✍ ڈاکٹر جہاں گیر حسن
_____________
اسلام دین فطرت ہے اور اس کا ہر نظام و قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسی فطرتی نظام کے سبب اسلام اپنے ماننے والوں کے حق میں انتہائی مفید اور آسان تر ثابت ہوتا ہے۔ اسلام کا کوئی بھی حکم یا نظام ایسا نہیں ہے جو اُس کے ماننے والوں کے حق میں ضرر رَساں ہو۔ یہ بات الگ ہے کہ اس کے ماننے والے اپنی ناسمجھی اور دنیوی حرص وہوس کے چکر میں پڑ کر اَسے اپنے لیے مصیبت بنالیتے ہیں یا پھر بندگان خدا کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں۔
صدقات میں زکات اور فطرہ ایک معنی خیز اور اَچھوتا نظام ہے جو اَمیر-غریب ہر دو طبقات کی کامیاب حیات کے لیے لازم ہے۔ زکاة و فطرہ کا نظام اِس لیے نافذ نہیں کیا گیا ہے کہ امیر طبقات کو ستایا جائے اور اُن کے اموال کو نقصان پہنچایا جائے۔ بلکہ یہ اس لیے نافذ ہوا ہے تاکہ امیر طبقات ایک طرف بخل اور تکبر و غرور جیسے خبیث و شیطانی عادات سے بچ سکیں اور اخلاق حمیدہ جیسے مرغوب اوصاف متصف ہوسکیں تو دوسری طرف ہمارا مسکین و محتاج طبقات معاشی اعتبار سے خوشحال ہوسکیں۔
خیال رہے کہ عرف عام جس چیز کو بخل کہا جاتا ہے اللہ و رسول کے نزدیک دراصل وہ بخل نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت میں بخل یہ ہے کہ صدقات و زکات یعنی شرعاً غربا و مساکین کو دِیے جانے والے اموال اور فی سبیل اللہ خرچ کیے جانےوالے اموال کو رُوک لیا جائےاوراَیسے ہی بخیل لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُن پر جنت کی خوشبو حرام کردی جاتی ہے۔ واضح لفظوں میں کہا جائے تو شرعاً طے شدہ اموال (زکات) ادا نہ کرنا جنت سے محرومی اور جہنم سے نزدیکی کا سبب ہے۔ اُسی طرح صدقہ فطر کا معاملہ ہے کہ یہ، رمضان کے دنوں میں ہر صاحب نصاب پر واجب ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ہر فرد بشرکی طرف سے ایک مقررہ مقدار میں متعینہ اناج / غلہ ادا کرے یا پھر اُس مقدار کی موجودہ جو قیمت ہو اُس کو اَدا کرے اور یہ، اُن مستحقین پہنچائے جن تک پہنچانے کی تلقین اللہ عزوجل اور رَسول کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ چناں چہ قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو بطور صدقہ فطر منقی، کشمش، کھجور، چھوہارہ، پنیر، جو وغیرہ کا ذکر بالخصوص ملتا ہے۔ جب کہ گیہوں کا ذکر صراحت کے ساتھ کہیں نہیں ملتا ہے۔ البتہ! حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے معمولات سے اِس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ صحابہ کرام کجھور و کشمش، منقی و پنیر اور جَوکی طرح گیہوں سے بھی ایک صاع بطور صدقہ فطر نکالا کرتے تھے۔ لیکن حضرت معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما نے اپنی تحقیق و صواب دید پر ایک صاع صدقہ فطر کو نصف صاع گیہوں میں مبدل کردیا اور اِس کی علت یہ بتائی گئی کہ چوں کہ کھجور، کشمش وغیرہ کے بالمقابل گیہوں کی درآمدگی کافی مشکل ہے۔ نیز یہ کہ گیہوں، کھجور و کشمش کے مقابلے کافی مہنگا بھی ہے اور پھر یہ کہ نصف صاع گیہوں، ایک صاع کھجور و کشمش وغیرہ کے برابر ہے اِس لیے عوام الناس کو گیہوں نکالنے کی صورت میں شاق نہ گزرے اور اُنھیں معاشی دقتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے لہٰذا گیہوں صدقہ فطر نکالنے کی صورت میں نصف صاع گیہوںمقرر کردیا گیا جسے اُس وقت کے اصحاب نے قبول کرلیا کہ یہ ایک معقول علت و سبب ہے۔
لیکن آج تک نصف صاع گیہوں بر قرار رکھنا ہمارے خیال سے کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ ہمارا ماننا ہے کہ اِس سلسلے میں ہمارے علما و محققین کچھ پہل کریں اور فی زماننا نصف صاع گیہوں کی ادائیگی پر غور و خوض کریںاور اُس کی جگہ ایک صاع گیہوں کو بحال کریں جیساکہ صحابہ کرام کے زمانے میںپہلےاولاً یہی رائج تھا ۔ کیوں کہ حضرات معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما کے زمانے میں منقی، کشمش، کھجور، جو وغیرہ کی بہ نسبت گیہوں کافی مہنگا تھا اِس لیے اُس وقت نصف صاع گیہوں کو مذکورہ بالا اشیا (کھجور و کشمش وغیرہ) ایک صاع کے برابر مانا گیا ہے اور اُسی مقدار کے مطابق صدقہ فطر کا حکم ہوا، تو کیا موجودہ زمانے میں گیہوں کی مقدار نصف صاع کی جگہ ایک صاع نہیں ہوسکتی؟ کیوں کہ اس وقت گیہوں، مذکورہ بالا اشیا (کھجورومنقی ، کشمش وغیرہ)کے مقابلے کافی سستا ہے۔
جس حدیث پاک سے گیہوں کا ثبوت ملتا ہے وہ یہ ہے: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں از قسم طعام، کھجور، جَو، پنیر بطور صدقہ فطر ایک صاع نکالا کرتے تھے۔ لیکن حضرت معاویہ اور حضرت سمرا رضی اللہ عنہما کا زمانہ آیا تو اُنھوں نے کہا کہ ایک مد (نصف صاع) گیہوں، دو مد (ایک صاع) کھجور وغیرہ کے برابر ہے۔
اِس روایت سے واضح ہے کہ حضرات معاویہ اور سمرا رضی اللہ عنہما نے اپنی تحقیق و صواب دید پر ایک مد (نصف صاع) گیہوں کو دُو مد (ایک صاع) کے برابر قرار دیا اور اُسی وقت سے ایک صاع کجھور و کشمش وغیرہ کی جگہ نصف صاع گیہوں رائج ہوا کہ یہ اس وقت کا تقاضا اور اُمت مسلمہ کے حق میں بہتر تھا اور صدقہ فطر کا جو مقصد ہے ’’محتاجوں کی حاجتیں پوری کرنا‘‘ اس پر بھی ضرب نہیں پڑ رہی تھی۔
لیکن آج بالکل اُس کے برعکس ہوگیا ہے۔ یعنی اس روایت کو موجودہ عہد کے حالات و معاملات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج گیہوں کا معاملہ قیمتاً یکسر اُلٹ گیا ہے اور جس مقصد کے تحت حضرات معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما نے گیہوں کی مقدار نصف صاع مقرر کی تھی وہ بھی فوت ہوچکا ہے اور قاعدہ کلیہ ہے کہ جب شرط و علت ختم ہوجائے تو مشروط و حکم بھی ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ احادیث کریمہ میں بطور صدقہ فطر جن اشیا کا ذکر ملتا ہے اُس سے روز رُوشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ان اشیا میں سے نصف صاع بلکہ اُس سے بھی کم، ایک صاع گیہوں یا اُس سے زیادہ مقدار کے برابر ہوجاتا ہے۔ مزید آسان لفظوں میں کہا جائے تو نصف صاع کھجور، منقی، کشمش، پنیر، جو وَغیرہ آج ایک صاع گیہوں کے برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا بغور دیکھا جائے تو نصف صاع گیہوں کی شکل میں صدقہ فطر ادا کرنے سے اُس کا اصل مقصد فوت ہوجانے کے ساتھ محتاجین و مساکین کی سخت حق تلفی بھی ہورہی ہے اور صدقہ فطر کے مزاج میں کبھی یہ نہیں ہے کہ مستحقین کو نقصان پہنچائے کہ صدقہ فطر محتاجین و مساکین کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہی وضع کیا گیا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اِس زمانے میں حضرات معاویہ و سمرا رضی اللہ عنہما ہوتے تو اُس کے کم دام ہونے کے سبب نصف صاع گیہوں کی جگہ ایک صاع لازمی طور پربحال کردیتے۔
اِس کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ صدقہ فطر ہرسر پرست پر واجب نہیں کہ اُسے ایک صاع گیہوں یا اُس کی قیمت نکالنے میں دقّت ہو۔ بلکہ یہ محض صاحب نصاب سرپرست پر واجب ہے۔ بایں سبب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علما و فضلا اور متدین مفتیان ومحققین اِس معاملے میں شرعی و فقہی نقطہ نظر سے غور و خوض کریں اور نصف صاع گیہوں کی صورت میں صدقہ فطر کا جو بنیادی اور روحانی مقصد فوت ہورہا ہے ایک صاع گیہوں کرکےاُسےبحال کرنے کی کوشش کریں کہ یہ،کار ِثواب ہوگا اور ایک بڑا مسئلہ بھی حل ہوجائےگا۔ کیوں کہ یہ حقیقت ہم سبھی جانتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کو نفع پہنچانے اور اُسے اجر و ثواب سے قریب کرنے کے لیے حسن نیت کے ساتھ اگر کوئی تحقیق و تفتیش کی جائے تو دُرست ہونے پر ثواب ہی ثواب ہے اور اگر خدا نخواستہ چوک بھی ہوجائے تو حسن نیت کا ثواب ضرور حاصل ہوگا۔ لہٰذا ہمیں امید قوی ہے کہ ہمارے متدین علما و فضلا اورمفتیان و محققین ضرور اِس پر توجہ دیں گے۔ ان شاءاللہ