوسروں کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خود بھی باعمل اور ہدایت یافتہ ہو۔

(۳) مسلمان ہونا : داعی کی یہ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینے اور باکردار ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کو پورے اعتماد حوصلے اور فخر کے ساتھ بیان کرے کہ میں دین اسلام کا پابند اور اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار ہوں۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ:
کسی بھی فرد کی اخروی کامیابی اور نجات کے لیے صرف اپنی ذات اور گھر کی فکر اور اصلاح کافی نہیں ہے، ایک مسلمان دین اسلام پر کلی طور پر اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب کہ اس کا آس پاس کا ماحول بھی اصلاح یافتہ اور اصلاح پسند ہو۔ مسلمان کا صرف خود کا متقی اور صالح ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا مصلح ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس اہم فریضہ سے پوری طرح سے غافل ہے، وہ صرف دنیوی مصروفیات میں مگن ہے۔ ایک اور طبقہ وہ بھی ہے جو شہادت علی الناس جیسے اہم فریضہ سے بچنے کے لیے بہانے بناتا ہے۔ اس کی دانست میں یہ صرف علما، مخصوص تحریکوں اور اسلامی اداروں کا کام ہے اور ہر کام کرنے کا نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کے لیے مکلف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں کو صرف اپنی ذات اور گھر کی اصلاح وتربیت مطلوب ہے اور دوسروں کی فکر و اصلا ح کرنے کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ پہلے اپنوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور جب وہ سدھر جائیں تو دوسروں کو اسلام کی طرف دعوت دینا چاہیے۔ دعوتی کام کی ان کے نزیک کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے مطابق اس کے چھوڑنے پر محاسبہ ہو گا۔ یہ طبقہ سورہ مائدہ کی اس آیت سے استدالال بھی کرتا ہے کہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی فکر کرو، دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود ہدایت پر ہو۔‘‘ (المائدہ: ۱۰۵)
‏حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں جب بعض لوگ اس طرح کے گمان مین مبتلا ہوئے تو خلیفہ اول نے کھڑے ہو کر پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی اور فرمایا ’’لوگو، تم اس آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو میں نے نبی کریمؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو قر یب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ تمام انبیاء کا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ ہے دین توحید۔ اس دین توحید کی طرف ہر نبی اور رسول نے لوگوں کو بلایا گویا ان کی ایک ہی پکار تھی اور وہ تھی اللہ تعالی کی خالص بندگی اور جسے انہوں نے مختلف علاقوں، زمانوں اور انسانی نسلوں تک پہنچایا۔ آخر میں خاتم النبین حضرت محمد ﷺ نے لوگوں تک یہ دعوت پہنچائی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عالمگیر پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور آپ کی دعوت کسی قبیلے علاقے یا قوم یا کسی مخصوص زمانے تک محدود نہیں ہے بلکہ اقوام عالم اور قیامت تک تمام انسانوں کے لیے ہے اور اسی دعوت حق میں تمام انسانوں کے لیے فلاح ونجات مضمر ہے۔ دعوت کے اسی عظیم پہلو کو قرآن مجید نے بہت ہی خوب صورت اور دلکش انداز میں ابھارا ہے جو تا قیامت اہل ایمان کے لیے قابل عمل ہے۔

Exit mobile version