✍️ مسعودجاوید
___________________
ہمارے ملک میں اگر انتظامیہ یا اکثریتی فرقہ کی جانب سے ہم پر ظلم و زیادتی ہو یا دنیا کے کسی خطے میں ہمارے دینی بھائی یا عام انسان کسی ظالم و جابر حکومت ، آمرانہ نظام یا سرکش طاقتور فریق کے ہاتھوں بربریت کے شکار ہو رہے ہوں تو ہمارا رنجیدہ ہونا فطری ہے۔ اس پر دکھ اور افسوس ہمارا دینی فریضہ ہے۔
مظلوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کی تعلیم ہمیں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مثل المسلمين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى» مسلمان آپس میں محبت کرنے، رحم کرنے اور ہمدردی کرنے میں ایک جسم کی مانند ہیں کہ اگر جسم کے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا بدن بخار سے تپتا ہے اور رات کی نیند غائب ہو جاتی ہے۔
تاہم ظلم و زیادتی اور غیر متوازن تصادم کے نتیجے میں قتل و غارتگری پر احتجاج یا اظہار افسوس ہم کس حد تک کریں اس کے حدود متعین ہیں ۔ اسلام دین اعتدال ہے اس لئے اس میں عبادات و عادات میں میانہ روی "خير الامور اوسطها” کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
آج سے تقریباًً دس بارہ سال قبل عید ملن کی ایک تقریب میں مرحوم پروفیسر افتخار صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ رمضان کے روزے رکھنا دراصل ہم امتیوں کا اللہ کے سامنے احتجاج ہے کہ جب تک تو ہمارے حالات بہتر نہیں کرے گا ہم ہر سال ایک مہینہ کے لئے کھانے پینے اور دیگر جنسی خواہشات کو تیاگتے رہیں گے ". میں نے اپنے مختصر بیان میں بتایا کہ پروفیسر صاحب نے جو کچھ کہا وہ خالص ان کے ذہن کی اپج ہے جو سراسر غلط ہے دین اسلام میں روزے کے تعلق سے ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔
غ ز ہ کی المناک صورتحال پوری انسانیت کے لئے باعث رنج و غم ہے ان کے ساتھ اظہار یک جہتی انسانی اور دینی تقاضہ ہے تاہم افراط وتفریط کے بغیر ۔۔۔ بعض حضرات نے اعلان کیا ہے کہ کل یوم عید وہ پرانے کپڑے پہنیں گے ، خوشبو نہیں لگائیں گے ، شیر خورمہ نہیں کھائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ معلوم ہونا چاہئیے کہ فرشتے چاند رات كو لیلةالجائزہ يعنی انعام کی رات کہتے ہیں وہ اس لئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ عید کے دن روزہ داروں کو ان کے روزوں کے بدلے انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور کون بد بخت ہوگا جو اللہ کی طرف سے عنایت کردہ انعام و اکرام کو ٹھکرائے گا!
اسی لئے عید کے دن روزہ ، جو اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عبادت ہے، رکھنا بھی حرام ہے۔
حالات ذاتی ہوں خاندان کے ہوں ، قبیلہ کے ہوں کمیونٹی کے ہوں اجتماعی ہوں، ملکی ہوں، بیرون ملکی ہوں یا بین الاقوامی ہوں، ہمیں شریعت مطہرہ کے حدود کو تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔ صبر و صلوٰۃ کے ساتھ حالات کی بہتری کے لئے دعا کرنی چاہیئے ۔ عید کا دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں انعام دینے کے لئے بلا رہا ہے فرشتے عید کے دن صبح صبح ہر راستے پر آواز دیتے ہیں جاؤ مسلمانوں اپنے اپنے انعامات اللہ سے لے لو ۔ ایسے میں بازوؤں اور پیشانیوں پر کالی پٹی باندھنا یا کسی بھی شکل میں خوشی کی بجائے علامتی رنج و غم کا اظہار درست نہیں ہے۔ اظہارِ غم درست نہیں ہے ہاں احساس غم یہ ہمارے اختیار سے باہر ہے ۔