✍️ قاسم سید
_______________
گزشتہ دنوں ایک خبر آئی، مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ۔کسی نیوز چینل نے اس کو قابل اعتنا نہیں سمجھا کسی بڑے اخبار میں تذکرہ نہیں ہوا اورہوا ہوا بھی تو اندر کے صفحات میں چھوٹی سی جگہ دے دی گئی نہ پرائم ٹائم میں اس کو ڈیبٹ میں تذکرہ ہوا -جب اس خبر پر غور کریں گے تا اس کے ساتھ ہوئے “سوتیلے پن “کی وجہ بھی سامنے آجائے گی
خبر یہ ہے کہ کیرالہ پولیس نے کننور ضلع کے پوئیلیور علاقے میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) لیڈر کے گھر سے 700 کلو گرام سے زیادہ دھماکہ خیز مواد برآمد کیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ چھاپے کے دوران آر ایس ایس کے کارکن وڈاکائل پرمود اور ان کے رشتہ دار وڈاکائل شانتا کے گھر سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔ پرمود نام کاشخص مفرور بتایا جاتا ہے۔ مکتوب میڈیا نے ایک پولیس افسر کے حوالے سے کہا، "خفیہ معلومات کی بنیاد پر، کولوالور پولیس کی قیادت میں آپریشن شروع کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس مواد کو قبضے میں لیا گیا- پولیس افسر نے بتایا "ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد کا مقصد اس کی غیر قانونی تقسیم تھا۔ ، ہم نے واقعے کے سلسلے میں دو مقدمات درج کر کے قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔ ۔” یہ دھماکہ خیز مواد ایسے وقت میں برآمد کیا گیا ہے جب لوک سبھا انتخابات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ ان کا مقصد انتخابات کے دوران افراتفری پھیلانا اور ووٹرز کو دہشت زدہ کرنا بھی ہوسکتا ہے۔
تاہم ملزم کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ دھماکہ خیز مواد پٹاخے بنانے کے لیے لایا گیا تھا۔ لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ پٹاخے بنانے اور ایسے دھماکہ خیز مواد رکھنے کے لیے لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ فائر بریگیڈ کو اطلاع کرنی ہوگی۔ سنگھ لیڈر کے اہل خانہ ابھی تک کوئی لائسنس نہیں دکھا سکے
(ستیہ ہندی یکم اپریل 024)
شاید اب کچھ تبصرے کی ضرورت نہیں ہے ۔جس کے گھر سے برآمد ہوا اس کا نام ہرمود ہے پرویز یا مجید نہیں وہ آرایس ایس کا لیڈر ہے کسی مسلم نام کی تنظیم کا نہیں ۔تو پھر کیوں کارہورٹ میڈیا اس کی خبر لیتا -اس سے ٹی آر پی نہیں ملتی-پھر آقاؤں کے “مطلوبہ معیار” کا بھی سوال ہے ذرا تصور کریے کہ 770کلوگرام دھماکہ خیز مواد کسی میاں کے گھر سے ملتا تو پورے ملک کہرام نہ مچ گیا ہوتا ۔اس کے قلابے پاکستان،آئی ایس آئی،آئی ایس ایس ،القاعدہ سے ملا دیے گئے ہوتے سازش کے تار بیرون ملک نظر آتے۔ملک کو دہلانے کی سازش “بے نقاب “کرنے کا عمل جھوٹ کی فیکٹری میں پروڈکٹ کیا جارہا ہوتا ،صبح شام سوتروں کے حوالہ سے نئے نئے انکشافات ہورہے ہوتے-کئی نوجوان سلیپنگ سیل کے نام پر گرفتار کرلئے جاتے ۔مگر یہ سب نہیں ہوا بلکہ معصومانہ انداز میں کہہ دیا گیا کہ یہ تہواروں کے موقع پر پٹاخے بنانے کے لئے لایا گیا تھا اس کا جواب پولیس نے اوپر دے دیا ہے
اس صورت حال کو سمجھنے، اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ہمارے پاس وسائل ہیں مگر ان کا صحیح استعمال نہیں ۔میڈیا کے میدان میں پھسڈی ہیں اور کوئی یہ کمزوری دور کرنے کی زحمت کرنا ضیاع وقت اور ضیاع وسائل سمجھتا ہے -نریٹو کا جواب دینے اور perception کا توڑ تلاش کرنا بہت ضروری ہے -ہمیں لگن کے ساتھ اس فیلڈ کے خلا کو پر کرنا ہوگا ۔سنجیدہ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں اور ان کو ہی کچھ کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا ۔اور اس کا جواب ضرورُتلاش کیا جائے مسلمان سب سے نرم چارہ کیوں ہیں اور کیسے حالات کو بدلا جاسکتا ہے -آپ کے قیمتی مشورے ۔تبصرے کا انتظار رہے گا-