✍ محمد ضیاء الدین برکاتی
______________
آپ کی ولادت ماہ رجب المرجب 1944ء میں صوبہ بہار کے ضلع کٹیہار کے بینی باڑی گاؤں میں ہوئی ۔
ابتدائی تعلیم علاقے سے حاصل کرتے ہوۓ درس نظامی کے لیے دارالعلوم مصطفائیہ چمنی بازار گئے۔پھر دارالعلوم حمیدیہ رضویہ بنارس ،پھر دار العلوم مظہر اسلام بریلی شریف میں تعلیم حاصل کی پھر 1964 میں جامعہ اشرفیہ مبارک پورمیں داخلہ لیا، اور 1967 میں یہاں سے سند فراغت حاصل کی۔ آپ جامعہ اشرفیہ میں طالب علمی کے دوران ہی معین المدرسین کی حیثیت سے ابتدائی جماعتوں کے طلبہ کو درس دیتے تھے اور جب جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے سند فراغت حاصل کی تو باضابطہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوۓ ،ملک کے کئی اداروں میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم سے مدرسہ فیض العلوم جمشید پور گئے اور بحیثیت صدر المدرسین و شیخ الحدیث آپ کا تقرر ہوا ، یہیں سے آپ نے فتوی نویسی کا آغاز کیا۔اس کاپس منظر کچھ یوں ہے کہ رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے سیوان میں ایک کانفرنس دارالقضاکے قیام کے سلسلے میں کرائی جس کا مقصد تھاکہ یہ دارالقضا، بنگال، بہار اور اڈیشا کے لیے قائم کیا جاۓ اور اس کا ہیڈ کوارٹر پٹنہ ہو، چنانچہ سبزی باغ پٹنہ میں دار القضا قائم کر دیا گیا(جس کانام ادارہ شرعیہ پٹنہ ہے) اور دار القضا سے متعلق جتنے مسائل تھے ان سب کا دستور العمل مرتب کرنے اورآۓ ہوۓ استفتوں کے جوابات دینے کی بھی ساری ذمہ داری حضرت علیہ الرحمہ کےسپردکر دی گئی ۔
2- حضرت علامہ حافظ عبدالرؤف بلیاوی کے حکم سے دارالعلوم حمیدیہ رضویہ بنارس تشریف لے گئے ، یہاں کئی سالوں تک قیام فرماکر دار الافتا اور درس گاہ کی ذمہ داری سنبھالی.
3- آپ کے استاذ گرامی حضرت علامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی نے ممبئی میں ایک مدرسہ دارالعلوم محمدیہ قائم کیا اور دور حدیث کے طلبہ کی تعلیم کے لیے آپ کا انتخاب کیا ، تو آپ دار العلوم محمدیہ تشریف لے گئے.
4- حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے حکم سے مظہر اسلام بریلی شریف آگئے۔
5- دار العلوم امجدیہ ناگ پورمیں تین سال تک تدریس و افتا کی خدمت انجام دیں۔
6- دار العلوم نداے حق جلال پور تشریف لاۓ ، اس وقت حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ یہاں کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث تھے۔اسی سال حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا وصال ہوگیا اور شارح بخاری علیہ الرحمہ وہاں سے جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لے آۓ ، ان کے جانے کے بعد آپ صدرالمدرسین و شیخ الحدیث اور مفتی کے منصب پر فائز ہوۓ۔
7- مدرسہ شمس العلوم گھوسی میں پانچ سال تک آپ تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔
8- اس کے بعد آپ کو 1986 میں خانقاہ رشیدیہ جون پور کا سجادہ نشیں بنادیا گیا.واضح ہوکہ خانقاہ رشیدیہ، جون پور تقریباً چار سوسالہ قدیم علمی اور روحانی خانقاہ ہے۔ علم و تصوف کی ترویج و اشاعت میں ہمیشہ سے اس خانقاہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔
تصنیفی خدمات:
حضرت کی تصنیف کردہ چندکتب درج ذیل ہیں:
1- اختیار نبوت
2- بیان حقیقت
3- جواہرالحدیث
4- آیات نافعہ
5- اذکار نافعہ
6- معمولات قطب الاقطاب ۔
7- موبائل کی خبروں سے استفاضہ شرعی کا حکم
بیعت و خلافت:
1956 میں منظور الحق حضرت سید شاہ مصطفی علی سبزپوش گورکھپوری ( دسویں سجادہ نشیں : خانقاہ رشیدیہ جون پور) کے دست حق پر سلسلۂ چشتیہ مصطفائیہ میں بیعت ہوۓ۔
ساتھ ہی آپ کو اپنے والد محترم حضرت مولانا حکیم لطیف الرحمن رشیدی کے ساتھ ساتھ مولانا شاہ غلام محمد یسین رشیدی اورحضرت سید شاہ زاہد سجاد جعفری پٹنوی سے تمام سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔
آج حضرت علیہ الرحمہ کے انتقال سے علمی دنیا سوگوار ہوگئی ہے۔یقیناجو بھی اس فانی دنیامیں آیاسب کو دارجاودانی کی طرف کوچ کرناہے۔
جانے والے تو رہے گا برسوں
دل کے نزدیک آنکھ سے اوجھل
اللہ عزوجل حضرت کو غریق رحمت کرے۔ان کے درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کوصبرجمیل واجرجزیل عطافرمائے آمین ۔