✍️ جاوید اختر بھارتی
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
________________
یوں تو کسی نے گانا بھی گایا ہے کہ
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا
جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا
ان دو لائنوں میں بڑی کڑواہٹ ہے، بڑا درد ہے، افسوس اور غم ہے، مایوسی ہے، زخم ہے، تشویش ہے، ہمت ہارنے کی جھلک ہے، مجبوری کا اظہار ہے لیکن اسی میدان میں کھڑے ہو کر جب کوئی انسان آنکھوں سے آنسو بہا تا ہے تو چند قطرے زمین پر گرتے ہیں تو وہاں نشان ظاہر ہوتا ہے، پھر اسی نشان سے قدم آگے بڑھانے کا راستہ ملتا ہے، کیونکہ دنیا میں سمندر ہے، دریا ہے، تالاب ہے، پھر آنسو کے قطروں کی کیا اوقات۔ مگر نہیں ایک ہی قطرہ زمین پر گرا تو نشان پڑگیا۔ اسی طرح ایک کمزور ناتواں کی نگاہ مخمل کی سیز پر زندگی کا گذر بسر کرنے والے پر پڑی تو اسے بڑی حیرت ہوئی کہ کاش اپنی بھی ایسی قسمت ہوتی، لیکن رات میں کچھ لوگوں کو اخبار بچھاکر سوتے دیکھا تو اس کی گھبراہٹ ختم ہوگئی کہ اپنے پاس گھاس پھوس کی جھوپڑی ہی سہی مگر ہے تو بھلے ہی وہ برسات میں ٹپکے مگر اپنا تو ہے،، ایک شخص کو بڑے مہنگے لباس زیب تن کیے ہوئے دیکھا تو سینے پر ہاتھ رکھ کر غور کرنے لگا تو کہا کہ کاش اپنی بھی ایسی ہی قسمت ہوتی مگر اچانک ایک شخص پر نگاہ پڑتی ہے تو بوسیدہ کپڑا پہنے ہوئے تھا چہرے پر گرد وغبار تھا تو تسلی ہوئی کہ ہماری تو حالت ایسی نہیں ہے غرضیکہ انسان دنیا میں بے شمار مختلف مناظر کا سامنا بھی کرتا ہے اور مشاہدہ بھی کرتاہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ زندگی چمکتے ہوئے چاند کی طرح بھی ہے اور زندگی ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح بھی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہمیشہ اپنے سے کمزوروں کو دیکھا جائے اور ان کے حالات پر غور کیا جائے تو جینے کا حوصلہ ملے گا ۔ کیونکہ دنیا میں چاہے کوئی کتنی ہی اونچی اڑان کیوں نہ اڑلے ، پروٹوکول لے کر چل لے ، کاروں کا قافلہ لے کر چل لے ، سیکورٹی گارڈ لے کر چل لے ، جتنی چاہے دولت جمع کرلے اور اس دولت کے نشے میں ڈوب کر غریبوں سے نفرت کر لے ، شادی بیاہ اور زندگی کے تمام مراحل سب سے الگ تھلگ ہو کر طے کرے اور گزارے مگر جو فرشتہ امیروں کی روح قبض کرنے کے لئے معمور ہے وہی غریبوں کی بھی روح قبض کرنے کے لئے معمور ہے اور سب کی قبر زمین پر ہی کھودی جاتی ہے-
دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا اب دنیا میں ہی مساجد ومدارس بھی ہیں ، روزگار و کاروباری ذرائع بھی ہیں۔ اب انسان کے لئے ضروری ہے کہ ہاتھ پیر چلائے اور تعلیم حاصل کرے؛ جہاں تک ہوسکے. کچھ بن کر ابھرنے کی کوشش کرے اور یہ بھی یاد رکھے کہ قسمت کا لکھا مل کر رہے گا. مگر قسمت کے بھروسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے ناکامی بھی ہوگی۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ لاکھوں من و ٹن لوہا آج آسمان کی بلندیوں کی طرف اڑا رہا ہے انسان ، سمندر کی لہروں سے کھیل رہا ہے انسان ، بم و بارود کے ڈھیر پر انسانوں کی زندگی کو مشکل بنا رہا ہے انسان ، فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کررہاہے ہے انسان ، زمین کی کھدائی کرکے آلات حاصل کررہاہے انسان۔ یہ سب کرنے کے بعد ضروری ہے کہ وہ رب العالمین کا شکر ادا کرے کہ اسی نے دل ودماغ اور صلاحیت و طاقت عطا کی ہے اور جس چیز پر اس نے انسانوں کو قدرت ، طاقت اور صلاحیت نہیں دی ہے اس میں انسان آج بھی ناکام ہے ،، انسانوں نے انگلیوں کی لکیروں کی گنتی کے لئے مشینیں ایجاد کردیں مگر انگلیوں کی لکیریں بنانے میں آج بھی ناکام ہیں ، انسانوں نے بیماریوں کے علاج کے لئے دوائیں ایجاد کردیں مگر موت سے بچانے میں آج بھی ناکام ہیں،، اس لئے جہاں یہ کہنا ہے کہ دنیا میں ہم آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا تو وہیں ہر حال میں تسلیم کرنا ہوگا کہ زندگی اور موت کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے ،، ہم چاہے بڑے بڑے فلسفی ، امیر، رئیس ، مفکر و مقرر مدبر اور حکمراں بن کر رہیں مگر اسی وقت تک رہیں گے جب تک پروردگار چاہے گا ہم اپنی مرضی سے ایک منٹ بھی زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے اس لئے جئیں اور دوسروں کو بھی سکون سے جینے دیں ،، اس زمین پر فساد برپا نہ کریں ، کسی کا حق نہ ماریں ، کسی پر ظلم وزیادتی اور ناانصافی نہ کریں سب کچھ بننے سے پہلے ایک اچھا انسان بنیں تاکہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کےلئے عقیدت و احترام و محبت کا مرکز بنیں لوگ آپ کی مثالیں دیں اور تعریفیں کریں اور دوسروں کے لئے سبق آموز بنیں –
آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی میں انسانیت کا معیار گرتا جارہا ہے کسی نے کہا ہے کہ کاغذ پر ہمیشہ سچ بات لکھو کیونکہ صبح سویرے انسان اکثر اخبار اٹھاتا ہے تو اسے نہار منہ سچائی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملے اور قلم سے ہمیشہ سچ لکھو کیونکہ قلم کی سچائی سے تلواریں بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوجایا کرتی ہیں اور ظلم و جبر کا خاتمہ بھی ہوجاتاہے اور انسان ہوکر انسانوں کی خدمت کرنا ایک نعمت سمجھو اور یاد رکھو خدمت خلق ایک عظیم دولت ہے،، یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری وجہ سے کسی کا دل نہ ٹوٹے اور کسی کا دل نہ دکھے اور یہ نیک جذبہ بھی رکھنا چاہئے کہ آدھی روٹی کھائیں گے مگر حلال کھائیں گے اور اللہ رب العالمین سے رزق حلال کی دعا بھی کرنا چاہئے اور یہ بھی احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے اعمال کا بدلہ بہت حد تک دنیا میں بھی ملتاہے۔