Site icon

فرقہ واریت:ترقی پذیر ہندوستان کا ناسور!

✍ محمد علم اللہ، نئ دہلی

___________________

اکیسویں صدی میں جہاں ہندستان عالمی اطلاعات،خلا،جوہری توانائی نیز تکنیکی شعبے میں ایک عظیم قوت بن کر ابھرا ہے،وہیں دوسری جانب سرزمین ہند پر سماجی دشمنی کےپودے زہریلے جنگل جھاڑکی مانند پنپ رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں تکنیکی شعبے میں ہندستان ترقی یافتہ ملکوں سے مقابلہ کرنے کا جتن کررہا ہے تو وہیں دوسری طرف  فرقہ واریت کے زیر اثر وطن عزیزکی قدیم مشترکہ  تہذیب و ثقافت  کا دم گھٹتا نظر آ رہا ہے ۔  اس ملک کی اساس  سیکولرز م پر رکھی گئی تھی لیکن موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فرقہ واریت کی مسلسل  ضرب کاری نے سیکولرزم کو کافی کمزور کردیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ فطری اصول ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ   ہم ملک میں سیکولرزم کو جس قدر فروغ دیں گے فرقہ واریت  کے لئے اتنی ہی کم جگہ باقی بچے گی  اور ٹھیک اسی طرح فرقہ واریت کو جس قدر فروغ دیا جائے گا   سیکولرزم کے لئے  ملک میں اتنی ہی  کم جگہ بچے گی۔ 
ملک میں  جہاں  ایک سمت جینیاتی تبدیلی یا جینیاتی اختلاط کی کوششیں جاری ہیں تو وہیں کچھ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ دنیا کے دیگر لوگ ایک طرف خلا میں اڑان بھرنے اور ستاروں پرکمندیں ڈالنے کی جستجو میں ہیں، جہاں سے ہندستان ہی کیا، ساری دنیا ہی یکساں نظرآتی ہے تو وہیں ہمارے جمہوری اور سیکولر وطن عزیز میں دھرم اور مذہب کے نام پرلوگوں کو باہم دست و گریباں دیکھ کر عالمی برادری ہمارا مذاق اڑارہی ہے۔ یہ سب اس صورت میں ہے جبکہ ملک میں دیگر بہت سے  اہم سنجیدہ مسائل پہلے ہی سے موجود ہیں۔ مثال کے طورپر غربت، بے روزگاری، شرح ناخواندگی اور بیماری  جیسے مسائل جن کےخاتمے  کے لئے سنجیدہ اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجودہم اپنی تمام تر توانائی،وسائل اور وقت فرقہ واریت  کے زیر اثر  ہونے والے تشدد   کے خوف کے ازالے میں صرف کر رہے ہیں۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے اور یہ درست بھی ہے  کہ برطانوی سامراج نے ملک میں فرقہ واریت کی تخم ریزی کی اور  نہایت عیاری سے ہندوستان کے مختلف سماجوں کو مذہب، طبقات اورفرقوں میں تقسیم کردیا کیوں کہ اس کا مقصد ہندوستان پر اپنے راج کی توسیع کرنا تھا۔انگریزوں کی اس سازش کی انتہا تقسیم ہند جیسے سانحے پر آکر ہوئی۔  اس طرح ملک کی قدیم مشترکہ تہذیب کے تانے بانے کو  برطانوی سامراج نے فرقہ واریت کے اثر سے کمزور کر دیا اوراس طرح  فرقہ واریت کی اصطلاح معروف ہوئی۔   اس ملک سے انگریزوں کو گئے ہوئے سات دہائیاں گزر چکی ہیں  اور اتنا ہی وقت اس ملک کو آزاد ہوئے ہوا ہے لیکن فرقہ واریت بجائے کم ہونے کے مزید بڑھی ہے ۔ آئے دن اخبارات کے صفحات فرقہ واریت پر مبنی واقعات سے  سیاہ نظر آتے ہیں۔ نیوز چینلز پرہو رہی زیادہ تر بحثیں  فرقہ واریت پر مبنی  ہوتی ہیں  اور اب تو   ملک میں  برطانوی سامراج بھی نہیں جسے مورد الزام ٹھہرا یا جا سکے۔  ڈاکٹر امبیڈکر نے25 نومبر 1949 کو      کانسٹیٹیونٹ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے  کہا تھا کہ ” آزادی بلا شبہ خوشی  کی بات ہے  اور آزادی ملنے سے اب ہم نے کسی بھی غلط کام کے لئے انگریزوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا بہانہ  کھو دیا ہے ۔ اگر اس کے بعد چیزیں غلط ہوتی ہیں تو اس کے  لئےہمارے علاوہ اور کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔”  
مشہور مارکسی مصنف رجنی پام دت کے مطابق فرقہ واریت کے محرکات کے پس پردہ معاشی اور سماجی  تفاوت رہے ہیں۔ جب مسلم طبقے کے جدید تعلیم یافتہ متوسط کلاس اور سرمایہ دار طبقے نے دیکھاکہ برطانوی عہد سے ہی مسلمان اپنی روایتی ترجیحات اورخوب سے خوب تر رہنے کی فکر کھوتے جارہے ہیں اورہندوسرکاری نوکریوں پر بھی حق جماتے جارہے ہیں،تو انہیں اپنے عوامی طبقے کی حمایت کا خیال آیا۔انہوں نے ہی اس جدوجہد کو غلط رخ دیا اور اسے فرقہ واریت کا جامہ پہناکر ہندومسلم تصادم کا روپ دیا۔یہ اور بات ہے کہ انہیں اپنی جاگیردارانہ فطرت کو ترک کرکے ترقی کے مرکزی دھارے میں جلد ہی شامل ہوجانا چاہیے تھا۔ ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے ۔مسلمانوں کے متوسط اور سرمایہ دار طبقے کو اپنی کمیونٹی کو الجھن اور ابہام میں ڈالنے کے بجائےانہیں تعلیم،ہنر اور مقصدی زندگی کی جانب گامزن کرنا چاہیے تاکہ وہ ملک میں مروجہ یکساں اور حاصل شدہ اختیارات کا استعمال کرسکیں۔
ملک میں آزادی کے بعد جو معاشی ترقی ہوئی،اس سے علاقائی اقتصادی عدم مساوات کا جنم ہوا۔اس نے بھی جدید فرقہ واریت کو ابھارا جس نے فرقہ وارانہ تشدد اور تصادم کی شکل اختیار کرلی اورجو خالصتان،گورکھا لینڈ،ناگالینڈ یا منی پور میں علیحدگی پسند تحریکات کی صورت میں اجاگر ہوا۔اس سے عوام میں سخت غلط فہمیاں پیداہوئیں کہ وہ گن پو ائنٹ پر زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرسکتے ہیں نیز بغیر پڑھائی لکھائی کے بھی بہترین زندگی جی سکتے ہیں۔مقامی دانشوروں نے اسے خالصتاً معاشی مسئلہ نہ تصور کرتے ہوئے اس میں مزید بھاشا اورثقافت سے وابستہ مسائل شامل کرکے مقامی جذبات کو بھڑکایاجس نے آگ میں گھی کا کام کیا۔عالم یہ ہے کہ آج دہشت پسند کسی کی بھی نہیں سنتے ہیں،مقامی دانشور تو آگ لگا کر اپنے آرام دہ کمروں میں بند ہوگئے مگر نوجوان اپنے جیسے ہی جوانوں(پولیس والوں)سے متصادم ہیں اور خون کی ہولیاں کھیل رہے ہیں۔
آزادی کے بعد ترقی کے تجربات کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جن ریاستوں میں فرقہ واریت کا ناسور پھیلتاگیا وہاں کی ترقی کی رفتار اسی اعتبار سے تھمتی چلی گئی۔موجودہ دور میں  جو ملک مذہبی بنیاد پر عمل پیرا ہیں  ان کے مقابلے میں مذہب بیز ار ملکوں نے زیادہ ترقی کی ہے۔
آئین ہند کی شق 51(ک)کے مطابق ملک کے سبھی شہریوں میں لسانی،مذہبی،طبقاتی اور علاقائی یگانگت نیز ہم آہنگی کو ترویج دینا چاہیے۔دستور کے مطابق ہر شہری کا یہ فریضہ ہے۔وہ یہ عمل ریاست یا حکومت کے متھے منڈھ کر اپنے اس فریضے کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔جذباتی یگانگت و اتحاد ہی کسی بھی ملک میں قومی اسپرٹ یا وقارکی ترسیل کرتی ہے۔ایسی ہی یگانگت کے بعد تمام طرح کی تفریق خود بخود ہی مٹ جائے گی۔ایسی ہی یگانگت کے سامنے نام نہاد مذہبی افراد کے دلائل  بے معنی ثابت ہو جاتے ہیں  ۔جذباتی یگانگت سے مقصودہے باشندوں اور شہریوں کے باہمی سکھ دکھ میں شامل ہونا۔
یہ بھی سچ ہے کہ جہاں جہاں فرقہ وارنہ فسادات رونما ہوئے اور ان کی زدمیں انسانیت کے ساتھ ساتھ بے شمار املاک بھی تباہ ہوئی،وہیں جذباتی یگانگت و اتحاد کے مناظر بھی رونما ہوئے جن سے ثابت ہواکہ قومیت ابھی بھی زندہ ہے، اگرچہ ان فسادات کی آڑمیں کچھ لوگوں نے اپنی سیاسی روٹیاں بھی سینکیں اور اپنے مقاصد بھی حاصل کیے۔مگر سوال تو یہ ہے کہ جو جو افراد ان فسادات سے متاثر ہوئے اور جن جن علاقوں میں اس آگ نے گھر اور ارمان جلائے،ان کا مداوا کیسے ممکن ہے؟
القصہ مختصریہ کہ عوام ہوش مند ہوگئے ہیں نیز فرقہ واریت کی روٹی سینکنے والے مذہبی اور سیاسی نیتاؤں کی سازشیں  اور کوششیں ان کی سمجھ میں آنے لگی ہیں۔البتہ ابھی ان کی طاقتوں سے خوف زدہ ہیں مگر وہ دن دور نہیں جب خود غرض لیڈران اور ان جیسے دیگر عناصرکا شیرازہ بکھرجائے گا۔عوام ان سے چن چن کر حساب چکتا کریں گے۔اس کے بعد وہ باہمی دوستی اور ہم آہنگی سے رہ کر اپنی پرسکون اور خوش حال زندگی بسرکرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت اور پرامن سماج کی تعمیر کریں گے جس کا مقصد ہندستان کو ہر پہلو سے د نیا کےمضبوط ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب کب آئے گا؟  ابھی ارض وطن کو اور کتنوں کا لہو چاہیئے؟     اور کتنی آہوں سے اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا؟   کیا سیاسی طور پر شکست دے کر ہی فرقہ واریت کو  ختم کیا جا سکتا ہے؟   مشہور مؤرخ بپن چندر اپنی کتاب  "کمیونلزم ” میں لکھتے ہیں کہ ہمیشہ سیکولر جماعتیں بی جے پی کو  الیکشن میں  شکست دے کر  مطمئن ہو جاتی ہیں کہ  بی جے پی کی سیاسی شکست کے ساتھ ہی فرقہ واریت بھی ختم ہو گئی جیسا کہ 2004 کے الیکشن میں ہوا  اور یہ تمام سیکولر سیاسی جماعتیں یہ بھول جاتی ہیں کہ فرقہ واریت محض سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی مسئلہ ہے اور نظریاتی مسئلہ  الیکشن کی فتح و شکست سے ما ورا ہے۔  اسی لئے الیکشن میں شکست دینے کے باوجود فرقہ واریت پر  نظریاتی سطح پر مسلسل مقابل کرنے کی ضرورت  ہے۔

Exit mobile version