Slide
Slide
Slide

مدارس پر قانونی افتاد : ایک جائزہ

✍ غلام مصطفےٰ نعیمی

_______________

بائیس مارچ کو یوپی ہائی کورٹ نے مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر قانونی قرار دے دیا جس کے باعث مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ مدارس بند ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔یوپی میں فی الحال پانچ سو ساٹھ(560) مدرسے مکمل طور پر سرکاری ہیں جب کہ پندرہ ہزار نو سو تراسی(15983) مدرسے مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ ہیں، جنہیں حکومتی سطح پر ہلکی پھلکی مراعات ملتی ہیں۔ایڈیدڈ مدارس میں تقریباً نو ہزار چھ سو چھیالیس (9646) اساتذہ بر سر روزگار ہیں۔ان کا مشاہرہ حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ان اداروں میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔حالیہ فیصلے کے بعد نہ صرف اساتذہ و طلبہ بل کہ ان مدارس کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

سنگینی کو سمجھیں!
یوں تو حالیہ فیصلے کا راست تعلق سرکاری اساتذہ/بورڈ سے منظور شدہ مدارس اور ان کے منتظمین سے ہے لیکن  مستقبل قریب میں اس کے اثرات پرائیوٹ اور بورڈ سے انسلاک نہ رکھنے والے مدارس تک بھی پہنچنے کے قوی امکانات ہیں اس لیے سرکاری مدارس کے اندرونی معاملات پر رائے زنی سے بہتر ہے کہ موجودہ افتاد کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تاکہ ہمیں اس کی سنگینی کا احساس ہو سکے۔اس افتاد کو بایں طور سمجھنے کی کوشش کریں کہ یوپی میں اہل سنت کے چھ بڑے ادارے گورنمنٹ سے امداد یافتہ ہیں:
1۔جامعہ اشرفیہ مبارکپور
2۔جامعہ امجدیہ گھوسی
3۔منظر اسلام بریلی شریف
4۔الجامعۃ الاسلامیہ روناہی فیض آباد
5۔دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف
6۔دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

اہل سنت کے صف اول کے اداروں میں یہ ادارے یقینی طور پر شامل ہیں۔ان مدارس میں تقریباً چھ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اور تقریباً دو سو سے زائد اساتذہ مصروف تدریس ہیں۔ذرا غور کریں اگر یہ فیصلہ نافذ ہوگیا تو طلبہ کی اتنی کثیر تعداد آخر کہاں جائے گی؟
کہنے کو ہائی کورٹ اور یوپی حکومت نے زور دے کر کہا ہے کہ سبھی طلبہ کا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کرایا جائے گا لیکن یہاں سوال اسکول میں داخلے کا ہے ہی نہیں، کیوں کہ مذکورہ مدارس میں صرف مقامی طلبہ نہیں ہیں بل کہ اکثریت بیرونی طلبہ کی ہے۔اگر اسکولوں میں ہی جانا ہوتا تو یہ بچے اپنے ہی گاؤں/شہروں میں داخلہ لے سکتے تھے۔سیکڑوں کلومیٹر دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔اپنے گھروں سے دور دراز کے مدارس میں پہنچنے کی زحمت صرف مذہبی تعلیم کے لیے برداشت کی جاتی یے۔اگر ان مدارس میں مذہبی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہوگیا تو ظاہر سی بات ہے کہ طلبہ از خود اسکولوں میں نہیں جائیں گے، لا محالہ یہ پرائیویٹ مدارس کا رخ کریں گے۔یہاں آکر صورت حال بڑی سنگین ہو جاتی ہے کیوں کہ پرائیویٹ مدارس میں جامعہ نعیمیہ مرادآباد، جامعۃ الرضا بریلی ، جامع اشرف کچھوچھہ، الجامعۃ الاحمدیہ قنوج جیسے چند ہی گنے چنے ادارے ایسے ہیں جو ایمرجنسی میں سو دو سو یا بمجبوری تین چار سو طلبہ کو داخلہ دے سکتے ہیں باقی اداروں کی تو کل capacity ہی سو دو سو طلبہ کی ہے، ایسے میں طلبہ کی اتنی بڑی تعداد آخر کہاں جائے گی؟
اس افرا تفری اور بے یقینی کے ماحول میں اگر آدھی تعداد بھی مدرسوں سے دور ہوگئی تو سوچیے کہ کتنا بڑا نقصان ہوگا!!
سر دست نو ہزار سے زائد اساتذہ حکومتی تنخواہ حاصل کر رہے ہیں اچانک سے ایک ہی جھٹکے میں ذریعہ روزگار ختم ہوجانے سے اتنے سارے لوگ کہاں جائیں گے؟
عموماً بر سر روزگار افراد اپنی آمدنی کے حساب سے معمولات زندگی کے اخراجات کا تخمینہ بنا کر چلتے ہیں، شادی بیاہ، تعمیر مکان، بچوں کی تعلیم وغیرہ وغیرہ اب اچانک سے اس افتاد کے نتیجے میں خدا جانے کتنے افراد کے بنیادی اور ضروری کام متاثر ہوں گے! اس لیے معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ مدرسہ بورڈ ایکٹ ختم ہوگیا یہ فیصلہ قومی لحاظ سے انتہائی پریشان کن ثابت ہوگا۔

حل کیا ہوگا؟
سرکاری مدارس کو ختم کرنے کی شروعات بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست آسام سے ہوئی تھی۔جہاں بی جے پی کے وزیر اعلی ہمنتا وشوا سرما نے 7 دسمبر 2020 کو ایک قانون کے ذریعے آسام مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ختم کر دیا۔دلیل یہ دی گئی کہ سیکولر ملک میں حکومتی خرچے پر مذہبی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔اس بورڈ کے تحت 1281 مدرسے چل رہے تھے۔جنہیں فوری طور پر مڈل انگلش اسکول میں تبدیل کرکے مدارس کو پوری طرح ختم کر دیا گیا۔حکومتی فیصلے کو گواہاٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن وہاں سے کوئی راحت نہیں ملی اور حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں عرضی لگائی گئی ہنوز مقدمہ زیر سماعت ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے جو آئے لیکن حکومت نے سرکاری مدرسے پوری طرح ختم کر دئے ہیں۔
یوپی میں بھی مدارس کے خلاف ٹھیک یہی لائن اور tric استعمال کی گئی۔بس فرق اتنا رہا کہ آسام میں یہ کام براہ راست حکومت نے کیا تھا جب کہ یوپی میں یہ ہائی کام کورٹ کے ذریعے ہوا ہے لیکن فیصلے کی بنیادی لائن ایک ہی رہی کہ سیکولر اسٹیٹ میں سرکاری خرچے پر مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی۔آسام ہی کی طرح اس فیصلے کے خلاف ٹیچر ایسوسی ایشن اتر پردیش نے بھی سپریم کورٹ جانے کی بات کہی ہے۔امید ہے جلد ہی اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
پورے معاملے کے پس منظر اور پیش منظر پر غور کرنے کے بعد صاف نظر آتا ہے کہ معاملہ صرف قانونی نہیں ہے بل کہ سیاسی بھی ہے۔اس لیے اس کا حل صرف قانونی طریقے یا کورٹ کچہری سے شاید نہ نکلے یا بہت تاخیر سے نکلے، اس لیے ضروری ہے کہ اسے سیاسی طور پر بھی سلجھانے کی کوشش کی جائے۔اگر صرف سپریم کورٹ جانے ہی سے مسئلہ سلجھنا ہوتا تو اب تک آسامی مدارس کا معاملہ سلجھ گیا ہوتا۔ مگر وہ معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔اس درمیان آسامی حکومت نے اپنے فرمان کو مکمل طور پر نافذ کرتے ہوئے مدارس کو مڈل اسکول میں تبدیل کردیا۔ایسے ہی آثار ہمیں یوپی میں بھی نظر آرہے ہیں کیوں کہ حالیہ فیصلے پر رائے دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ اتر پردیش نے صاف کہا ہے:
"عزت مآب کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے صوبے میں ترتیب وار نافذ کرکے صوبے کے تعلیمی نظام کو یکساں تعلیمی نظام کے ساتھ جوڑنے کا کام کریں گے۔”
یعنی جب تک اہل مدارس سپریم کورٹ پہنچیں گے یوپی حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرنے کا کام شروع کر دے گی، یا اس سے پہلے ہی شروع کر دے۔اس لیے اس نازک اور حساس موقع پر بنیادی طور پر دو کام کیے جائیں:
🔸ماہرین تعلیم اور سنجیدہ افراد کا ایک ڈیلی گیشن وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے انہیں طلبہ واساتذہ کی نزاکت کا احساس کرائیں۔اس ضمن میں براہ راست وزیر اعظم ہند سے بھی ملاقات ممکن ہو تو ضرور کی جائے۔کیوں کہ بر سر اقتدار ہونے کی بنا پر قوت نفاذ انہیں کے پاس ہے۔وفد ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو سنجیدہ اور خود دار ہوں، ایسے نہ ہوں جو وزیر اعلیٰ/وزیر اعظم کو دیکھتے ہی ہاں میں ہاں ملانے یا ہاتھ ملانے اور فوٹو کے حصول میں سب کچھ بھول جائیں۔بہت ممکن ہے کہ جانا بے سود ثابت ہو لیکن رو برو ملاقات اپنا ایک اثر رکھتی ہے اگر سنجیدہ مکالمے سے وقتی طور پر فیصلے کے نفاذ کو بھی مؤخر کرا لیا گیا تو اگلی منصوبہ بندی کے لیے کچھ وقت مل سکتا ہے۔
🔹ماہرین تعلیم اور ماہرین قانون کی مشترکہ نشست منعقد کریں اور حالیہ فیصلے کی روشنی میں دیکھیں کہ کس طرح کورٹ کے بنیادی اعتراضات کا جواب ممکن ہے۔اگر نصاب میں جزوی تبدیلیاں ان کے مرکزی اعتراضات کو دور کر سکتی ہوں تو ان تبدیلیوں کے ساتھ کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے۔ساتھ ہی دیگر زبانوں کے بورڈ، نصاب اور طریقہ تعلیم وغیرہ کا جائزہ بھی اس ضمن میں کارگر ثابت ہوگا۔بوقت ضرورت اسے بھی کورٹ میں پیش کیا جائے۔
قانونی لڑائی میں وقت لگ سکتا ہے اس لیے اس لڑائی میں سیاسی حمایت اور مدد بھی ضروری ہے۔ابھی تک کسی بھی سیکولر لیڈر نے اس فیصلے پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔ضروری ہے کہ ایک ڈیلی گیشن اس معاملے پر سیکولر پارٹیوں سے بھی ملاقات کرے، واضح حمایت کا مطالبہ کیا جائے اور اقتدار میں آنے پر اس کے قانون حل کا وعدہ لیں اور اسی بنا پر مشروط سیاسی حمایت کی بات کریں۔

یاد رکھیں!
سیاسی معاملات سیاسی قوت کے بغیر حل نہیں ہو سکتے۔لیکن بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے یہاں جو شخص سیاسی قوت بنانے کی بات کرتا ہے وہ ہماری ٹھوکروں میں رہتا ہے اور جو لوگ ہمارے مسائل سے کوئی مطلب نہیں رکھتے ہم انہیں کو اپنا ہمدرد اور مسیحا سمجھتے ہیں۔جمہوری ممالک میں قوموں کا سیاسی وزن ہی ان کے حقوق کی ضمانت ہوتا ہے اپنا سیاسی وزن بنانے کی کوشش کریں جب تک آپ سیاسی وزن نہیں بنائیں گے ایسے ہی فیصلے ہوتے رہیں گے اور ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: