✍️ ڈاکٹر مفتی محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
________________
ذکاوت وذہانت، جسے انگریزی میں’’Intelligence‘‘کہا جاتا ہے، انسان کی ایک ایسی فطری خوبی ہے جو اُسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے، یہ ایک ہمہ گیر صلاحیت ہے جو مختلف شعبوں میں کامیابی کے لیے نہایت اہم ہے، ذکاوت کی تعریف مختلف انداز میں کی جا سکتی ہے، لیکن عمومی طور پر یہ ذہنی قابلیت، تیزفہمی، دقت نظر،حکمت ودانائی، فراست،’’ سرعۃ البدیہۃ‘‘ ( حاضر جوابی اور بروقت فیصلہ لینے کی صلاحیت) اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی لیاقت جیسی خصوصیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے، کسی بھی معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے ذکاوت، فراست اور دور اندیشی جیسی صفات بہت اہمیت رکھتی ہیں، ابن جوزی نے کتاب الاذکیاء کے مقدمہ میں لکھا ہے: ’’فإن أجلّ الأشياء موهبة العقل، فإنه الآلة في تحصيل معرفة الإله، وبه تضبط المصالح، وتلحظ العواقب، وتدرك الغوامض، وتجمع الفضائل‘‘(عقل سب سے بڑی بخشش ہے ؛کیوں کہ وہ اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے،اور اسی سے نیکیوں کے اصول بنتے ہیں، اور انجام کا لحاظ کیا جاتا ہے،اور باریکیوں کو سمجھا جاتا ہے،اور فضائل حاصل کئے جاتے ہیں) (کتاب الاذکیاء، ابن الجوزی،مکتبۃ الغزالی،ص۵،اردو ترجمہ: لطائف علمیہ، مولانا اشتیاق احمد صاحبؒ،اسلامی کتب خانہ،لاہور،۱۳۷۲ھ)۔
ذکاوت کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں، علمی ذکاوت جس میں منطقی انداز فکر، ریاضیاتی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور تجزیاتی فہم شامل ہیں، یہ تعلیمی میدان میں کامیابی کے لیے اہم ہے، اسی طرح تخلیقی ذکاوت نئے اور منفرد خیالات پیدا کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں،اس میں آرٹس، سائنس اور ادب کے میدان میں نئی راہیں کھولنے کی قابلیت شامل ہے،ذکاوت کی بدولت انسان مختلف چیلنجوں کا سامنا کر سکتا ہے اور نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، ذکاوت کے بغیر کسی بھی قسم کی تعلیمی، پیشہ ورانہ یا ذاتی واجتماعی کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، ذکاوت ایک فطری نعمت ہے، مگر اسے تعلیم و مطالعہ اور صحت مند طرز زندگی جیسے مناسب غذا، ورزش اور اچھی نیند کے ذریعہ بڑھایا جاسکتا، اس سے ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، اسی طرح تخلیقی سرگرمیوں اور الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے میں حصہ لینے سے ذہنی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے،کسی صاحب نظر کا قول ہے:’’المؤمن کيِّسٌ فطنٌ‘‘(مؤمن ہوشیار اور عقل مند ہوتا ہے)، حکمت اوردانش مندی مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے،خصوصاً اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے عقلی اور الزامی جوابات کے لیے علماء ودعاۃ میں علم ومطالعہ کے ساتھ مخاطب کی نفسیات سے واقفیت اور حاضر دماغی کا بڑا حصہ ہوتا ہے، میں یہاں ایسے ہی کچھ اہم واقعات کا ذکر کرتا ہوں جن سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم اپنی حکمت ودانائی اور فہم وفراست کا جائزہ لے سکتے ہیں اور ان میں اضافہ کی دعا اور کوشش کرسکتے ہیں:
انبیاء کرام علیہم السلام کو دانش مندی اور معاملہ فہمی سے حصۂ وافر عطا کیاگیا تھا؛ چنانچہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس خون میں رنگی ہوئی قمیص لائی گئی، جس میں کوئی پھاڑنے کا نشان یا خراش کا اثر نہیں تھا،اوربرادران یوسف روتے بلکتے ہوئےآئے اور کہا:’’ہم سب تو دوڑ کے مقابلہ میں لگ گئے، اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑدیا تھا،یہاں تک کہ اسے بھیڑیا کھا گیا‘‘، توحضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایاتھا:’’بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنالی ہے‘‘ ( یوسف:۱۶۔۱۸)، کیوں کہ انہوں نے اپنی فراست وبصیرت سے حقیقت حال کا ادراک کرلیا تھا،اور ایک روایت کے مطابق کہا تھا:’’إني لأعلم أن الذئب ليس حليمًا‘‘(مجھے معلوم ہے کہ بھیڑیا نرم دل نہیں ہوتا)،جب حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس کھیت اور اس میں رات کے وقت گھس کر اسے روند دینے والی بکریوں کا معاملہ پیش آیا،حضرت داؤد علیہ السلام نے ابتدا میں فیصلہ کیا کہ کھیت کے مالک کو اس کو ہونے والے نقصان کے عوض بکریاں دے دی جائیں، پھر جب یہ معاملہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کھیت کا مالک بکریاں لے جائے، اوران کا دودھ اور اون استعمال کرے،جبکہ بکریوں کا مالک کھیت کو درست کرے، جب کھیت اپنی اصلی حالت میں واپس آ جائے تو کھیت کے مالک کو اس کا کھیت اور بکریوں کے مالک کو اس کی بکریاں واپس دے دی جائیں، فرمایاگیا:’’ ہم نے سلیمان کوصحیح فیصلہ سمجھا دیا اور دونوں کو ہی ہم نے حکمت اور علم سے نوازا تھا‘‘(أنبیاء: ۷۹)،اس ضمن میں وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ دو عورتیں آئیں، ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک شیر خوار بچہ تھا، وہ دونوں کسی غیر آباد مقام کی طرف نکل گئیں، تو ایک بھیڑیا ان میں سے ایک کے بچے پر حملہ آور ہوگیا اور اسے لے گیا، دونوں دوسرے بچے کے بارے میں جھگڑنے لگیں اور دونوں کا دعوی تھاکہ یہ بچہ میرا ہے، تو حضرت داؤد علیہ السلام نے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیوں کہ بچہ اسی کے پاس تھا،اور کوئی ثبوت موجود نہیں تھا،تو اسی قرینہ کو کافی سمجھا گیا،لیکن جب وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گئیں اور معاملہ بیان کیا، تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا:’’چھری لاؤ، میں اسے دونیم کرکے تم دونوں کے درمیان تقسیم کر دیتا ہوں‘‘، اس پر چھوٹی نے کہا:’’نہیں! یہ اس کا بچہ ہے، خدا کے لیے اس پر رحم کردیں‘‘،حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ دیا کہ بچہ چھوٹی کا ہے، کیوں کہ حقیقی ماں کی ممتا نے بچے کی جان بچانے پر زور دیا، چاہے وہ اس کے پاس نہ ہو،کسی اور کے پاس پرورش پائے، اس سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھانپ لیا کہ بچہ اسی کا ہے، تو انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ دےدیا(صحیح بخاری،کتاب التفسیر، باب قول الله تعالى {ووهبنا لداود سليمان نعم العبد إنه أواب}حدیث نمبر:۳۴۲۷)،تاریخ اسلام میں قضاۃ کی ذکاوت وفطانت کے بے شمارواقعات ملتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے نبی ﷺ کو نبوت سے پہلے بھی بہت اعلی درجہ کی ذہانت و فطانت حاصل تھی، جب حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کا معاملہ پیش آیا تو آپ نے ایک چادر منگوائی، اور متنازع فریقوں سے کہا کہ اس کے کناروں کو پکڑیں اور پھر آپ ﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھا، نبوت کے بعد بھی ایسےمتعدد مواقع پیش آئے جہاں آپ ﷺ کی ذہانت ودور اندیشی کے بے مثل نمونے سامنے آئے، جب آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اورمکہ یک صلح کی بنیاد پر ابھی مشرکوں کے زیرِ اقتدار تھا، تو کفار نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں کہا:’’وھنتھم حمی یثرب‘‘(یثرب کے بخار نے انہیں کمزور کر دیا ہے)، اور کفار نے مارے غرورکے مسلمانوں سے ملنے سے بھی انکار کردیا اور پہاڑ پر جمع ہو گئے، اس پر آپ ﷺ نے صحابہ کوحکم دیا کہ طواف کے سات پھیروں میں سے تین شوط میں رمل کریں یعنی شانوں کوحرکت دیتے ہوئے تیز قدم اٹھائیں اور بہادروں کی طرح چلیں،اورانہیں دکھائیں کہ وہ کمزور نہیں ہیں،’’ارملوا، أروهم أن بكم قوة‘‘ حالانکہ وہ اس وقت کافی تھکے ہوئے تھے، اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان آرام سے چلیں، کیوں کہ کفارمکہ ایسی جگہ بیٹھے تھے کہ انہیں اس حصہ میںنہیں دیکھ پارہے تھے،جب صحابہ نے ایسا کیا تو دشمنوں نے کہاکہ:’’یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم نے کہا تھا کہ یثرب کے بخار نے انہیں کمزور کر دیا ہے!‘‘(شرح معانی الآثارللطحاوی،عالم الکتب،۱۹۹۴،حدیث نمبر: ۳۸۳۱۔۳۲)، اس سے کفارمکہ پر نفسیاتی دباؤ پڑا اور مسلمانوں کی قوت وشوکت ظاہر ہوئی ،واضح رہے کہ یہ ۷ھ میں عمرۂ قضاء کا واقعہ ہے،حجۃ الوداع میں جب آپ نے حج فرمایا تو تین چکروں میں مکمل رمل کیا،رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بھی،اور یہی سنت باقی رہی۔
حضرت ابو بکر صديقؓ کی قوتِ فہم بھی بہت بلند تھی، جب پیغمبر ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے اخیر میں ایک خطبہ دیا، جس میں آپﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ خدا نے اپنےایک بندہ کو اختیاردیاہے کہ وہ دنیا میں رہنے کو ترجیح دے یا جو کچھ اللہ کے پاس ہے اسے اپنے لیے پسند کرلے، اس نے جو خداکے پاس ہے،اسے پسند کرلیا ہے، توحضرت ابو بکر صدیقؓ ان الفاظ کو سنتے ہی رو پڑے، جب کہ باقی صحابہ ان کے درمیان تھے، ان کو ان کے رونے پر تعجب ہوا، کہ رسول اللہﷺ ایک نیک بندے کے بارے میں بتا رہے ہیں تو اس میں رونے کی کیا بات ہے!بعد میں پتہ چلا کہ رسول اللہﷺ اپنے وصال کی طرف اشارہ فرمارہے تھے،اوراسےحضرت ابو بکرؓ اسی وقت سمجھ گئے، اور حاضرین کو بتادیا (بخاری، کتاب المناقب،باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: سدوا الأبواب إلا باب أبي بكر،حدیث نمبر:۳۶۵۴)،خلیفۂ راشد اول حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اس موقع پربھی غیر معمولی ذہانت سے کام لیا جب انہوں نے ہجرت کے دوران کبھی پیغمبر ﷺ کے سامنے اور کبھی پیچھے چلنے کا طریقہ اپنایا، پیغمبر ﷺ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا:’’أذكر الطلب فأمشي خلفك، ثم أذكر الرصد، فأمشي بين يديك‘‘(خیال آتا ہے کہ وہ پیچھا کررہے ہوں گے تو آپ کے پیچھے چلنے لگتا ہوں،اور جب یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں گھات لگا کرتاک میں نہ بیٹھے ہوں تو نظر دوڑانے کے لیے آگے چلنے لگتا ہوں) (مستدرک حاکم، حدیث نمبر: ۴۲۶۸)۔
ایک خاتون حضرت عمر بن خطابؓ کے پاس آئی اور کہنے لگی:’’میرے شوہر ایک نیک آدمی ہیں، عبادتوں میں بڑےمجاہدے کرتے ہیں، راتوں میں اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں‘‘، تو انہوں نے اس کی تعریف کی اورشاباشی دی کہ ایک خاتون اپنے خاوند کی تعریف کررہی ہے،وہاں ایک ذہین وفطین صحابی کعب بن سورازدی موجود تھے،انہوں نے کہا:امیر المؤمنین!آپ اس کی تعریف کررہے ہیں!جب کہ اس خاتون نے شکایت میں بڑی مہارت سے کام لیا ہے،حضرت عمر فاروقؓنے پوچھا:کس کی شکایت کی ہے؟، انہوں نے جواب دیا:’’اپنے شوہر کی، مطلب یہ ہے کہ وہ اُس کے قریب نہیں آتا ،اور ازدواجی حقوق ادا نہیں کرتا، توحضرتؓ نے فرمایا:’’جب تم بات سمجھ ہی گئے ہو تو ان کے درمیان فیصلہ کردو،انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر فرض کرلیں کہ اس کی چار بیویاں ہیں تو بھی ہر چوتھی رات میں اس بیوی کا حق بنتا ہے،جب کہ ایک ہی ہے،تو اگر تین راتیں بھی مسلسل عبادت کرنا چاہتا ہو تو کرے لیکن چوتھی رات بیوی کے پاس گذارے، یہ فیصلہ حضرت عمرؓ کو اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ان کو بصرہ کا قاضی بنادیا۔(الاستیعاب لابن عبد البر،۳؍۱۳۱۸،الطرق الحکمیۃ في السیاسۃ الشرعیۃ لابن القیم،مکتبۃ دار البیان،ص۲۴،اسلام میں عدل کے ضابطے(اردو ترجمہ بقلم پروفیسر طیب شاہین لودھی)،فاروقی کتب خانہ، ملتان،ص۶۷)۔
حیرت انگیزذہانت کے وہ نمونے بھی قابل مطالعہ ہیں جو غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت جوابات کی شکل میں سامنے آئے، جب قاضی ابوبکرؒعیسائیوں سے ڈبیٹ کرنے کے لیے رومیوں کے پاس گئے، وہ ایک بڑی عظیم الشان مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، جس میں ان کا سب سے بڑا پوپ موجود تھا، تو انہوںنے اسی سے آغاز کیا، اور پوچھا: آپ اور آپ کے اہل وعیال کیسے ہیں؟ یہ سنتے ہی حاضرین سخت ناراض ہوئے اورکہا: تم پر افسوس! ہمارے پوپ کا احترام کرو! وہ خواہشات کی سطح سے اوپرہیں، ان کے لیے شادی کرنا مناسب نہیں، پھر بچے کیسے ہوں گے!ہمارے پادری صاحب نہ شادی کرتے ہیں نہ بچے کی پیدائش سے ان کوئی سروکار،تو انہوں نے کہا: تم پر افسوس! تم نے اپنے پادری کو اس کی بیوی اور بچوں سے بلند کردیا!اور اپنے رب کے لیے بیوی اور بیٹے مان لیے، وہ یہ جواب سن کر ہکا بکا رہ گئے ،اورفوراًہی ایک گستاخانہ سوال پوچھ بیٹھے: تمہارے نبی کی اس بیوی کا کیا معاملہ ہے! جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اجنبی آدمی کے ساتھ سفر میں تھیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی طرح سات آسمانوں کے اوپر سے بری کر دیا جس طرح اس نے مریم علیہا السلام کو بری کیا، سوائے اس کے کہ مریم کو بیٹا ہوا اور عائشہؓ کی کوئی اولاد نہ تھی،یہ جواب سن کروہ پھر لاجواب ہو گئے، اورکوئی جواب نہ بن پڑا تو تیسرا سوال کیا کہ تمہارے لیے ہماری عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے،لیکن ہمارے لیے تمہاری عورتوں سے نکاح کیوں درست نہیں! انہوں نے جواب دیا: ہم آپ کے نبی پر ایمان لائے ہیں؛ اس لیے ہم آپ کی بہن بیٹیوں سے نکاح کرسکتے ہیں، اگر آپ بھی ہمارے نبی پر ایمان لے آئیں تو ہم آپ کا نکاح اپنی مسلم خواتین سے کر دیں گے، اس جواب پر سناٹا چھا گیا،اور کوئی جواب نہ بن پڑا۔
رستم کے دربار میں حضرت ربعی بن عامر ؓ کا بے باک انداز اور دوٹوک جواب ان کی دور اندیشی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے،حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں انہوں نے اپنی حاضر جوابی سے ملحدین کو بے زبان کردیا،اور بھی ائمہ وعلماء،اور مناظرین ومبلغین بڑی تعداد میں ملتے ہیں جنہوں نے ترکی بہ ترکی جوابات دینے کی بجائے دانش مندانہ اور مدلل جوابات سے اسلام کا دفاع کیا، ان کی ذہانت کی داد دی گئی،اور ہدایت بھی عام ہوئی،آج شدیدضرورت ہے ایسے علماء کی جو مخالفین اسلام کے فکر ونظر کا مطالعہ کریں اور اس کی روشنی میں آسان عقلی جوابات کی تیاری کریں جو سائنٹفک اورمنطقی ہو ،اور غیر جانب دار لوگوں کے ذہن ودماغ کو اپیل کرنے والا ہو:
تقدیر امم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا