Site icon

اوپن مائنڈ خاندانوں کی بگڑی اولادیں

✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری

___________________

اسلام اور اسلامی تعلیمات کو ” دقیانوسی ” کہنے والے رفتہ رفتہ, آہستہ آہستہ اسلام اور تعلیمات اسلام سے اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ وقت رہتے اگر ہوش نہیں آیا تو نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ آگے خندق اور پیچھے کھائی ہی نظرآتی ہے۔

لاہور کی پوش کالونی گلمرگ کے تعلق سے ایک خبر پڑھنے میں آئی جسے پڑھ کر میرے تو ہوش و حواس اڑ گئے، خبر کچھ ایسی ہے کہ ایک نوجوان لڑکی جو لاہور یونیورسٹی میں پڑھتی ہے کالج کے ہی کیمپس میں رہتی ہے، رات ایک بجے دورافتادہ سنسان علاقہ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں خبر نگار کو ملتی ہے ، لڑکی کے پاس اپنی شاندار کار ہے جو قریب ہی موجود ہے، خبر نگار پوچھتا ہے کہ اکیلی اس حالت میں یہاں گھروالوں کی اجازت سے آئی ہے یا بلااجازت آئی ہے اور ایسے مخدوش علاقہ میں ایسی حالت میں کیوں آئی ہے؟ لڑکی نے برجستہ جواب دیا کہ میرے گھر والے اوپن مائنڈ ہیں وہ بے جا روک ٹوک کے عادی نہیں ہیں۔

مجھے اس لڑکی پر ترس نہیں آیا بلکہ لڑکی کی صاف گوئی خاص کر اوپن مائنڈ افراد کی دقیانوسیت اور دیو سیت پر رونا آیا ان کی لڑکیاں ان کے اوپن مائنڈ کی بھینٹ چڑھ گئیں، کتنی ہی بنت حوا اس اوپن مائنڈ طبقہ کے باعث قحبہ خانے اور کوٹھے کی نذر ہوگئیں، کتنی بچیاں اسلام سے نکل کر کفر کی دہلیز اور کفار کے بستروں تک جاچکی ہیں، ہماری اوپن مائنڈ نسل نے اپنی روشن خیالی کے باعث اپنی ہی بیٹیوں کو اپنے ہی ہاتھوں طوائف بناکر چھوڑ دیا، بچیاں بہکتی نہیں ، بھٹکتی نہیں بلکہ بہکائی اور بھٹکائی جارہی ہیں، انھیں مخلوط نظام تعلیم دیا گیا، "آزادی "کا خواب دکھایا گیا، روپے اور عیش کی دیوی ان کے قدموں میں بھینٹ کی گئی، حرام کاری کاماحول دیا گیا، لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی کو سند جواز فراہم کیا گیا، تاآنکہ بیٹی کے بن بیاہے دوست کو بوائے فرینڈ اور بیٹے کی بن بیاہی دوست کو گرل فرینڈ کانام دے کر عیاشی اور زناکاری کی اجازت دیدی گئی، فی زماننا نہ دن محفوظ ہے نہ رات محفوظ ہے پھر بھی اپنی جوان بیٹیوں کو رات بارہ بجے ایک بجے دو بجے تک یکہ وتنہا گھر سے باہر کلبوں، فنکشنوں، شادیوں، پروگراموں اور پارٹیوں کے نام پر باہر گھومنے پھرنے کی چھوٹ دی گئی، اس چھوٹ نے بن بیاہی ماؤں کی تعداد میں اضافہ کردیا، ہوسپٹل والوں کی چاندی ہوگئی، اسقاط حمل کو جواز دیا گیا، مانع حمل ادویات لڑکیاں اپنے ساتھ رکھ کر گھومنے لگیں اور، اوپن مائنڈ”انسان دیوث  اور خبیث بنا سب کچھ دیکھتا رہا۔

وہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ اس کی بیٹی بھی جانتی ہے کہ اس کے باپ کا چکر کہاں چل رہا ہے، اس کی بیوی بھی کچھ نہیں کہہ سکتی کیونکہ بیٹی کو اپنی ہی ماں کے بوائے فرینڈ کا پتہ ہے بھائی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ بہن کو معلوم ہے کہ اس کا بھائی اسی کی سہیلیوں سے عشق لڑاتا ہے یعنی پورا گھر اوپن مائنڈ ہے، لعنت ہے ایسے اوپن مائنڈ لوگوں پر جن کی نسل محفوظ ہے نہ اصل محفوظ ہے، جو خود محفوظ ہیں نہ ان کی بیوی اور بیٹی محفوظ ہے۔

اگر یہی روشن خیالی ہے تو تمہیں مبارک ہو، ہم اسی دقیانوسی ماحول کو دل وجان سے لگائے رہیں گے جہاں بنت حوا کی عزت محفوظ ہے، جہاں ہماری بیٹیوں کی آبرو محفوظ ہے جہاں پردہ ہی پردہ ہے جہاں پردے کو ہر چیز سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جہاں بنت حوا کے بال، چہرہ، ہاتھ، پاؤں حتی کہ آواز بھی پردہ ہے جہاں ہماری بچیاں اپنی عزت کو ہر متاع عزیز سے زیادہ قیمتی تصور کرتی ہیں۔

دو دن پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دھلی کے چند غیر مسلم طلبہ کے ساتھ ان کی مسلم دوست لڑکیوں کا فوٹو ہولی مناتے ہوئے سوشل میڈیا پر نظر آیا تو دل نے کہا یہ نسل اسی” اوپن ممائنڈ”کی ہوگی جن کے نزدیک دین ایمان اسلام اور قرآن کی کوئی ویلیو نہیں ہے وہ اپنی اولاد کو دیدہ و دانستہ اس جنہم میں جھونک کر خوش ہیں حالانکہ غیرمسلموں سے عشق لڑانے اور پھر شادی کرلینے والی سو فیصد لڑکیوں کا مستقبل تو خراب ہوتا ہی ہے مرنے کے بعد کاحال مزید خراب ہونے والا ہے، ارتداد کی یہ لہر ان پر قہر بن کر گرنے والی ہے۔

جہاں مخلوط تعلیم، مخلوط سسٹم، مخلوط نظام، مخلوط ماحول کو زہر قاتل سمجھا جاتا ہے اور یہی حقیقت ہے کہ ایسا اوپن مائنڈ اسکول کسی بھی معاشرہ کےلیے زہر قاتل بلکہ زہر ہلاہل ہے۔

میں الف باء سے ناواقف ایک پاک باز مسلم بہن کو اعلی تعلیم یافتہ اخلاق باختہ، مکمل فاحشہ ہزار ایجو کیٹڈ بچیوں سے بہتر و برتر سمجھتا ہوں۔

Exit mobile version