Site icon

رمضان کی بجائے خود کو الوداع کہئے!

✍️: شکیل منصور القاسمی

__________________

بلاتخلُّف ہر سال آنے والے ماہ مبارک “رمضان کریم “ اور اس کے آخر جمعہ کو زبردستی “الوداع “ کہہ دینا بجاے خود حماقت ہے جو در اصل مشرقی ممالک کی ناپسندیدہ خانہ زاد اصطلاح ہے ، شریعت اسلامیہ سے اس کا کوئی سرو کار نہیں !
رمضان کی بجائے ، بندے کا اپنی زندگی کو  “الوداع “ کہنا زیادہ موزوں ہے ، خالق کائنات اور مولائے حقیقی ہی بہتر جانتا ہے کہ آئندہ سال کی بہارِ جاں افزا (رمضان المبارک ) میں مرجھا جانے والی آخری کَلی کون سی ہے ؟ کسے آئندہ سال کی بھری بَہار میں کھِلنے  اور مسکرانے کا موقع ملے گا اور کسے  پیوندِ خاک بن جانا ہے ؟  
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گی

گنتی کے جو چند ایام بچے ہوئے ہیں ان میں ہر کوئی اپنی حیات مستعار کو الوداع کہتے ہوئے رو دھوکر رب ذو الجلال کو منالے اور اپنے لئے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ حسنات  کرلے ۔
رمضان منبع الخیر وسرچشمۂ حسنات ہے یعنی پورے سال نیکیوں کی توفیق رمضان میں جمع شدہ عبادات کے بقدر ہی ممکن ہوتی ہے
جس نے جتنا ذخیرہ کیا ہوگا اسے سال کے بقیہ ایام اتنے ہی توفیق طاعات ہوگی ، جو اس میں حرماں نصیبی کا شکار ہوکر صِفر رہا وہ پورے سال خالی داماں اور نامراد ہی  رہے گا ۔
مل جائے جو بھی وقت غنیمت سمجھ کے چل
کیا اعتبار سانس کا جب تک چلی چلی !
الوداعی جمعہ کا تصور غیر شرعی ہے:
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو کسی بھی طرح کی کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ اس دن کے روزے کا دوسرے دنوں کے روزےکی بہ نسبت زیادہ ثواب ہے ۔رمضان کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ سمجھنا ، برتنا اور اس پہ حسرت و افسوس کا اظہار کرنا یا اس دن نئے کپڑے ،نئے قسم کے کھانے  یا کسی خاص عبادت کا اہتمام کرنا بالکل ہی جاہلانہ تصور ہے
دین سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے –
رمضان کے ہر روزہ کے افطار کے وقت اور خصوصا عید الفطر کے دن روزہ داروں کے لئے مسرت وشادمانی کا وقت ہے :
{وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ .صحيح البخاري : 7054 }
پہر رمضان کے آخری جمعے میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا یا جمعہ کے خطبہ میں ” الوداع الوداع ” یا ” الفراق الفراق یا شھر رمضان ” جیسے کلمات پڑھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے ؟
رمضان تو ہر سال آتا ہے اور آئے گا ! اس کے انوار وبرکات کی فصل بہاراں ہر سال لگے گی !
رحمتوں کی بارش ہر سال برسے گی ، پہر اسے الوداع کہنے کا کیا مطلب ہے ؟
ہجرت کے دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  پہلا اور آخری حج ادا فرمایا اس لئے اس حج کو "حجة الوداع ” کہتے ہیں ۔لیکن آپ کے آخری رمضان کے آخری جمعہ کو "جمعة الوداع ” اور آپ کی آخری نماز کو "صلوة الوداع ” نہ آپ نے خود کہا ، نہ کسی صحابی نے کہا ، نہ تابعی نے ، نہ متقدمین ومتاخرین میں سے کسی امام مجتہد نے  ۔ لہذا رمضان کے آخری جمعہ کے لئے وداعی جمعہ کا تصور اور اس موقع سے اظہار افسوس کے کلمات واشعار یا اس دن کسی مخصوص عبادت وثواب یا لباس کا اہتمام والتزام غیر شرعی سوچ اور دین میں نئی بات کا اضافہ ہے جو بہر حال قابل ترک ہے۔

Exit mobile version