✍محمد عباس الازہری
______________
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنئو بنچ نے ” مدرسہ بورڈ ایکٹ ” کو ختم کر دیا اور طلبہ کو قریبی اسکولوں میں منتقل کرنے کا آڈر بھی جاری کر دیا اس یکطرفہ فیصلے سے امداد یافتہ 560 مدارس کے اساتذہ و ملازمین اور انصاف پسند حضرات میں کافی بے چینی پائی جارہی ہے۔ اس یک طرفہ فیصلے سے کچھ ناداں علما خوش نظر آ رہے ہیں وہ اس کو عذاب الہی اور برے اعمال کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں گویا نو سو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی "اگر رشوت خوری کی وجہ سے امداد یافتہ مدارس پر عذابِ الہی آیا ہے تو رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت پرائیویٹ مدارس بھی بند ہو سکتے ہیں یا اسکول میں تبدیل ہو سکتے ہیں! مزید برآں بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کر دیا گیا ,روزآنہ فلسطین میں ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں وغیرہ تو کیا یہ سب برے اعمال کا نتیجہ ہے؟ آج ہم سب کی باری ہے کل آپ کی بھی باری آئے گی۔ یہاں جتنے لوگ گرانٹ جانے پر خوش ہیں ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کو کسی وجہ نوکری نہ مل سکی یا حسد و جلن میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں,افسوس کی بات ہے کہ ایک عالم دوسرے عالم کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتا ہے! بھلا اپنے دشمنوں سے خیر کی امید کیسے کر سکتے ہیں! کس شعبہ میں رشوت نہیں ہے ,کیا سب لوگ دودھ کے دھلے ہیں ,فاسق و فاجر صدر و سیکریٹری کی چاپلوسی,جھوٹ بول کر آسیب، سحر , جادو , کرتب وغیری کہہ کر ڈر پیدا کرکے سامان کے نام پر پیسے لینا کیا بزرگان دین تعویذ کی اجرت لیتے تھے ! زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کا منفی اثر صرف امداد یافتہ مدارس پر نہیں پڑے گا بلکہ یوپی ہی نہیں ملک کے تمام مدارس بند ہوں گے یا تو اسکول میں تبدیل ہو جائیں گے !
مدارس کیوں بند ہوں گے؟
مفت اور لازمی تعلیم بچوں کا بنیادی حق ایکٹ (The right of childreen to free and compulsry education act 2009)بل پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا ،۱۹؍فروری ۲۰۱۰ ء کو گزٹ میں شائع ہوا اور یکم ؍ اپریل ۲۰۱۰ء کو اس کا نفاذ عمل میں آیا ،اختصار کے ساتھ اس ایکٹ کو RTE(Right to education)کہا جاتا ہے اس ایکٹ کا مقصد ہمارے ملک کے ۶ تا ۱۴ سال کے بچوں کی بنیادی تعلیم کا ایک نیا ڈھانچہ وجود میں لانا اور مفت لازمی تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ہے ۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد مدرسوں ،پاٹھ شالاؤں، دیہات تک پھیلے ہوئے چھوٹی چھوٹی تعلیم گاہوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اور اس طرز کے جو بھی ادارے کام کر رہے ہیں اس ایکٹ کے لحاظ سے مجرم ہیں اور ان پر جرمانہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس ایکٹ کے دفعہ نمبر ۲ (N)میں حکومت نے تعلیم کی جو تعریف بیان کی ہے وہ بنیادی دستوری حق سے براہ راست ٹکراتی ہے ،حکومت کی نظر میں مفت لازمی تعلیم کا مطلب ابتداء سے لے کر آٹھویں کلاس کی تعلیم ایلیمنٹری ایجوکیشن ہے ،یہ ایلیمنٹری ایجوکیشن کسی فارمل اسکول میں کل وقتی (Full Time)ہوگی ،تعلیم وہ دی جائے گی جسے حکومت اور اس سے متعلق ادارے قانونا تعلیم تسلیم کریں ،ہر بچے کا حق ہے کہ وہ فارمل اسکول میں ایلمنٹری ایجوکیشن لے، ساتھ ہی ساتھ تعلیم کا اطمینان بخش ہونا اور اسکول کا معیاری ہونا ضروری ہے
فارمل اسکول جس میں بچوں کو مفت لازمی تعلیم دی جاے گی اس اسکول کی تعریف ایکٹ میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے:
(۱) اسکول سے مراد منظور شدہ اسکول ہیں جو ایلیمنٹری ایجوکیشن دیں
(۲) وہ اسکول جسے حکومت یا مقامی افسروں نے قائم کیا ہو اور اس پر حکومت یا مقامی سرکار کا کنٹرول ہو۔
(۳) وہ اسکول جو حکومت یا مقامی افسروں سے اخراجات کی تکمیل کے لئے جزوی طور پر یا کلی طور پر مالی مدد لیتا ہو ۔
(۴) وہ اسکول جو متعین کٹیگری سے تعلق رکھتا ہو ۔
(۵) وہ اسکول جو کسی قسم کی مددحکومت یا مقامی افسروں سے نہیں لیتا ۔
مندرجہ بالا نوعیت کے سارے اسکولوں اور مدرسوں ، مکاتب ، پاٹھ شالاؤں میں RTEکاقانون نافذ ہوگا اوروہ دفعہ (n)2کے دائرے کے تحت آئیں گے، ان سب کو RTEکے قواعد و ضوابط ماننے ہوں گے۔
اگر آپ اسکول کھولنا چاہتے ہیں پانچویں کلاس تک کے لئے تو اس کی اجازت توکبھی بھی نہ ملے گی جب ملے گی آٹھویں کلاس تک کی ملے گی ،بشرطیکہ ایکٹ میں دیئے گئے شرائط پورے ہوں ،ایکٹ کی یہ ساری دفعات دستور ہند کی ان بنیادی دفعات سے ٹکراتی ہیں جن میں اپنی پسند کے تعلیمی اور مذہبی ادارے قائم کرنے کے بنیادی حقوق دئے گئے ہیں۔اس ایکٹ کی دفعات کے تحت اس غیر منظور شدہ اسکول کو ایک لاکھ روپئے جرمانہ ادا کرنا ہوگا ،سرکاری عملہ کی بد نیتی سے اقلیتی اداروں کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟
اسکول کی مذکورہ بالا تعریف کے دائرے سے جو اسکول خارج ہوگاوہ ’’اسکول‘‘نہ سمجھا جائے گا ،گویا کسی مدرسہ، مکتب، پاٹھ شالہ جو حکومت سے منظور نہ ہو اور حکومتی نصاب نہ پڑھاتا ہو وہ ادارہ مجرم ہوگا اور وہاں جو تعلیم دی جا رہی ہوگی وہ حکومت کئے منشاء کے خلاف سمجھا جائے گا،نیز کوئی ادارہ اگر فل ٹائم ایلیمنٹری ایجوکیشن نہ دے گا، وہ بھی مجرم ہوگا ،اسکول کے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں ان کی وضاحت دفعہ ۱۹، اور ۲۵ میں کی گئی ہے گاؤں ،دیہات بلکہ شہروں تک میں مسلم اقلیت کے لئے تو ان قوانین کی پابندی اور اسکول کے شرائط پورے کر پانا ناممکن ہے، نتیجہ یہ ہوگا کہ اسکول کے معیار ،تعلیمی نصاب اور تعمیری ضابطوں میں کمی کے جرم کے وجہ سے یہ ادارے ،ان کے چلانے والے ،ان میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے اور ان کو تعلیم دینے والے معلمین مجرم ہونگے چنانچہ(5)17کی دفعہ کہتی ہے کہ جو شخص اسکول کی منظوری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کئے بغیر اسکول چلاتا ہے یا منظور شدہ اسکول کی منظوری کے رد ہونے کے باوجود اسکول چلاتا ہے اسے ایک لاکھ روپئے تک جرمانہ ادا کرنا ہوگا اور سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی شکل میں روزانہ دس ہزار روپئے جرمانہ کی رقم ادا کرنی ہوگی ۔مفت تعلیمی ایکٹ کی دفعہ نمبر 18میں کہا گیا ہے کہ حکومت سے منظوری کی سرٹیفیکٹ حاصل کئے بغیر کوئی بھی اسکول قائم نہیں کیا جا سکتا۔
یوں نہ نئے مدارس و مکاتب قائم کئے جا سکتے ہیں ،نہ پرانے مدارس و مکاتب( ’’اسکول‘‘ کے دائرے میں نہ آنے کی وجہ سے) باقی رکھے جاسکتے ہیں ،اگر کسی نے خلاف ورزی کی تو ایک لاکھ جرمانہ اور پھر بھی خلاف ورزی جاری رہی تو روزانہ دس ہزار کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا ۔یہی سزا ان لوگوں کو بھی دی جاے گی جو اسکول چلا رہے ہیں اور حکومت کا نصاب بھی پڑھا رہے ہیں ، پھر بھی اگر وہ تعلیمی ضابطے اور اسکول کے شرائط جو ایکٹ نے مقرر کئے ہیں پورا نہیں کرتے تو وہ بھی جرمانے کی ادائیگی کے لئے تیار رہیں۔
یہ جرمانہ ان کو بھی ادا کرنا ہو گا جو ایکٹ کے تعمیری شرائط کے مطابق اسکول چلا رہے ہیں مگر وہ حکومت کا وضع کردہ پسندیدہ نصاب نہیں پڑھا رہے ہیں، نوٹس ملنے کے بعد ۳ برسوں کے اندر اگر وہ سارے ضابطوں پر عمل درآمد نہیں کرتے تو وہ بھی ایک لاکھ جرمانہ ادا کریں گے اور ان کو اپنا اسکول بند کرنا ہوگا۔