ڈاکٹر غلام زرقانی
________________
یوپی ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے حالات بڑے نازک ہوگئے ہیں۔ ویسے آسام میں مدارس اسلامیہ کے حوالے سے جو حکومتی رویہ جاری ہے، اس سے توقع یہی تھی کہ جلد ہی یوپی حکومت بھی اسی نہج پر چلی جائے گی۔ بہر کیف، اب ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہیے، اس پر غور وخوض کی ضرورت ہے۔
۱۔ میں متذکرہ فیصلے کی نوعیت پر کوئی بات نہیں کرناچاہتا، اس لیے کہ اگر ماہرین قانون بالفرض بحث ومباحثہ کی کوئی گنجائش نکال بھی لیتے ہیں اورسپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف پٹیشن داخل کرتے ہیں، تو ہوسکتاہے کہ عارضی سہولت مل جائے، لیکن آثار وقرائن اور حالیہ حکومتی پالیسی سے کوئی بعید نہیں کہ آنے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد جس ایکٹ کی دہائی ہم دے رہے ہیں ، وہی پارلیامنٹ میں ایک بل پاس کرکے کالعدم قرار دے دیا جائے ۔
۲۔ جمہوری روایات کا یہ حصہ رہاہے کہ جب کوئی عوامی احتجاج بڑے پیمانےپر ہوتاہے، توحکومتی ذمہ دار گفت وشنید کاآغاز کرتے ہیں اور کچھ لو اور کچھ دو کے ذریعہ اسے سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم گذشتہ آٹھ دس سالوں سے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان جس قدر چاہیں احتجاج کریں، ان کے مطالبات ماننے نہ ماننے کی بات تودور کی رہی، ان سے بات تک کرناگوارا نہیں کیا جارہاہے۔اوراس کی سب سے بڑی مثال سی اے اے پر ملک گیر احتجاج ہے، جو طویل تربھی رہا اور جم غفیر کے ساتھ بھی۔
اس لیے زمینی حالات یہ ہیں کہ اب احتجاج، ارباب حکومت کو چیلنج کرنے والے ڈائلاگ اور شعلہ بیان مقررین سے دور رہنے کی کوشش کی جائے۔ اورشعلہ بیان مذہبی اور غیر مذہبی عمائدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
۳۔ پیغام رسانی کے لیے ہمارے پاس جمعہ ہے، جس میں بڑے پیمانے پر مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ کوشش ہوکہ بجائے اس کے کہ کس نے کیا کیا ہے، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے، اس پر گفتگو کی جائے۔
۴۔حالیہ یوپی ہائی کے کورٹ کے فیصلے کے بعد دو مسئلے سامنے ہیں ؛ ایک اُن اساتذہ کرام کے حوالے سے جن کی سرکاری نوکری خطرے میں ہے اور دوسرا حفاظت دین کے حوالے سے ۔
پہلے مسئلے کا حل یوں ہوسکتاہے کہ مسلمان غیر ضروری اخراجات میں کٹوتی کریں۔ اعراس، اجلاس اور دینی تقریبات مساجد میں کریں۔ نیز مزارات کی تزئین وآرائش، پیروں کو نذرانہ ، خطباء وشعرا پر بہت زیادہ خرچ، محرم میں تعزیہ و سبیل، شادی اور جہیز ، وغیرہ امور پر غور کیا جائے تاکہ ان میں سے کچھ بچاکر ایسے مدارس کی خدمت کریں، جو دین کے استحکام میں فعال کردار ادا کررہے ہیں۔
دوسرے مسئلے کے حوالے عرض کروں گا کہ اگر ارباب اقتدار اسلامی تعلیمات کی ترویج واشاعت پر قدغن لگانے کی سوچ رہے ہیں، توملک کی ہر مسجد میں شبینہ مدرسہ کا آغاز کیا جائے ، جہاں دینی تعلیم کے لیے مختصر دورانیہ کے چھوٹے چھوٹے کورس پڑھائے جائیں، تاکہ خدانخواستہ مدارس اسلامیہ کمزور ہوئے، تودینی تعلیم کی اشاعت کسی طور کمزور نہ ہونے پائے۔
۴۔ اخیر میں عرض کروں گا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی زبوں حالی کی سب سے بڑی مشترکہ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں ’جذباتیت‘ کا عنصر بہت غالب ہوگیاہے، جب کہ جذباتیت صرف میدان جنگ میں ہی کارآمد ہوتی ہے، عام حالات میں گہرائی وگیرائی کے ساتھ غور وفکر اور زمینی حالات کے مطابق اقدامات ثمر آور ہوتے ہیں۔ اسے قرآن کی آیت کریمہ کی روشنی میں یوں سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ـ ’’اعدوا مااستطعتم من قوۃ ورباط الخیل ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم ‘‘ یہاں غور کیجیے کہ ’ارہاب‘ سے پہلے ’اعداد‘ ہے۔ یعنی میدان جنگ میں جانے سے پہلے حالات کے مطابق تیاری ہونی چاہیے، پھر جب آپ پر جنگ مسلط کردی جائے ، تواب پورے جذبات کے ساتھ کود پڑیے۔ بہر کیف، میں کہنا یہ چاہتاہوں کہ فی الحال جو حالات ہیں،وہ ان شاء اللہ ہمیشہ نہیں رہیں گے، تاہم اس وقت سب سے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ہم خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے علاقوں میں دین متین کو زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش جاری رکھیں، تاکہ کل جب حالات بہتر ہوں، توہمیں از سرنو تعمیر ملت میں دشواری نہ ہو۔
بہت ممکن ہے کہ کچھ باتوں میں آپ اختلاف کریں، یہ آپ کاحق ہے، لیکن از راہ کرم لب ولہجہ شائستہ رکھیں۔