✍صادق مصباحی
______________
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے دو رکنی ججز نے 22 مارچ 2024 کو مدرسہ بورڈ اور مدرسہ ایکٹ کی منسوخی کا جو فیصلہ سنایا، اس سے پورے اتر پردیش کے مدرسہ منتظمین، اساتذہ اور طلبہ میں بے چینی کی کیفیت چھا گئی۔
کچھ لوگ امداد یافتہ مدارس میں بد نظمی، رشوت خوری اور اقربا پروری کو اس کی اصل وجہ قرار دے رہے ہیں، تو کچھ مبصرین کے نزدیک مدرسوں کے نصاب کی گڑبڑی اس کی اصل وجہ قرار پائی۔ توکچھ فضلا پرائیویٹ مدرسوں کی بے توجہی کا رونا رو رہے ہیں۔
مطلب جتنے منھ اتنی باتیں!
آئیے ! ذرا سمجھتے ہیں کہ مدرسہ ایکٹ کی منسوخی کی اصل وجہ کیا ہے؟۔
بتایا جا رہا ہے کہ مدرسہ ایکٹ میں موجود زبردست کمیاں اور بنیادی خامیاں اس کی اصل وجہ ہیں، جسے کسی کورٹ میں چیلنج کیا جاتا تو فیصلہ وہی آتا۔ کورٹ نے یہ پایا کہ مدرسہ ایکٹ 14، 21، اور 21A جیسے دفعات کے خلاف ہے
مدرسہ ایکٹ کی یہ شقیں دیکھیں:
مدرسہ ایکٹ میں ایک شق یہ ہے کہ مدرسہ بورڈ کے عہدے داران اور ممبران مسلم ہی ہو سکتے ہیں، ( سنی یا شیعہ)
ججز نے یہ پایا کہ یہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ہے،وہ اس لیے کہ اسٹیٹ گورنمنٹ کو یہ حق حاصل نہین ہے کہ وہ کسی خاص قوم اور دھرم کے لیے کوئی الگ قانون بنائے اور اس میں مخصوص قوم اور مذہب کے لوگ ہی شامل ہو سکتے ہوں، بلکہ اسے سب کے لیے اوپن ہونا چاہیے۔ اسی لیے جامعہ ملیہ اور علی گڑھ کے اقلیتی کردار پر بار بار انگلی اٹھتی رہتی ہے۔
دوسرے یہ کہ مدرسہ بورڈ صرف ہائی اسکول اور انٹر تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ، بیچلر ، ماسٹر ڈگری اور پی ایچ ڈی تک کی ڈگری دے سکتا ہے طلبہ کو جب کہ کوئی بورڈ سینئر سکنڈری سے اوپر ہوتا ہی نہیں اور مدرسہ بورڈ سب کر کرا رہا تھا ، حالاں کہ یہ کام یو جی سی کا ہے، بورڈ کا نہیں ۔ آپ نے یوپی بورڈ، سی بی اس سی بورڈ کو دیکھا ہوگا جو سینئر سکنڈری تک ہی محدود ہوتے ہیں جب کہ مدرسہ بورڈ کو غیر معمولی اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔ کورٹ نے اسے خلاف قانون پایا۔
تیسرے رائٹ ٹو ایجوکیشن، یعنی 6سال سے 14 سال تک کے ہر بھارتی بچے کو بنیادی لازمی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اور ججز نے مدرسوں کے تعلیمی معیار کو رائٹ ٹو ایجوکیشن کے مطابق نہیں پایا، اور اسے مذہبی تعلیم. سے جوڑ کر دیکھا۔
چوتھے: مدرسہ ایکٹ میں مدرسے کو طلبہ سے فیس لینے کا حق بھی دے دیا گیا تھا جب کہ بھارتی قانون کے مطابق 14 سال تک کے ہر بچے کو مفت تعلیم دینا ضروری ہے، ان سے کوئی فیس نہیں لی جا سکتی۔ ( اگرچہ اکثر مدرسے والے کوئی فیس چارج نہیں کرتے، مگر مدرسہ قانون میں یہ سہولت دی گئی تھی)
غلطی کہاں ہوئی؟
ایکٹ اور بورڈ بنانا حکومت کا کام ہے، کوئی مدرسہ یا اس کے اساتذہ ایکٹ نہیں بناتے۔ عام علما واساتذہ کو تو پتا بھی نہ ہوگا کہ مدرسہ ایکٹ کیا ہے اور اس میں کیا کیا خامیاں اور کمیاں ہیں!
علماے مدارس ان قوانین کے جانکار نہ تھے، سابقہ سیکولر حکومتوں نے اپنے فائدے کے لیے جیسا چاہا الٹا سیدھا ایکٹ بنوا دیا تو جب بنیاد ہی غلط تھی تونتیجہ یہی آنا تھا!
ایک بڑی بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ بیس سال پہلے مدرسوں کو محکمہء تعلیم سے الگ کرکے انھیں اقلیتی فلاح وبہبود محکمے کے تابع کرا دیا گیا۔
ویسے یہ کیس 2011 سے چل رہا تھا، شہزاد پور امبیڈکر نگر کے کسی جاوید نامی صاحب نے سب سے پہلے ہائی کورٹ میں اپنے کچھ معاملات کو لے کر کیس دائر کیا، اسی وقت توجہ دے کر اگر ایکٹ میں ضروری ترامیم کرا لیے گئے ہوتے تو بات بن سکتی تھی، لیکن کسی کو فکر نہیں ہوئی ، حالاں کہ اساتذہ کے حقوق کو لے کر دو دو تنظیمیں اپنے پوسٹر بینر کے ساتھ ایک زمانے میدان میں رن کر رہی تھیں ۔ پھر 2023 میں انشومان سنگھ راٹھور نے کیس داخل کر دیا، اس کے ساتھ وکلا کی ایک بڑی جماعت بھی تھی۔ سابقہ سپا، بسپا کی سیکولر حکومتیں مسلمانوں کی ناراضی نہیں مول لینا چاہ رہی تھیں اس لیے کورٹ میں خاموشی تھی۔ جب بھاجپا آئی تو اسے اسی طرح کے کیس اور مسئلے سوٹ کرتے ہیں۔ سو اس نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔
رہی بات دفعہ 29 اور 30 کی!
تو اس سے کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے۔ ( اگر چہ اس کا ذکر بیرسٹر اویسی صاحب اور بہت سے لوگوں نے ذکر کیا ہے)
اس کا مطلب جو میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ بھارت کے ہر شہری کو اپنی بھاشا، زبان اور تہذیب سنسکرتی بنائے رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی مکمل چھوٹ ہے۔
اسی طرح اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی تعلیم گاہیں بنانے، مذہب کا پرچار پرسار کرنے کی پوری اجازت ہے، جب کہ اس سے دوسرے لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حقوق، اقلیتوں کو حاصل ہیں، مگر یہی کام اگر گورنمنٹ کسی سموداے وشیش ( مخصوص جماعت، قوم) کے لیے کرے تو یہ سیکولرزم کے خلاف اور غیر قانونی ہے۔ کہ اسٹیٹ گورنمنٹ کسی خاص قوم کے لیے الگ سے کوئی قانون نہیں بنا سکتی ۔ اگر چہ آدیواسیوں اور ایس سی، ایس ٹی کے لیے بہت کچھ الگ سے موجود ہے!
رہی بات نصاب کی!
تو نصاب بھی بورڈ بناتا یا بنواتا ہے، اور اسے نافذ کرنا بھی اسی کا کام ہے۔ مدرسے والوں کا از خود، نصاب میں ہندی، انگریزی ، میتھ سائنس وغیرہ داخل کرنے اور پڑھا لینے سے بھی کام نہیں چلنے والا۔ (یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اکثر مضامین مدرسوں میں پڑھائے جا رہے تھے ) بلکہ ان فنون کو پڑھانے کے لیے اس معیار کے استاذ کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی ہندی پڑھانے کے لیے ہندی پڑھانے کی اہلیت اور مارک شیٹ واسناد اس استاذ کے پاس ہونی چاہیے، اور اس کا معیار وہ ہونا چاہیے جو اسکولوں کے اساتذہ کے تقرر کے لیے لازمی مانے جاتے ہیں، اسی طرح دیگر مضامین کے اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔ صرف پڑھا لینا کافی نہیں۔ اور مدرسہ بورڈ نے وہ معیار ہی نہیں رکھا۔ دینیات، یا عربی فارسی کی ڈگری رکھنے والا استاذ ان مضامین کو پڑھانے کا اہل نہیں۔
آپ کو حیرت ہوگی کہ
یوپی حکومت کے نزدیک درجہ حفظ کی کوئی کلاس نہیں، جب کہ حفظ کی ڈگری سے تحتانیہ ( پرائمری) کے استاذ کا تقرر ہو سکتا ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟
در اصل غلطی ان مخلصین سے ہوئی جنھوں نے مدرسون کو محکمہ تعلیم سے الگ کرکے اقلیتی بہبود کے تابع کرا دیا۔
آپ کو اس پر بھی حیرت ہوگی کہ
یوپی مدرسہ کیس کے تعلق سے ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان (سبھاس ودیارتھی، اور وویک چودھری) نے اپنے 86 صفحات کے فیصلے کے اخیر میں جن وکلا کا شکریے کے ساتھ تذکرہ کیا ہے، اور ان کے تعاون کی سراہنا کی ہے، (جسے ہم نے گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی ہے، ) ان میں ایڈووکیٹ انشومان سنگھ راٹھور، ایڈووکیٹ گورو مہروترا، ایڈووکیٹ مدھوکر اوجھا، ایڈووکیٹ اکبر احمد، کے ساتھ
نندیش ورما، انکت برنوال، آدرش موہن نگم، وغیرہ کا تذکرہ تو ہے۔ مگر مدرسہ ایسوسی ایشن کی جانب سے فراہم کردہ فاضل سینئر ایڈووکیٹ پرشانت چندرا اور یوپی مدرسہ بورڈ کے سینئر وکیل سندیپ دیکشت صاحبان کا کہیں نام تک نہیں لیا گیا!
جب مدارس عربیہ ایسوسی ایشن کے دونوں گروپوں کی طرف سے بڑے بڑے سینئر، اور فاضل وکیل رکھے گئے تھے۔ اور انھوں نے بڑی فاضلانہ بحثیں بھی کیں اور تسلی بخش دلائل دیے۔
اب ایسوسی ایشن کے مخلص حضرات سپریم کورٹ جانے اور اس سے پہلے یوپی حکومت کے اقلیتی وزیر اور وزیر اعلی سے ملاقات کی کوشش میں ہیں۔
آپ حضرات دعا کریں کہ معاملہ کسی طرح پٹری پر آئے، ورنہ بورڈ سے منسلک تمام مدارس غیر قانونی قرار دیے گئے ہیں خواہ وہ امداد یافتہ ہوں یا صرف منظور شدہ اور جن پرائیویٹ مدارس اسلامیہ کی کہیں سے منظوری نہیں ہے گورنمنٹ کی نظر میں وہ پہلے ہی سے غیر قانونی ہیں۔