✍️ رضوان نسیم
____________________
آج مؤرخہ 24 رمضان المبارک صبح بوقت سحر یہ المناک اطلاع ملی کے بھروچ کے نامور عالمِ دین مولانا اسمعیل بھوٹا بھی راہی ملکِ عدم ہوئے! انا اللہ وانا الیہ راجعون
مولانا اسمعیل بھوٹا نوراللہ مرقدہ کئ سالوں سے انگلینڈ میں مقیم تھے ، اور وقتا فوقتا دنیا وما فیہا کے اسفار کرتے رہتے تھے ، خصوصا ھندوستان کے شہروں ، قصبوں، دیہاتوں کا سفر کرتے تھے ، پیرانہ سالی اور ضعف و نقاہت کے باوجود مسلسل سفر انکی زندگی کا جزء لا ینفک تھا ،ان سفروں کے درمیان تقریبا 8 سال پہلے مولانا صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر رتلام بھی وارد ہوئے تھے ، وہاں کے مولانا عتیق احمد قاسمی مولانا کو ہمارے یہاں لے آئے ، مولانا کیساتھ ہمارے طالبعلمی کے ساتھی مولانا زاہد صاحب بھی تشریف لائے تھے ، ان کی مولانا کیساتھ رفاقت اور دیرینہ قلبی تعلقات کی وجہ سے ھمارا اکرام دو بالا ہو گیا ، مولانا سے یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی ، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ھیں کہ ان کے ان مٹ نقوش ہمیشہ ذہن و دماغ میں تازہ رہتے ھیں!
مولانا پرانے دور کے آدمی تھے ، بہترین ششتہ ادبی زبان بولنے کے عادی تھے ، ان کا مزاج و مذاق بلکل علحیدہ تھا ، وجہ اسکی خاص یہ تھی کہ وہ جہاں دیدہ آدمی تھے ، علم و عمل کی پختگی اور جہاں دیدگی کے سبب انکا تجربہ شرابِ دو آتشہ ہو گیا تھا ، ادھر انگلینڈ میں مسلسل کئی سالوں تک انہوں نے ردِ فرقہ باطلہ کیلئے اپنے قلم کو دو دھاری تلوار بنا رکھا تھا ، اس لئے انکی مجالس بہت پر لطف ہوتی تھی ، ھم جب انکی مجلس بھی وارد ہوئے تو دو چار باتوں میں ہی مولانا کھل گئے ، اور انکی طبیعت خوش ہو گئی ، پھر وہ مظاہر علوم کے قصہ اور اکابرینِ علماء مظاہر علوم کی علمی خدمات پر گویا ہو گئے ، مولانا مسلسل بولتے رہنے کے عادی تھے ، اس مجلس کے درمیان مولانا تقریبا آبدیدہ ہوگئے ، اور کہنے لگے ، دنیا گھومتا ہوں ، اور کروڑوں کے کام کرتا ہوں ، مگر جو مزہ علم و کتاب میں ھے ، وہ دنیا میں کہیں نہیں!! انہوں نے انگلینڈ میں کئی سال علامہ خالد محمود کے ہمراہ کام کیا تھا ، اور ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی تھے ، انکے سمرقند و بخارا کے اسفار بہت دلچسپ تھے ، بہر حال یہ مجلس مولانا زاہد صاحب کی ذات پر اختتام پذیر ہوئی کہ انکو ھم نے مزاحا *زاہد الراشدی* کا خطاب دیدیا تھا ، مولانا بہت خوش ہوئے ، انہوں نے ٹنکاریا کی دعوت تھی ، دو چار مہینوں کے بعد ہم ٹنکاریا ایک سفر کے دوران حاضر ہوئے ، ان دنوں انکے مدرسہ بنات میں تعطیلات تھی ، مگر مولانا زاہد کی خندہ پیشانی اور پر تپاک استقبال نے شکایت کا موقع نہیں دیا ، اس سفر کا اب تو کچھ یاد نہیں البتہ انکے جامعہ کا صدر دروازہ دیکھا جو قوی ہیکل اور مغلیہ طرز و طمطراق کا نمونہ تھا ، مولانا زاہد صاحب نے بتایا کہ یہ بخارا کے مدرسہ کے صدر دروازے کا عکس ھے ، مولانا کو ِن مسلسل سفر اور فلاحی کاموں کے ہجوم کے سبب طرزِ تعمیر کا نہایت سلیقہ تھا ، وہ دور دراز کے علاقوں کا سفر کرتے اور انکی ضرورتوں کا تکفل فرماتے تھے ، اللہ تعالی ان کے ذریعہ کئے گئے تمام اعمالِ صالحہ کو شرفِ قبولیت سے نواز کر ان کے حق میں ذریعہ نجات بنائے ، آمیں ہم اپنی طرف سے انکے اور اہلِ خانہ کے اور جامعہ کے تمام لوگوں سے تعزیتِ مسنونہ پیش کرتے ھیں ، اور دعا کرتے ھیں کہ خدا انکی کروٹ کروٹ مغفرت فرما کر جنانِ اعلی میں بلند مقام نصیب فرمائے ، آمین