✍️ محمد ناصر ندوی، دبئی،متحدہ عرب امارات
______________
اس دنیا میں انسان کو جوکچھ ملتا ہے تو اس کی اپنی صلاحیت کی وجہ سے ملتا ہے ، اسی طرح جب بھی کسی نعمت سے محرومی ہوتی ہے تو خود اپنی کوتاہی بھی شامل ہوتی ہے ،اگر آدمی کسی نعمت سے محرومی کا شکار ہوجائے تو اسے دوسروں کی شکایت میں اپنا وقت نہیں ضائع کرنا چاہئے ،بلکہ اسے چاہئے کہ اپنے اندر ناکامی کے اسباب تلاش کرے،اور اس کے مطابق اپنی مستقبل کی زندگی کےلئے نئی طاقت کے ساتھ جدوجہد شروع کرے، اور اس وقت تک جاری رکھے ،جب تک ،،ہدف،،تک نہ پہونچ جائے ،
جب کوئی رکاوٹ پیش آئے تو آدمی کو اپنے لئے ایک چیلینج سمجھنا چاہئے، اور اپنی فطری صلاحیت سے اس کا سامنا کرنا چاہئے ،اپنے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ برقرار رکھنا چاہئے ، جس شخص کا ذہن مسائل کے سامنے آنے کے بعد اس کی تدبیر کی تلاش میں لگ جائے ،وہ ان شاء اللہ کامیاب ہوکر رہے گا، کیونکہ اس دنیا میں ہر مسئلہ کا ایک حل، اور ہر مشکل کی ایک تدبیر ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں یہ محسوس ہورہا ہے کہ قوم میں بزدلی اور تساہلی بڑھ رہی ہے ،ساری دنیا کو جگانے والی قوم خود سو رہی ہے،اور مردہ ہوتی جارہی ہے ، جب کسی قوم یا افراد میں ایسی علامتیں ظاہر ہونے لگیں جو مردہ قوموں کی ہوتی ہیں ، تو زمانہ کے ہوشمندوں کو چاہئے کہ اپنی تمام ترصلاحیتیں بروئےکار لاتے ہوئے قوم کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں اپنی جان لگادیں،اور قوم کی ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہونچا کر دم لیں ،جب قوم میں شعور کا فقدان عام ہوجائے ( یہ بڑی تشویش کی بات ہے ) تو ایسے نازک حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ ساری طاقت تربیت اور تیاری کے محاذ پر لگائی جائے، اورقوم میں ازسرنو زندگی کی اسپرٹ (sprit) پیدا کرنا ہی اصل کام سمجھا جائے،
دور عروج کا قومی پروگرام پیش قدمی ہوتا ہے ،اور دور زوال کا قومی پروگرام تیاری ہوتا ہے، دور عروج میں قوم اپنے اختتام میں ہوتی ہے اور دور زوال میں دوبارہ اپنے آغاز پر پہونچ جاتی ہے۔
(وتلك الأيام نداولها بين الناس )
آج کے پرآشوب دور میں دانشوران قوم کو آگے بڑھنا ہوگا،اور ملت کی ڈوبتی نیا کو اپنے کندھوں سے سہارا دے کر ساحل پر لنگر انداز کرنا ہوگا، اس وقت سب سے بڑی خدمت باشعور افراد سازی ہے،تعلیم یافتہ طبقہ ملت کو فراہم کرنا ہے،ایسے رجال تیار کرناہے، جو حالات کے دھارے کو موڑ سکیں، اور کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرسکیں،اور ملک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار پیش کرسیں۔ اگر ملک میں عزت کے ساتھ رہنا ہے تو جس طرح ملک کی آزادی میں حصہ داری رہی ہے، اسی طرح اپنی افادیت ہر اعتبار سے ثابت کرنی چاہئے، بلکہ جہاں مسلمانوں کو حاشیہ پر لگانے کی مسلسل کوشش ہو ،وہاں مزید مضبوط دعویدار بننے کےلئے ہر میدان میں آگے آنا چاہئے تھا، اب اس دور میں بھی اگر اس جانب توجہ نہ دی کئی اور سنجیدگی سے اس پر کوشش نہ کی گئی تو صرف رونا رونے سے مزید حالت تشویشناک بنتی جائے گی۔
موجودہ حالات کے پیش نظر قوم میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،اور ہر میدان میں خاطر خواہ رہنمائی درکار ہے،اگر تسلسل کے ساتھ پانچ کاموں پر خصوصی توجہ دی جائے،اور فوری عملی قدم اٹھایا جائے تو حالات تبدیل ہونے میں ممد ومعاون ثابت ہوں گے، اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں نتیجہ مثبت ہوگا۔
(1) تعلیمی (2) رفاہی (3) اصلاحی (4) طبی ( 5) اور معاشی۔
۔یہ پانچ شعبوں کا نظام آگر منظم کرلیا جائے تو آنے والے چند سالوں میں حالت مستحکم ہوسکتی ہے۔
(1) : عصری تعلیمی ادارے :
تعلیمی ادارے اس طرز پر مزید کھولنے کی ضرورت ہے ،جس میں اسلام کی بنیادی تعلیم ایسی مضبوط ہو کہ بچوں کے ایمان وعقیدہ میں تزلزل نہ پیدا کیا جا سکے ،اور دنیا میں باعزت زندگی گزارنے کےلئے ، ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا نمایاں کردار ادا کرنے کےلئے لائق وفائق افرادتیارکئےجائیں،جنہیں علاقائی زبانوں پر عبور ہونےکے ساتھ انگریزی زبان میں بھی مافی الضمیر ادا کرنے کا سلیقہ ہونا چاہئے،نیز عصری علوم میں ایسی مہارت پیدا کی جائے کہ بچہ کو کسی موڑ پر پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ،بلکہ ملک کے باشندے اس کی استعداد ولیاقت پر اعتماد کرنے پر مجبور ہوں۔سائنس،کمپیوٹر اورٹکنالوجی میں بھی ایسی مہارت پیدا کی جائے کہ قائدانہ کردار پیش کرنے کے مستحق قرار پائیں ،اگر ایسے ادارے سنجیدگی اور محنت کے ساتھ کام کریں گے تو ان شاء اللہ بہت جلد بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار ہوجائیں گے،جو خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہونگے، اور جس علاقہ میں رہیں گے وہ علاقہ بھی چمکے گا ، ملک کی ترقی میں بھی اپنا متاثرکن کردار ادا کرسکیں گے ۔
(2) : طبی خدمات :
ہرضلع میں ایک ایسا مرکزی ہاسپٹل ہونا چاہئے ،جہاں ہر طرح کی مشینیں مہیا ہوں، تجربہ کار ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہو، تاکہ مریض کو ہر سہولت فراہم کی جاسکے ، اور ہر بیماری کا تشفی بخش علاج ممکن بنایاجاسکے، ضلع کے ایک مرکزی اسپتال کے علاوہ ہر 25 کلو میٹر پر چھوٹے ہاسپٹل بنائے جائیں ،تاکہ کسی بھی مریض کو اپنے علاقہ میں آسانی کے ساتھ فوری علاج مل سکے، ہر 2 سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر کلینک کا انتطام ہوناچاہئے، جہاں روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔
(3) : اصلاحی گروپ :
ہر گائوں اور شہر کے ہر محلہ میں ایسے افراد کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے ،جو لوگوں کے درمیان اصلاحی خدمات انجام دینے کےلئے ہمہ وقت تیار رہے، علاقہ میں رہنے والے لوگوں میں کچھ اختلافات پیش آئیں ، تو مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کرے ،کسی کی بےجا پشت پناہی نہ ہو ، بلکہ اخلاص کے ساتھ لوگوں میں صلح کی حتی المقدور ایسی کوشش ہو کہ معاملہ حل ہوجائے ۔
(4) : فلاحی خدمات :
ہر گائوں اور شہر کے ہر محلہ میں ایسے افراد کی ایک ٹیم تیار کی جائے جو غریبوں ،بیوائوں ،مسکینوں، یتیموں اور ضرورت مند لوگوں کی خبر گیری رکھے،بیماروں کے علاج میں مدد کرے ، ضعیفوں اور پریشان حال افراد کا ہر ممکن تعاون کرے، مالی تعاون کے ذریعہ حاجتمندوں کی حاجت براری کی ممکن بھر کوشش کرے،اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور کرنے کی فکر رکھے۔
(5) معاشی استحکام:
ہر علاقہ میں ایک ایسا گروپ کھڑا کیا جائے ،جو چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرے، جس میں جائز چیزوں کا کاروبار ایمانداری کے ساتھ کیا جائے، قیمت اور کوالٹی دونوں نہایت مناسب ہو ،دھوکہ وفریب سے پاک، بدعہدی و بے اعتمادی سے دور ہو، دیانتداری ایسی ہو کہ ہرخاص وعام کو مکمل بھروسہ اور اعتماد ہوسکے۔
ان پانچ نکات پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا جائے تو بہت جلد مثبت نتائج سامنے آنے کی قوی امید ہے ۔
"وماذالك على الله بعزيز”