✍️ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
________________
انسانی معاشرے میں کچھ لوگوں کا دولت مند اور کچھ کا غریب وضرورت مند ہونا نظامِ قدرت اور تقاضۂ فطرت ہے ؛ اس لئے ہر سماج کی ضرورت ہے کہ اس کے خوش حال اوراصحاب ثروت اپنے ضرورت مند اور غریب بھائیوں کی مدد اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے اپنی دولت کا کچھ حصہ اسی مقصد کے لئے نکالیں ؛ اسی لئے پہلے آسمانی مذاہب میں بھی زکوٰۃ وصدقات کا حکم فرمایا گیا ، قرآن مجید کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی اپنے اہل و عیال کو زکوٰۃ دینے کا حکم فرمایا کرتے تھے : کَانَ یَامُرُ اَھْلُہُ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ(مریم:۵۵) بنی اسرائیل سے خدا نے جن باتوں کا عہد لیا تھا ان میں نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا ادا کرنا بھی تھا ، (بقرہ:۳) حضرت مسیح نے بھی اعلان فرمایا کہ مجھے زندگی بھر اقامت ِصلوٰۃ اوراداء ِزکوٰۃ کی ہدایت کی گئی ہے : وَاَوْصَانِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَادُمْتُ حَیًّا (مریم:۳۱)
ہر چند کہ بائبل میں انسانی ہاتھوں اور دماغوں نے بہت کچھ تحریف کی ہے ؛ لیکن اب بھی اس میں کہیں مبہم اور کہیں واضح ہدایت صدقہ و انفاق کی ملتی ہے ، تورات غلہ اور جانور دونوں میں دسواں حصہ واجب قرار دیتا ہے :
اور زمین کی پیداوار کی مساوی دہ یکی ( دسویں حصہ ) خواہ وہ زمین کے بیج کی یا درخت کے پھل کی ہو ، خداوند کی ہے اور خداوند کے لئے پاک ہے اور گائے ، بیل اور بھیڑ ، بکری یا جو جانور چرواہے کی لاٹھی کے نیچے سے گذرتا ہو ، ان کی دہ یکی یعنی دس پیچھے ایک ایک جانور خداوند کے لئے پاک ٹھہرے ۔ (احبار:۲۷؍۳۳۰)
فی کس آدھا مثقال اس کے علاوہ ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جو ہدایات دی گئیں، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ :
دولت مند نیم مثقال سے زیادہ نہ دے اور نہ غریب اس سے کم دے ، (خروج:۳۰؍۱۵) دوسرے مذاہب میں بھی نذر ، قربانی اور دان کا تصور موجود ہے ، غرض انسانی خدمت ، غریبوں کی مدد اورحاجت مندوں کی حاجت روائی ، مذاہب عالم اور انسانی فطرت ِسلیمہ کا ایک مشترک ورثہ ہے ، جسے اسلام نے نہ صرف باقی رکھا ؛ بلکہ اس کو خدا کی بندگی کا ہم درجہ بنا دیا اور اس کی اہمیت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کو اس کا ایک مرتب نظام عطا فرمایا ۔
اسلامی تعلیمات کا اولین اور مستند ترین سرچشمہ قرآن مجید ہے ، قرآن مجید نے زکوٰۃ کو جو اہمیت دی ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے بیس مقامات پر زکوٰۃ کو اسلام کے رُکن اول نماز کے دوش بدوش ذکر کیا ہے ، بتیس مقامات پر صریحاً زکوٰۃ کا اور پندرہ مقامات پر صدقہ کا ذکر آیا ہے ، مختلف سیاق میں رحمت ِخداوندی کا حق دار ہونے کے لئے ایمان و تقویٰ کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کو بھی شرط قرار دیا گیا ، (اعراف:۱۶۵) اور فرمایا گیا کہ زکوٰۃ تمہارے مال میں کمی کا سبب نہیں ؛ بلکہ برکت و اضافہ کا باعث ہے : ’’ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِنْ زَکٰوۃِ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اﷲِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ(روم:۳۹) آخرت میں اس کا جو ثواب ہے ، اس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال اس بوئے گئے دانے کی ہے ، جس میں سات بالیاں نکل آئیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں ، اللہ جس کے لئے چاہتے ہیں ، دو چند کردیتے ہیں اور وہ وسعت والے اور علم والے ہیں ۔ (بقرہ:۲۶۱)
جو لوگ زکوٰۃ ادا نہ کریں اور غریبوں کے اس حق سے پہلو تہی برتیں ، ان کے لئے اسی درجہ عبرتناک سزا ہے :
جس دن سونا چاندی دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا ، پھر اس سے پیشانیاں ، پہلو اور پشت داغے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہی مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا ، اب اس مال کا مزا چکھو ۔ ( توبہ:۲۶۱)
کہیں فرمایا گیا کہ اس مال کا طوق عذاب بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا، (آل عمران:۱۸) واقعہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں نماز کے بعد جس تاکید و اہتمام اور کثرت و تکرار کے ساتھ قرآن مجید نے زکوٰۃ و صدقات ، انفاق ، انسان کی مدد ، یتیموں اور حاجت مندوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کیا ہے ، کسی اور عمل پر اس اہمیت کے ساتھ زور نہیں دیا گیا ہے ۔
رسول اللہ ﷺنے زکوٰۃ کو ارکان اسلام میں نماز کے بعد درجہ دیا ہے اور بعض اوقات آپ ﷺنے جن باتوں پر بیعت لی، ان میں زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمادیا ، (بخاری ، کتاب الزکوٰۃ : ۱ ؍ ۱۸۸۔) آخرت میں زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر آپ ﷺکی جو وعیدیں ہیں ، وہ نہایت لرزا دینے والی ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہوگی ، وہ زہریلے سانپ کی صورت اختیار کر کے گلے کا طوق بن جائے گا اور ڈستا رہے گا ، (بخاری ، کتاب الزکوٰۃ : ۱ ؍ ۱۸۸) جن جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی گئی ہوگی ، وہ اس کے جسم کو روندیں گے (حوالۂ سابق) ، دو خواتین خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئیں ، جن کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی زکوٰۃ ادا کر دی ہے ؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا ، آپ ﷺنے فرمایا : کیا تم کو یہ پسند ہے کہ آگ کے کنگن تم کو پہنائے جائیں ؟ اورزکوٰۃ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ (ترمذی : ۱ ؍ ۱۳۸ ، باب ماجاء فی زکوٰۃ الحلی)
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے دنیا میں بھی زکوٰۃ ادا کرنے پر خوش خبری اور نہ ادا کرنے پر اللہ کی پکڑ کا ذکر فرمایا ہے ، فرمایا کہ صدقہ سوء خاتمہ سے بچاتا ہے ، (ترمذی :۱ ؍۱۴۴) عمر میں اضافہ کرتا ہے ، (الترغیب والترہیب : ۱۶۱) ستر مصیبتوں کے دروازے بند کرتا ہے ، (حوالۂ سابق)بلائیں صدقہ کی وجہ سے نہیں آتی ہیں : فان البلاء لا یتخطاھا(مشکوٰۃ المصابیح : ۱ ؍ ۱۶۷) جس مال کی زکوٰۃ نہ ادا کی جائے ، تو مال زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اصل مال بھی ہلاک و ضائع ہو جاتا ہے ، جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی ، اس پر اللہ کی طرف سے قحط کا عذاب آتا ہے ، دنیا میں انسان کی بد اعمالیوں کا اس پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے ؟ حضرت ابن عمرؓ نے اس سلسلہ میں حضور ﷺکی اثر انگیز روایت نقل کی ہے ، فرماتے ہیں :
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : اے جماعت مہاجرین ! پانچ گناہ ہیں کہ جب تم ان میں مبتلاء ہوجاؤگے ، ( مصیبتوں میں پڑوگے) اورمیں اس بات سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ، کہ تم ان گناہوں میں مبتلاہو ، جس قوم میں کھلے عام بدکاریاں ہونے لگیں ، ان میں طاعون اور ایسی تکلیف دہ بیماریاں پیدا ہوں گی ، جو پہلے کے لوگوں میں نہیں ہوئی ، ناپ تول میں کمی کریں گے تو قحط ، تنگ حالی اورحکمرانوں کا جور و ظلم ان پر ہوگا ، جوزکوٰۃ ادا نہ کریں گے بارش سے محروم کر دیئے جائیں گے اور ( اس بستی میں ) جانور نہ ہوں تو شاید ان پر بالکل ہی بارش نہ ہو ، خدا اور رسول کے پیمان کو توڑیں گے ، تو دشمنوں کو جو کفار ہوں گے ، ان پر مسلط کر دے گا اور وہ ان کے قبضہ سے بعض چیزیں چھین لیں گے اور مسلمانوں کے جو حکمراں قرآن مجید کے مطابق فیصلہ نہ کریں گے اور احکامِ الٰہی کو ترجیح نہ دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی قوت کو باہم ہی ٹکرا دے گا۔ ( ابن ماجہ ، عن ابن عمر: ۲ ؍ ۲۹۰ ، باب العقوبات)
غور کیا جائے تو آج اس حدیث کی تصدیق چشم سر سے دیکھی جاسکتی ہے ، اقوام مغرب میں بدکاریاں ، ایسے امراض کا وجود کہ جن سے کان و دل یکسر نا آشنا تھے ، حکمرانوں کا ظلم وجور ، قحط و خشک سالی ، مسلمانوں پر ان کے دشمنوں کا غلبہ و تسلط اور باہم آویزشیں ، یہ ساری حقیقتیں دوپہر کی دھوپ کی طرح سامنے ہیں ! اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی تنگ حالی اوردرماندگی کا ایک اہم سبب اس اُمت کا فریضۂ زکوٰۃ سے غفلت و بے اعتنائی ہے ۔
غور کیجئے تو مذاہب کی تعلیم کا خلاصہ اللہ سے تعلق اور محبت ہے ، راہبوں کی رہبانیت اورگھٹنوں کے بَل قیام ، مندروں میں بتوں کے سامنے سجود و نیاز ، آتش کدوں میں آتش اعتقاد کو سلگانا اور مسلسل روشن رکھنا ، ان سب کا اپنے اپنے خیال و عقیدہ کے مطابق خدا سے تعلق کے اظہار کے سوا اور کیا ہے ؟ اسلام نے اس مقصد کے لئے نماز کا نہایت پاکیزہ اور اثر انگیز عمل رکھا ، جس میں زبان اور آنکھیں ہاتھ اور پاؤں اور جسم کا ایک ایک حصہ خدا کی بارگاہ میں حاضر اورمتوجہ رہتا ہے ، عجز و فروتنی کی انتہا یہ ہے کہ انسان اپنی پیشانی تک خاک پر رکھ دیتا ہے ۔
لیکن تعلق مع اللہ اسی وقت اوج کمال کو پہنچ سکتا ہے ، جب کہ غیر اللہ سے بے تعلقی کا اظہار ہو ، دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ دامن نفس کو کھینچتی اور اپنا فریفتہ کرتی ہے ، وہ مال ودولت ہے ، اس کی حرص اول خدا سے بے توجہ کرتی ہے ، پھر دولت و ثروت کا نشہ دل و دماغ پر چڑھتا ہے اور کبر و غرور انگڑائیاں لینے لگتا ہے ، یہی ’’ کبر ‘‘ دین و اخلاق کے لئے سم قاتل ہے ، اس سے خود غرضی پیدا ہوتی ہے ، ایثار کا جذبہ مفقود ہوتا ہے ، لوگوں کے حقوق کو وہ ڈھکوسلہ سمجھنے لگتا ہے ، اپنی دولت خود اپنے قوت بازو کا ثمرہ ہونے کا خیال جڑ پکڑ تاہے ۔
’’زکوٰۃ‘‘ اسی مال کی محبت کو کم کرتا ہے ، ’’ نماز ‘‘ خدا سے تعلق کا سامان تھا اور ’’زکوٰۃ‘‘ غیر اللہ سے بے تعلقی کا عنوان ہے ، اسی کو ’’ تزکیہ‘‘ کہا جاتا ہے ، اس سے تواضع کا اظہار ہوتا ہے ، ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، زکوٰۃ کا عمل بندہ کے اس یقین کو ظاہر کرتا ہے کہ جو کچھ ہے ، خدا کا عطیہ ہے ، اس میں خود اس کی قوت و قدرت کو دخل نہیں ، یہ اس بات کا اقرار ہے کہ خدا کی خوشنودی کی قربان گاہ پر وہ دولت دنیا کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے ، یہ ایمان کی تازگی ہے ، دولت دنیا کی تطہیر ہے عقیدہ اور باطن کی صفائی ہے اور اعمال کی پاکی ہے ، اس لئے اس کا نام ہی ’’زکوٰۃ‘‘ رکھا گیا ، جس کے معنی ہی پاکی کے ہیں ، قرآن نے زکوٰۃ میں پائے جانے والی تربیت اخلاق اور تزکیہ باطن کی خاص صلاحیت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے : خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃٌ تُطَہِّرُھُمْ (توبہ: ۱۰۳) ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے ، اس کے ذریعہ آپ انھیں پاک وصاف کر دیں گے ۔
یہ تو زکوٰۃ کا اخلاقی اور روحانی پہلو ہے ، اس کے مادی اور معاشی فوائد ظاہر ہیں ، کوئی بھی سماج دولت مند اور غریب طبقہ سے خالی نہیں ہو سکتا ، زکوٰۃ سماج کے غریب طبقہ کو تحفظ وضمانت عطا کرتا ہے، پیغمبر اسلام ﷺ نے خوب فرمایا ہے کہ اگر تمام لوگ زکوٰۃ ادا کریں تو کسی کو غذا اورلباس سے محروم ہونا نہ پڑے :
اللہ نے اہل دولت پر جو زکوٰۃ فرض کی ہے ، وہ اتنی مقدار ہے کہ فقراء کے لئے کافی ہو جائے ، اگر یہ بھوکے ، بے لباس اور پریشان رہیں تو یہ اغنیاء کے فریضۂ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو حق ہے کہ وہ قیامت کے دن ان کا محاسبہ کریں اور ان کو اس پر عذاب دیں ۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۳۲۰۶)
یقین ہے کہ اگر دولت کے اعتبار سے تین درجات کئے جائیں ، ایک وہ لوگ جن پر زکوٰۃ واجب ہے ، دوسرے وہ جو زکوٰۃ کے حقدار ہیں ، پھر ان لوگوں کی دولت اور اس کی شرح زکوٰۃ کا حساب کیا جائے جن پر زکوٰۃ واجب ہے اور ان لوگوں کی غربت کو ملحوظ رکھ کر ان کی ضروریات کا حساب لگایا جائے ، تو ضرور زکوٰۃ تمام غرباء کی ضرورت پوری کردے گی ، کاش اعداد و شمار کی مدد سے اس کی تحقیق کی جائے تو انشاء اللہ آپ ﷺکی یہ پیشین گوئی ایمان وعقیدہ کی آنکھوں سے نہیں ؛ بلکہ سر کی آنکھوں سے دیکھی جاسکے گی ۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کا خود اہل ثروت کو یہ فائدہ ہوگا کہ غرباء طبقہ جس کی محنت اور جفا کشی ہی ہر چراغ عیش میں شعلہ زن ہے ،اور جن کے دم سے ہی عشرت کدۂ حیات کی ساری بہار قائم ہے ، میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے اور وہ ان کو اپنا ہمدرد و بہی خواہ سمجھیں گے ، مغربی سرمایہ داری میں زکوٰۃ کے لئے تو کیا جگہ ہوتی ؟ سود نے غرباء اور مزدوروں کی کمر توڑ رکھی ہے ، یہ سود اس محتاج و محنت کش طبقہ میں اہل دولت کے خلاف مخالف جذبات کو جنم دیتا ہے اور بھڑکاتا ہے ، کمیونسٹ تحریک اسی رد عمل میں پیدا ہوئی ، اسلام نے زکوٰۃ کے ذریعہ اس کا علاج کیا ہے اور دولت وغربت میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔